لواری ٹنل پر کام کا آغاز سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سنہ انیس سو چوہتر میں کیا تھا۔ ساڑھے نو کلومیٹر کا یہ ٹنل منصوبہ بعد مختلف سیاسی اتارچڑھاؤ کے باعث بند ہوگیا۔ آنے والی آمریتیں ہو یا جمہوری حکومتیں کسی کو بھی اس ٹنل پر دوبارہ کام شروع کرنے کا خیال نہیں آیا۔
سن دوہزار پانچ میں اس وقت کے آمر جنرل پریز مشرف نے چترالیوں کے گھمبیر مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے لواری ریل ٹنل منصوبے پر دوبارہ کام کا آغاز کیا۔ جس کا ابتدائی تخمینہ تقریبا نو ارب روپے تھا۔ اس ریل کو چلانے کے لئے دو سے تین میگا واٹ بجلی کی ضرورت تھی۔ بحیثیت مجموعی وہ ڈیزائن علاقے کے موسمی حالات اور ملک میں جاری توانائی کے بحران کے باعث ایک ناکام منصوبہ تھا۔
جب سن دوہزار آٹھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو اس کے سامنے مشرف دور میں شروع کردہ لواری ریل ٹنل پر کام کو جاری رکھنے کے حوالے سے کئی ایک مشکلات درپیش تھیں۔ قومی اہمیت کے حامل اے ڈی پی پروجیکٹ کو بند نہیں کرسکتے تھے، جبکہ پرانے ریل ٹنل ڈیزائن پر کام کو مزید جاری رکھنا بھی ممکن نہیں تھا۔
ان مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کی حکومت نے این ایچ اے سمیت انجینئرنگ کے ماہرین سے رائے طلب کی۔ جس ماہر نے اس ٹنل کا ڈیزائن کیا تھا انہوں نے اپنے پریزنٹیشن میں اس منصوبے کو ناکام قرار دیا۔ اور طویل گفت وشنید کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ لواری ٹنل کو ری ڈیزائن کرنے کے بعد پھر کام کا آغاز کیا جائے گا۔
وزیراعظم نے لواری ٹنل کا افتتاح کردیا
ایک سال کے طویل عرصے میں لواری ریل ٹنل کو روڈ ٹنل میں تبدیل کرکے دوبارہ ڈیزائن کیا گیا۔ جس پر ابتدائی لاگت کے برعکس تخمینہ لاگت تقریبا اٹھارہ ارب روپے تک پہنچ گئی اور کام کا دورانیہ بھی بڑھ گیا۔ اس دوران سن دوہزار نو ‘ دس میں مالاکنڈ ڈویژن میں طالبان کا قبضہ ہوگیا جس کی وجہ سے کورین کمپنی سامبو کے اہلکار اور کارندے کام چھوڑ کر اسلام آباد چلے گئے۔
مالاکنڈ ڈویژن میں کامیاب آپریشن تک لواری ٹنل پر کام بند رہا۔ یوں پاکستان پیپلز پارٹی کے شروع کے دو سال ضائع ہوگئے۔ اس کے بعد کام ہوتا رہا۔ البتہ جونہی سن دوہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد ملک میں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو لواری ٹنل پر کام کی رفتار تیز کردی گئی۔ بالآخربیس جولائی سن دوہزار سترہ کو وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف دیر سائیٹ پر تشریف لاکر لواری ٹنل کا باقاعدہ افتتاح بھی کیا۔
اگرچہ لواری ٹنل پر کنسٹریکشن اور بحالی کا کام تقریبا مکمل ہوچکا ہے البتہ لائٹنگ، ایکزاسٹ سسٹم، ایمرجنسی صورتحال کے لئے اقدامات، کنٹرول روم، ایک سو سے زائد واش رومز، انتظار گاہ وغیرہ کی تکمیل ابھی ہونا باقی ہیں۔
ایسے حالات میں جوں جوں پانامہ کیس پر جے آئی ٹی کی رپورٹ اور اعلی عدلیہ پر روزانہ کی بنیادوں پر اس کیس کی سماعت سے وزیر اعظم کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے تو وزیر اعظم صاحب جلد از جلد کریڈٹ لینے کے لئے متعدد میگا پراجیکٹ کا افتتاح کر رہے ہیں ان میں لواری ٹنل بھی شامل ہے۔
کل کا افتتاحی پروگرام خالصتاً پاور شو تھا اور ساتھ ہی میگا پراجیکٹس پر سیاست چمکانے کا روایتی تسلسل۔ وگرنہ اس ٹنل کی تکمیل میں ابھی دو سال کا عرصہ درکار ہے۔ اور ایک ہم ہے کہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔
اگر آنے والے موسم سرما میں عوام سے سیاسی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے لواری ٹنل کو پورے موسم سرما میں ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا تو اس کا ٹنل کے اندر جاری کام پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے ٹنل کی تکمیل میں مزید تاخیر کے امکانات ہے۔
اسی لئے لواری ٹنل میں کام کی جزوی تکمیل پر اس کا افتتاح کرکے جس انداز سے سیاسی کریڈٹ لینے کی کوشش ہورہی ہے، اس کا چترال اور لواری ٹنل میں جاری کام مثبت نہیں بلکہ منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں