ایدھی صاحب کی پہلی برسی سے دو روز قبل میں اپنے محلے کے ایک بزرگ شخص کے پاس رکا، سلام دعا اور خیر خیریت کے بعد گفتگو سیاسی و دیگر موضوعات پر چل نکلی، چونکہ ہم جہاں بیٹھے تھے وہاں سے سڑک قریب ہی تھی تو ہم گاڑیاں گزرتی دیکھ رہے تھے۔
میں اُن کے دھیمے انداز سے اس قدر متاثر ہوں کہ گفتگو میں کھو گیا تھا، اچانک روڈ سے ایمبولینس کے سائرن کی آواز آئی اور ڈرائیور چیخ رہا تھا کہ ایمرجنسی ہے گاڑی سائیڈ میں کریں، لوگ اس کی استدعا سُن کر گاڑیاں ہٹاتے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایمبولینس ڈرائیور آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔
یکا یک ہماری گفتگو کا موضوع ایمبولینس اور ڈرائیور ہوئی پھر یہ بڑھتے بڑھتے ایدھی صاحب تک پہنچی۔
میں ایدھی صاحب کو جانتا تھا مگر اتنا نہیں، چونکہ انکل خود بھارت کے شہر گجرات سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کی پیدائش بھی ایدھی صاحب کے علاقے میں ہوئی اس لیے وہ ایدھی کی جدوجہد کو بخوبی جانتے ہیں، اب اُن کے منہ سے جو عبدالستار ایدھی کا جو تعارف اور جدوجہد میرے سامنے بیان کی وہ آپ کی نظر کررہا ہوں۔
گجرات کے گاؤں بانٹوا کا نوجوان عبدالستار گھریلو حالات خراب ہونے پر کراچی جا کر کپڑے کا کاروبار شروع کرتا ہے‘ کپڑا خریدنے مارکیٹ گیا وہاں کس نے کسی شخص کو چاقو مار دیا زخمی زمین پر گر کر تڑپنے لگا لوگ زخمی کے گرد گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے رہے وہ شخص تڑپ تڑپ کر مر گیا۔
نوجوان عبدالستار کے دل پر داغ پڑ گیا , سوچا معاشرے میں تین قسم کے لوگ ہیں ۔دوسروں کو مارنے والے‘ مرنے والوں کا تماشہ دیکھنے والے اور زخمیوں کی مدد کرنے والے .. نوجوان عبدالستار نے فیصلہ کیا وہ مدد کرنے والوں میں شامل ہو گا اور پھر کپڑے کا کاروبار چھوڑا ‘ ایک ایمبولینس خریدی اس پر اپنا نام لکھا نیچے ٹیلی فون نمبر لکھا اور کراچی شہر میں زخمیوں اور بیماروں کی مدد شروع کر دی۔
وہ اپنے ادارے کے ڈرائیور بھی تھے آفس بوائے بھی ٹیلی فون آپریٹر بھی سویپر بھی اور مالک بھی وہ ٹیلی فون سرہانے رکھ کر سوتے‘ فون کی گھنٹی بجتی‘ یہ ایڈریس لکھتے اور ایمبولینس لے کر چل پڑتے‘ زخمیوں اور مریضوں کو اسپتال پہنچاتے سلام کرتے اور واپس آ جاتے۔
عبدالستار نے سینٹر کے سامنے چندے کی پیٹی نصب کردی‘ لوگ گزرتے وقت اپنی فالتو ریزگاری اس میں ڈال دیتے تھے ‘یہ سینکڑوں سکے اور چند نوٹ اس ادارے کا کل اثاثہ تھے ۔ یہ فجر کی نماز پڑھنے مسجد گئے وہاں مسجد کی دہلیز پر کوئی نوزائیدہ بچہ چهوڑ گیا ‘ مولوی صاحب نے بچے کو ناجائز قرار دے کر قتل کرنے کا اعلان کیا‘ لوگ بچے کو مارنے کے لیے لے جا رہے تھے یہ پتھر اٹھا کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے‘ ان سے بچہ لیا بچے کی پرورش کی آج وہ بچہ بنک میں بڑا افسر ہے۔
یہ نعشیں اٹھانے بھی جاتے تھے پتا چلا گندے نالے میں نعش پڑی ہے یہ وہاں پہنچے دیکھا لواحقین بھی نالے میں اتر کر نعش نکالنے کے لیے تیار نہیں عبدالستار ایدھی نالے میں اتر گیا، نعش نکالی ایدھی سنٹر لائے غسل دیا کفن پہنایا جنازہ پڑھایا اور اپنے ہاتھوں سے قبر کھود کر نعش دفن کر دی .. بازاروں میں نکلے تو بے بس بوڑھے دیکھے پاگلوں کو کاغذ چنتے دیکھا آوارہ بچوں کو فٹ پاتھوں پر کتوں کے ساتھ سوتے دیکھا تو اولڈ پیپلز ہوم بنا دیا پاگل خانے بنا لیے چلڈرن ہوم بنا دیا دستر خوان بنا دیئے عورتوں کو مشکل میں دیکھا تو میٹرنٹی ہوم بنا دیا۔
لوگ ان کے جنون کو دیکھتے رہے ان کی مدد کرتے رہے یہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایدھی فاؤنڈیشن ملک میں ویلفیئر کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا یہ ادارہ 2000 میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آ گیا۔
ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنا دی .. عبدالستار ایدھی ملک میں بلا خوف پھرتے تهے یہ وہاں بھی جاتے جہاں پولیس مقابلہ ہوتا تھا یا فسادات ہو رہے ہوتے تھے پولیس ڈاکو اور متحارب گروپ انہیں دیکھ کر فائرنگ بند کر دیا کرتے تھے ملک کا بچہ بچہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے بعد عبدالستار ایدھی کو جانتا ہے۔
ایدھی صاحب نے 2003 تک گندے نالوں سے 8 ہزار نعشیں نکالی 16 ہزار نوزائیدہ بچے پالے.. انہوں نے ہزاروں بچیوں کی شادیاں کرائی یہ اس وقت تک ویلفیئر کے درجنوں ادارے چلا رہے تھے لوگ ان کے ہاتھ چومتے تھے عورتیں زیورات اتار کر ان کی جھولی میں ڈال دیتی تھیں نوجوان اپنی موٹر سائیکلیں سڑکوں پر انہیں دے کر خود وین میں بیٹھ جاتے تھے .. عبدالستار ایدھی آج اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کے بنائے ہوئے فلاحی ادارے دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں