سنہ 1947 کی 15 اگست سے قبل ہی نگاہوں میں اجنبیت آگئی تھی۔ زندگی امتحان لیتی ہے تو اخلاقی اورانسانی قدریں اور مذہبی رواداری ہمسائیگی اور شناسائی کےدعوے۔یہ سہارے یہ سوت کے دھاگے ‘ ایک جھٹکے سے ٹوٹ جاتے ہیں(جانثار اختر)۔
یوم آزادی قریب آیا تو ماحول یکسر بدل گیا۔ گردونواح میں میرٹھ سے دہلی تک مسلمان آبادی اقلیت میں تھی۔رات کو کبھی کبھی دور سے’جے ہند‘ کےنعرے بھی سنائی دینے لگے تھے۔ پاس پڑوس کے ہندو ہمسائیگی کے سب رشتے بھلا بیٹھے تھے۔چند گھر چھوڑ کے ابا کے ایک دوست ابن حسن کے گھرریڈیو تھا لیکن مجھے اس کی شکل سے زیادہ ان کی بےحد حسین اور طرحدار بیوی شہر بانو کی صورت یاد ہے ۔ ابا اور چند مسلمان دوست وہاں دیوار پر لگے نقشے میں سرخ پنسل سے پاکستان کی حد بندی کرتے رہتے تھے۔ایک رات میں انہی کے گھر سے لوٹ رہا تھا اور اپنی دھن میں’پاکستان ز ندہ باد‘ گا رہا تھا کہ سکسینہ نے باہر آ کے میری پھینٹی لگائی۔ ’’ مسلے کتےکے بچے۔۔میرے دروازے پر بھونکتا ہے‘‘۔ یہ وہی تھا جو مجھے اور بھائی کو ریڈیو سننے کے لیے اندر بلا لیتا تھا۔
گھر آکے روتے روتے اماں سے اور بعد میں ابا سے شکایت کی تو ایک جھانپڑ اور پڑا۔اماں نے بچایا کہ بچے کو کیا پتا ورنہ ابا اپنے طریقے سے پورا زندہ باد سمجھاتے ۔ لیکن اس کے بعدایسی راتیں بھی آئیں جب ہم دو دو تین تین جوڑے اور جوتے پہنے دور سے بلوائیوں کے نعرے سنتے رہے اور فرار کے لیےتیار بیٹھے رات گذار دی ۔ اب سوچتا ہوں کہ کیا ہم فرار ہو پاتے؟ ۔ نکلتے تو کدھر جاتے ساتھ کیسے رہتے؟ ۔ابا نے بھی عافیت اسی میں جانی کہ ہمیں دہلی میں ایک دوست کے گھر عارضی طور پر شفٹ کر دیا جائے۔ بعد میں پاکستان تو جانا ہی ہے‘ وہ لکھ کر دے چکے تھے۔ ان کے اس فیصلے کا منطقی جواز وہ خود جانتے تھے۔ وہاں ان کو روکنے والا کون تھا۔ نہ خون کے رشتے تھے اور نہ اپنی زمین جائیدادکے۔ 70 سال بعدان کی پانچویں نسل یقیناً بہت فائدے میں ہے۔اس عزت اور آسودہ حالی کا وہاں آج تصور بھی نہ ہوتا۔ عارضی منتقلی میں ہم نے پہننے کے کپڑوں کے سو ا کچھ نہ لیا تھا ۔
ہم دہلی میں قرول باغ کے ایک گھر میں عارضی طور پر قیام پذیر ہوئے۔یہ مسلمانوں کا علاقہ تھا ۔ گھر کی چھت پر لہرانے والا سبز ہلالی پرچم آج کی اصطلاح میں سیکیورٹی رسک تھا لیکن صاحبِ خانہ کے لیے انا کا مسئلہ۔وہ اپنی فیملی کے ساتھ ہمیں بھی جام شہادت پلانے کوتیار تھے لیکن جھنڈا
اتارنے کو معرکۂ کفرو اسلام میں اپنی شکست سمجھتے تھے۔ابا روز میرٹھ کی جانب 50 کلومیٹر مراد نگر کی بستی چلے جاتے تھے جہاں آرڈیننس فیکٹری تھی اور خیال یہ تھا کہ وہاں حالات بہتر ہوتے ہی ہم بھی لوٹ جائیں گے اورپھرالوداعی دعوتوں کے بعدتمام سامان سفر باندھ کے اسی طرح پاکستان
سدھاریں گے جیسے اب تک ایک شہر سے دوسرے شہرجاتے رہے تھے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ابا ایک دن واپس آرہے تھے کہ دہلی اسٹیشن پر بم پھٹا اور پکڑ دھکڑ میں وہ بھی دھرلیے گئے لیکن آرڈیننس فیکٹری کا کارڈ دکھانے سے بچ گئے۔اس کے بعد وہ بھی لوٹ کے نہ گئے۔ بعد میں سن لیا کہ گھر کو آگ لگادی گئی اور ابا کی برسوں میں جمع ہونے والی کتابوں‘ رسالوں کی فائلوں اوربیاضوں کا ذخیرہ راکھ ہوگیا۔اب یہ کیا بتاؤں کہ اس کے ساتھ ہی وہ اندر سے خاکستر ہوگئے۔رفتہ رفتہ دہلی میں فسادات نے شدت اختیار کی تو نکلنے کی فکر ہوئی مگر وسیلہ کوئی نہیں بن رہا تھا۔
اسے آپ حسن اتفاق کہیےیا انتظام ِدست غیب کہ ابا کا 15 سال قبل کے ایک ہندو شاگرد کپٹن تنویر نے سرِ راہ اپنے استاد کو پہچان لیا اور اس نے ملٹری کا ایک ٹرک معہ دو مسلح محافظوں کے بھیج دیا ہم یوں نکلے کہ ہمارے اوپر کچھ ہلکا پھلکا سامان تھا اور دونو محافظ رائفلوں کا رخ سڑک کی طرف کہ کوئی بلوائی قریب بھی آئے تو گولی مار دیں ہر طرف سے فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں۔ایک جگہ میں نے سر اٹھا کے دیکھا اور وہ ہولناک منظر آج تک میری یاد داشت میں ہے۔ سڑک کے کنارے ایک لاش پڑی تھی اور دوسرا زخمی پھڑک رہا تھا۔
ٹرک نے ہمیں دہلی کے نظام الدین اولیا ءاسٹیشن پہنچایا جہاں سے پاکستان جانے والی اسپیشل ٹرینیں چلتی تھیں۔ ایک میدان میں سینکڑوں خیمے نصب تھے جن میں گردو نواح کے شہروں قصبوں سے لٹ پٹ کرآنے والے اپنے خاندانوں کے ساتھ پڑے تھے۔جس کو کسی اسپیشل ٹین پر جگہ مل جاتی تھی وہ جاتے وقت مفت کا سرکاری خیمہ کسی کو بیچ کر دام کھرے کر لیتے تھے ۔ ہزاروں کھلے آسمان تلے پڑے تھے۔ہم نے بھی اپنی جگہ بنالی اور ابا نے کسی طرح ایک دری کا سائبان ڈال دیا۔کہیں سے کچھ کھانے پینےکو لائے۔ سہ پہر کے وقت کچھ ہوائی جہاز نمودار ہوئے اور انہوں نے اوپر دائرے میں چکر لگاتے ہوئےغوطہ مار کر کھانے کے ڈبے گرائے۔اس میں بھی لوٹ مچی تو طاقتور اور مستعد ذخیرہ کرنے میں کامیاب رہے اورپھر حکومتِ پاکستان کی فراہم کردہ مفت کی خوراک کومنہ مانگے دام بیچتے رہے۔
رات کو آسمان ٹوٹ کے برسا اور سب جل تھل ہوگیا ہم بھی سب کی طرح ٹخنے ٹخنے پانی میں بیٹھے صبح ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ بارش اگلے دن دوپہرتک جاری رہی۔ ابا نے بتایا کہ اس میدانِ حشرجیسے افراتفری کے عالم میں بھی لوگوں نے کسی بھی ایرے غیرے کے ساتھ دو بول پڑھائے اور بیٹی تھما کےسر کا بوجھ اتارا۔کچھ یوں گئیں کہ پھر نہ ملیں اور نہ جانے کس انجام سے دوچار ہوئیں۔اسپیشل ٹرین پر جگہ ملنا آسان نہ تھا۔ ایک انار اور سو بیمار والی کیفیت تھی کچھ لوگ بھاری رقوم لے کرجگہ دلواتے رہے۔ دوسری رات بھی سوتے جاگتے کٹی۔۔صبح منہ اندھیرے خواتین قلعہ کی دیوار کی طرف رفع حاجت کے لیےجاتی تھیں ۔ وہاں چھپے ہوس کے بے ضمیر شکاری انہیں دبوچ لیتے تھے‘ کئی جوان لڑکیاں اندھیرے میں اٹھالی گئیں۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہ سب لوٹ مار یا بد معاشی کرنے والے صرف ہندو ہوں گے۔ یہ سب وہیں مقیم مسلمان بھی کرتے تھے۔ کچھ پتا نہ چلتا تھا کہ کون ہجرت کے سفرمیں راہروہے اور کون راہزن۔ پکڑنے والا کوئی نہ تھا ۔ نشاندہی سے بھی کیا ہوتا؟۔
تیسرے دن پھر ہندو کپٹن تنویر کی کوشش سے ہمیں ایک ٹرین کے کمپارٹمنٹ میں جگہ ملی۔۔وہ بہت سے کھانے پینے کے سامان کے ساتھ اپنے سابق ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملنے آیا تو سختی سے تاکید کی کہ راستے میں اترنا کہیں نہیں ہے نہ کہیں سے کچھ لینا ہے اس کے گلے مل کر رخصت ہونے کا انداز یاد ہے۔ لمبےچوڑے گورے چٹے کپتان نے جھک کر بابوجی کے پیر چھوئے تو ابا اس سے گلے مل کر رو پڑے تھے۔ کھانا کیاپانی تک میں زہر ملا ہونے کی خبریں عام تھیں کھانے پینے کا راشن مقرر ہوگیا۔خدا خدا کرکےٹرین چلی اور دہلی کے مضافات سے خیروعافیت کے ساتھ گزرگئی تو پھر رات بھر چلتی رہی۔ماں باپ بیٹھے رہے اور ہم ان کی گود میں سر رکھے سوتے رہے کھڑکیاں بس اتنی کھلی تھیں کہ تازہ ہوا ملے اور لوگ دم گھٹ کے نہ مر جائیں۔ ستمبر کا آغازتھا ۔گرمی اور حبس سے سب کا حال خراب تھا۔ رات کے وقت نہ جانے کس جگہ دو فوجی آئےاور ٹین کا ایک باکس چھوڑ گئے اس میں بسکٹ پیسٹریاں اور کیک رس بھرے ہوئےتھے ‘ بھوکوں کے پیٹ میں کچھ گیا لیکن پانی عنقا تھا ۔
کچھوے کی رفتار سے رینگتی ٹرین دوسرے دن جالندھر پہنچی تو وہاں پٹری اکھاڑ دی گئی تھی۔چلتی ٹرین میں جیسے زلزلہ آگیا سامان لوگوں پر گرااورچیخ پکار کرتے لوگ ایک دوسرے پر۔سنا کہ انجن قلابازی کھا کے دور جاگرا ہے اور کچھ بوگیاں پٹری سے اتر گئی ہیں۔کچھ دیر بعد دونو ںطرف کھڑی قد آدم فصلوں میں چھپے سینکڑوںمسلح سکھوں نے حملہ کیا۔ یوں توہر مہاجر ٹرین کی حفاظت کے لیے ملٹری ساتھ چلتی تھی لیکن سنا یہی گیا تھا کہ وہ قتل عام کے خاموش تماشائی کا فریضہ ادا کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں ، اس ٹرین کے ساتھ جو فورس تھی اسے ایک انگریز کیپٹن کمانڈ کر رہا تھا، ملٹری نے دونوں طرف پوزیشن لے کر فائرنگ کی جو وقفے وقفے سے سارا دن جاری رہی۔ درمیان میں سکھوں کے نعرے ’جو بولے سو نہال۔۔ ست سری اکال‘بھی سنائی دیتے رہے۔ کھڑکیاں بند حبس اور گھٹن کے ساتھ کرپانوں سے ذبح کیے جانے کا خوف ۔ بھوک سے زیادہ پیاس کی اذیت۔امید و بیم کا ایک ایک لمحہ پرعذاب ۔
رفتہ رفتہ فائرنگ کی آوازیں بند ہوئیں تو سکوت کا جو طویل وقفہ آیا وہ زیادہ اعصاب شکن تھا جب فرض کرنے والوں کے ذہن مایوسی کے اندھیرے میں بھٹک رہے ہوں گےکہ شاید باہرہمارے محافظ یہ جنگ ہار گئے یا انہوں نے دفاع کی ظاہری رسم نبھائی اور پیچھے ہٹ گئے ۔ بالاخر خبر پھیلی کہ بلوائی پسپا کردئے گئے اور امدادی کام جاری ہے، نہ جانے یہ خبرر ساں کون تھے، یہ بھی سنا کہ حملے میں پیچھے کی بوگیوں میں بہت شہید ہوے۔ بعد میں یہ غلط ثابت ہوا۔ شام سے رات ہوئی تو کھڑکیاں کھلیں اور کسی نے بند رکھنے کا حکم نہیں دیا۔ خبر ملی کہ امرتسر سے دوسرا انجن آئے گا پٹری مرمت ہوگی اور امدادی کام ختم ہوگا تو ٹرین چلے گی ۔زندگی سے مایوس لوگ کس پر اعتبار کرتے۔
بالاخر ایک جا نکنی جیسے عذاب سے گزرنے والوں کو ملٹری نے خبردار کیا کہ کھڑکیاں بند کر لی جائیں اوربے جان کھڑی رہنے والی ٹرین نے پھرحرکت کی۔ اگلاامرتسر کا اسٹیشن تھا سکھوں کا گولڈن ٹمپل والا ہیڈ کوارٹر۔ اس وقت میں نہیں جانتا تھاکہ وہ لاہور سے 50 کلومیٹر پر بھارت کا آخری اسٹیشن ہے اور اس سفر کا سب سے پر خطر مرحلہ ۔ ٹرین رکی تو خوف سے سہمے مسافر دم سادھے پڑے رہے۔ پھر کسی نے چلا چلا کراعلان کیا کہ’’ مسلمان بھائیوں! پینے کا پانی لے لو‘‘۔اماں کے روکنے کے باوجود کچھ لوگوں کے ساتھ ا با بھی بالٹی لے کر اتر گئے۔سامنے ہی ایک قطار میں چندباتھ روم بنے ہوئے تھے۔ ابا دوڑ کرپہلے اندرپہنچ گئےاور نل سے پانی بھرنے لگے تھے کہ کسی نے باہر سے کنڈی لگادی۔ جنونی سکھ جمع ہو کے ’’ ست سری اکال ‘‘ کےنعرے لگانے لگے۔ہجوم پر خون سوار تھا لیکن زندگی باقی تھی۔ کوئی سکھ کرنل یونیفارم میں ادھر سے گذرا اس نے ریوالور سے ہوائی فائر کیے اور بلوائیوں کو منتشر کیا۔ پھرایک ایک کرکے سزائےموت کے منتظر قیدی آزاد کیے تو ان سب کے ایک ایک زبردست الوداعی جھانپڑ رسید کیا پنجابی میں اس فرشتہ رحمت کی گالیاں بھی دعائے خیر ہی لگیں۔ اس نے کہاکہ ’’کھوتے دے کھراو تسی سارے ۔ ابھی تم سب کا جھٹکا ہوجاتا۔اوئے!پیاس سے مر جاؤ ڈبے میں لیکن نیچے مت اترو‘‘۔
توبہ توبہ کرتے زندہ سلامت لوٹ آنے والوں نے اس وقت بس اتنا ہی بتایا کہ پانی نہیں ملا۔ کچھ دیر بعد ٹرین پھر حرکت میں آئی‘ کھڑکیاں بدستور بند تھیں۔ سکوت میں ٹرین کے فولادی پہیوں کا راگ ایک ماتمی سر میں جاری تھا گرمی اورشدید حبس سے سب ہی قریب مرگ ہوں گے۔ نہ جا نے کب اچانک شور سا اٹھا‘ غور کیا تو نعرے پاکستان زندہ باد کےتھے۔ ایک دم سب مردے جیسے جی اٹھے۔ کھٹ کھٹ کر کے ہر کھڑکی کھل گئی۔ سب کھڑکیوں سے باہر لٹک کے گلا پھاڑنے لگے،تازہ خنک ہوا اندر آئی۔آج 70 سال بعداس وقت بھی یہ لکھتے ہوئے میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں۔
پاکستان آ گیا تھا! یہ پاکستان کی ہوا تھی۔ ٹرین پاکستان کی سر زمین پر چل رہی تھی۔وہ وقت صبح صادق کا تھا۔ٹرین قصور کے اسٹیشن میں داخل ہوئی اور رکی تو سب مرد پلیٹ فارم پر سجدے میں گرگئے۔ ڈبے میں عورتیں زارو قطار رو رہی تھیں اور بچوں کو چمٹا کے پیارکررہی تھی۔ پلیٹ فارم کی مسجد سے فجر کی اذان کی صدا سنائی دے رہی تھی۔وہیں صف بندی ہوئی اور نماز فجر ادا ہوئی تو سینکڑوں پاکستانی میزبان گلے لگ گئے۔وہ اپنے ساتھ گرم گرم پوریاں چنے اور حلو ےکا روایتی لاہوری ناشتا لائےتھے۔اتنا کہ ٹرین کے مسافر تعداد میں دوگنے ہوتے تب بھی زیادہ تھا۔ڈھائی دن کے بھوکےٹوٹ کر گرے۔ ساتھ گرم چائے تھی ان میں خواتین بھی تھیں جو ڈبوں کے اندر آگئی تھیں اور میں نے انہیں بھی اماں کے گلے لگ کر آنسو بہاتا دیکھا۔
خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال
استقبال کے لیے آنے والوں کو سرحد پار سے آنے والے مہمانوں کے پل پل کی خبرتھی۔ کوئی مخبری کا نظام ایسا تھا کہ وہ تیار ملتے تھے۔ یہ بھی سنا ہے کہ بعض اوقات ہندو سکھوں کی بھارت جانے والی مہاجر ٹرین کو روک لیا گیا کہ ہماری ٹرین چھوڑو تو ہم بھی چھوڑتے ہیں لیکن ہماری ٹرین سے دو دن پہلے جو اسپیشل روانہ ہوئی تھی اس میں صرف چار افراد لاشوں کے خون آلودہ انبار کے نیچے سے زندہ برآمد ہوئےتھے۔ واللہ اعلم بالصواب کہ حقیقت کیا تھی اور افسانہ کیا۔
ہماری ٹرین 3 گھنٹے بعد پھر لاہور کی آخری منزل کے لیےحرکت میں آئی جہاں زیادہ پرجوش میزبانوں کا جم غفیر اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کےنعرے لگا رہا تھا۔ٹرین خالی ہوکے لوکو شیڈ میں چلی گئی پلیٹ فارم پر ایک شہر ہجرت آباد ہو گیا۔