الیکشن کل ہو یا اگلے برس یا دو ہزار چوبیس میں ، کم از کم جماعت اسلامی کہیں نظر نہیں آرہی
کیسے ؟ آئیے جائزہ لیں۔
سندھ شہری ہو یا دیہی ، جماعت اسلامی انتخابی طور پہ کہیں موجود نہیں ممکن ہے کہ کراچی میں ایک آدھ نشست نکل آئے لیکن حالیہ ضمنی الیکشن کے نتائج بتاتے ہیں کہ شہر میں آپ موجود نہیں ۔ جماعت اسلامی کراچی کی زندگی کا مقصد ایم کیو ایم کی مخالفت رہی جبکہ عوام بانی متحدہ سے شدید اختلاف رکھنے کے باوجود انہی کو ووٹ دینا پسند کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ لندن ‘ پاکستان‘ پاک سرزمین‘ اور حقیقی یہ سب ایم کیو ایم کی ہی شاخیں ہیں جیسا کہ جماعت اسلامی کی مختلف برادر تنظیمیں ہوتی ہیں ۔ ایم کیو ایم کی حقیقت کا ادراک نہ کرکے جماعت اسلامی نے ہمیشہ الیکشن میں منہ کی کھائی ۔
بلوچستان اور جماعت ایک دوسرے کے لئیے اتنے ہی اجنبی ہیں جتنا کہ میں اور میکسیکو کا شہری ۔
پنجاب میں جماعت اسلامی کا ووٹ پہلے نواز شریف لے اڑے ‘ بعد میں عمران خان ۔ پنجاب جماعت کا المیہ یہ ہے کہ وہ جماعت اسلامی کم مسلم لیگ ن زیادہ لگتی ہے ۔ جماعت اسلامی حقیقی کا جماعت اسلامی پنجاب سے خاص تعلق نظر نہیں آتا ۔ پنجاب میں جماعت کی قیادت کے صاحبزادے بلے اور شیر کے نشان پہ لیبر کونسلر بننے میں خوش ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر جماعت اسلامی پنجاب کی قیادت کراچی میں ہوتی تو وہ پتنگ کے نشان کے ساتھ بھی لڑنے میں حرج نہیں سمجھتے ۔
لے دے کر بچتا ہے خیبر پختون خواہ ، جہاں کی جماعت اسلامی نے ثابت کیا ہے کہ وہ سیاسی حرکیات کو پاکستان بھر کی جماعت اسلامی سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں انہوں نے گزشتہ الیکشن میں اچھی کارکردگی دکھائی ‘ باوجود اس کے کہ دو ہزار آٹھ میں جماعت اسلامی نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا ۔
نوے کی دہائی میں قاضی حسین احمد نے اسلامک فرنٹ اور پاسبان کی شکل میں شاندار تجربہ کیا لیکن جماعت میں موجود رجعت پسند دھڑے نے اسے پسند نہیں کیا ، بدقسمتی سے قبل ازوقت ہونے والے الیکشن بھی ناکامی کی وجہ بنے ۔
میری ناقص رائے میں جماعت اسلامی کو کم ازکم تین چار الیکشن تک خیبر پختونخواہ کے کے سوا کہیں میدان میں نہیں اترنا چاہیے۔
جماعت کے بہترین اذہان ‘ وسائل کا بڑا حصہ اور الخدمت کی سرگرمیوں کا فوکس محض ثواب نہ ہو بلکہ خیبر کے وہ حلقے ہوں جہاں سیاسی کامیابی ملی ہو۔ تھر میں کروڑوں روپے لگانے سے کچھ نہیں ملنے والا‘ ثواب سیاسی کامیابی والا ہی اچھا ہے اور اس کے لئِے فی الحال کے پی کے سے بہتر دوسری جگہ نہیں ۔
جماعت اسلامی کیا کرے ؟؟؟۔
جماعت اسلامی کا المیہ یہ ہے کہ وہ شخصیت مسلک یا قوم پرستی و برادری کی سیاست نہیں کرتی یہ اس کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہے لیکن آگے جاکر یہی خامی کامیابی میں بدل سکتی ہے ۔بہتر ہوگا کہ جماعت اسلامی گولن تحریک کا جائزہ لے کہ کس طرح بہترین تعلیمی اداروں کی صورت میں ایک ایسی پوری نسل تیار کی جو بیوروکریسی‘ تعلیم‘ صحت ‘ عدلیہ‘ فوج اور پولیس میں کلیدی عہدوں تک پہنچی ۔اس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کو اپنی دعوت کی طرف توجہ دینا ہوگی اور پاکستانی عوام کو اپنی دعوت کی طرف بلانا ہوگا۔
اس کے لئِے لازم ہے کہ جماعت الیکشن پہ خرچ ہونے والے وسائل اپنے دعوتی چینلز اور احباب پہ خرچ کرے جو یہ کام کریں ایسے اچھے دماغ جو مختلف جگہوں پہ نوکریاں کر رہے ہیں انہیں رکھا جائے‘ ان کی بستیاں بنائی جائیں تاکہ وہ ان معاملات سے آزاد ہوکر یکسوئی کے ساتھ کام کرسکیں اس سب کام کے لیے ضروری ہے کہ ٹھنک ٹینک بنایا جائے جو مختلف امور پہ پالیسی بنانے کے ساتھ ساتھ مستقل بنیادوں پہ ایسے سرو ے کرائے جو پاکستان کی آبادی کے رجحانات کا جائزہ لے سکے تاکہ اچھی منصوبندی کے ساتھ کام کیا جاسکے ، یاد ر ہے وسائل کی فراہمی قطعی طور پہ مشکل کام نہیں ، دنیا بھر میں کروڑوں لوگ جماعت اسلامی کی دیانت پہ بھروسہ کرتے ہیں ان کے لیے اس حوالے سے فنڈز کی فراہمی بڑا مسئلہ نہیں ۔
جماعت اسلامی کے پاس تین آپشنز ہیں
کسی کے ساتھ اتحاد نہ کرے اپنی شناخت و دعوت لے کر استقامت کے ساتھ کھڑی ہو چاہے ایک ووٹ ملے یا ایک لاکھ ، ضمیر مطمئن رہے ۔
مسلکی جماعتوں کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے ۔
جماعت اسلامی کو پیچھے رکھ کر الگ سیاسی جماعت بنائے جس میں معیار صالحیت کے بجائے صلاحیت ہو اور یہ پاکستان کے عوام کو ساتھ لے کر چلنے کی اہمیت سے واقف ہو۔ یہ نئی جماعت لوگوں کے بنیادی مسائل پہ بات کرتی ہو لبرل و اسلام پسندوں کو یکجا کیا جائے ۔ البتہ دونوں طرف کے شدت پسندوں سے فاصلہ ضروری ہے ۔
اگلے چند برس میں جب مختلف سیاسی شخصیات کا سحر کم ہوگا تو بطور ادارہ یا تنظیم جماعت اسلامی آسانی سے جگہ بنا سکے گی ۔ اس وقت تک جماعت اسلامی کے احباب کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔
ہمارے یہاں بلکہ دنیا بھر میں جمہوریت دراصل سرمایہ داروں کا کھیل ہے یہاں سرمایہ دار الیکشن لڑتا ہے مغرب میں ملٹی نیشنل کمپنیز یہ کھیل کھیلتی ہیں ۔
جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کا البتہ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس ویسے وسائل نہیں جو پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ یا تحریک انصاف کے امیدواروں کے پاس ہوتے ہیں ، اس ذہنیت کے خاتمے میں بہت وقت لگے گا کہ امیدوار وہی اچھا ہے جو آپ کی دسترس اور محلے میں ہو اور اس سے بڑھ کر تقوے کے ساتھ منصب کی انتظامی صلاحتیوں کا بھی اہل ہو ۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں