The news is by your side.

میں ایک نظریاتی آدمی ہوں

 میں ایک نظریاتی آدمی ہوں ‘ نواز شریف ان دنوںیہ ایک جملہ تسلسل سے دہرا رہے ہیں۔  یہ جملہ سن کر ماضی کے کچھ مناظر اور تقریریں یادداشت کے  پردہ اسکرین پر نمودار ہونا شروع ہوگئے جب ضیاالحق کے مشن کو جاری رکھنے کے عہد دہرائے جا رہے تھے۔ ان کو اس ملک کا حقیقی لیڈر گردانا جا رہا تھا اور اس وقت نواز شریف سب کو سمجھانے میں مصروف تھے کہ وہ کس نظریے کے آدمی ہیں اس وقت ان کے نزدیک  ضیاءجیسا مسیحا کوئی نہیں تھا تو بھٹو جیسا ولن بھی کوئی نہیں تھا۔

معلوم نہیں بھٹو صاحب سے دشمنی کا پس منظر ان کے خاندان کی فیکٹریوں کو قومیانے کی وجہ سے تھا یا بھٹو صاحب سے دشمنی کا ڈھنڈورا پیٹ کر ایک آمر کی قربت حاصل کرنا تھا۔ وجہ جو بھی تھی مگر مقصد حاصل ہو گیا جس کے نتیجے میں نہ صرف سیاست میں انٹری ہوئی بلکہ اقتدار بھی مل گیا۔ یہ تھے ایک نظریاتی نواز شریف جو ضیاءالحق کے نظریے کے قائل تھے  اور اس حد تک تھے کہ اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو جو پارلیمنٹ کی مضبوطی کی بات کرتے تھے (جیسے  آج کل نواز شریف کر رہے ہیں) مگر اس وقت ایک ایسے وزیر اعظم کا ساتھ دینے کی بجائے جو پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتا تھا نواز شریف نے ضیاءالحق کا ساتھ دیا اور جونیجو کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا ۔

آج کل نواز شریف کو بڑا دکھ ہے کہ اٹھارہ وزراءاعظم کو ہٹا یا گیا ‘ حالانکہ جونیجو کو ہٹانے میں  نواز شریف نے بھر پور حصہ ڈالا تھا۔  یہاں ایک نظریاتی نواز شریف کو کس کا ساتھ دینا چاہئے تھا؟ ۔نظریاتی آدمی نقصان اٹھاتا ہے ‘ موقع شناس آدمی فائدہ اٹھاتا ہے تو اندازہ کر لیں کہ نواز شریف نے نظریاتی ہونے کی بجائے موقع شناس ہونے کا ثبوت دیا ۔

پھر نوے کی دہائی آئی   جس میں صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوئی ‘ ایک بار اسمبلی توڑدی گئی اور عدالت نے دوبارہ بحال کردی مگر اس وقت کے آرمی چیف نے صدر اور وزیر اعظم دونوں کو چلتا کیا تو نوازشریف کے اندر شاید پہلی بار نظریاتی آدمی جاگا (وزیر اعظم بننے کے لیے کیسے آئی جے آئی بنی اور کیسے پیسے استعمال ہوئے اس کی تفصیلات اصغر خان کیس کی صورت سب کے سامنے ہے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ نواز شریف کو ہوا جو پہلی بار وزیرعظم بنے)۔

وزیر اعظم بننے کے بعد اچانک نظریاتی آدمی جاگ گیا اور پاکستان مسلم لیگ ن وجود میں آگئی سب نے سمجھا اب اصل نظریاتی آدمی  سامنے آیا ہے 93 ءکے الیکشن میں محترمہ بے نظیر کی حکومت آئی اورنواز لیگ کو شکست ہوئی۔ محترمہ کی حکومت صدر فاروق لغاری سے محاذ آرائی کے نتیجے میں بر طرف کر دی گئی اور محترمہ اور لغاری کے درمیان محاذآرائی میں نظریاتی نواز شریف نے جو کردارادا کیا وہ سب کے سامنے ہے چاہئے تو یہ تھا کہ ایک منتخب وزیر اعظم کا ساتھ دیتے مگر نواز شریف نے لغاری صاحب کا ساتھ دے کر ایک با پھر ثابت کیا کہ وہ نظریاتی نہیں بلکہ موقع شناس ہیں(وہ جو کہتے ہیں کہ اتنے وزراءاعظم کو ہٹایا گیا تو ایک اور وزیر اعظم کو ہٹانے میں ان کا کتنا کردارہے) اس کے بعد نواز شریف کی 97 ءکی حکومت پرویز مشرف نے بر طرف کر دی اور نواز شریف کوجلا وطن کر دیا گیا ۔

جلاوطنی کے دوران مجبور نواز شریف کے اندر جمہوریت کی محبت جا گ اٹھی اور نظریاتی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے محترمہ اور دوسری جماعتوں کو ساتھ ملا کر میثاقِ جمہوریت کیا اور سب کو لگا کہ شاید اب کی بار اصل نظریاتی آدمی سامنے آیا ہے اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہے ۔وطن واپسی ہوئی 2008 ء کے الیکشن ہوئے‘  پی پی پی کی حکومت وجود میں آئی ۔صدر زرداری کی جوڑ توڑ کی سیاست کی وجہ سے اسمبلی مدت پوری کر گئی مگر سپریم کورٹ نے سوئس عدالتوں کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف گیلانی کوہٹا دیااور نواز شریف نے نہ صرف اس فیصلے کا خیر مقدم کیا بلکہ عدالتوں کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دیئے ۔

یہی  نظریاتی نواز شریف میمو گیٹ کیس  میں پی پی پی حکومت کے خلاف پیٹشن لے کر عدالت میں چلے گئے جس کا پی پی پی کی حکومت کو آج بھی رنج ہے کہ میثاقِ جمہوریت کی خلاف ورزی کی گئی۔

پھر 2013ء کا الیکشن ہوا  جس میں فتح حاصل کرکے نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم بن گئے۔ نظریاتی وزیر اعظم کو نہ تو سازش نظر آئی نہ ہی معاہدہ عمرانی نظر آیا نہ ہی کوئی بیانیہ یا د آیا کہ ملک کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں اور نہ ہی اپنا نظریاتی ہونا یاد آیا۔ حالانکہ جب حکومت پاس ہوتی ہے تو ہر قسم کے نظریے اوربیانیے کو کامیاب بنانا زیادہ آسان ہوتا ہے مگر ایسا کچھ نہ ہوا‘ اور اچانک پانامہ کیس سامنے آیا جس میں نظریاتی نواز شریف عدالت کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت نہ کر پائے اور نواز شریف کو عہدے سے ہٹنا پڑا تو نواز شریف ایک بار پھر نظریاتی بن گئے اور آج کل پھر صحافیوں اور دانشوروں کے ساتھ مل کر بیانیہ بدلنے پر زور دے رہے ہیں ۔

نواز شریف نے ضیاءکا مشن جاری رکھنے کا عزم کیا تھا مگر آج اس کے بالکل برعکس بھٹو کے مشن کے داعی نظر آرہے ہیں خود حکومتیں ہٹانے میں ساتھ دیتے رہے مگر آج سازش نظر آنے لگی ہے۔ آج گیلانی کا ہٹایا جانا اور میمو گیٹ بھی غلطی نظر آرہی ہے کیا خبر آج جو عدالتوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں پانچ سال بعد کہہ رہے ہون کہ یہ بھی غلطی تھی کیا آپ کی غلطیاں اور خوفناک ماضی ہی اس ملک اور قوم کا نصیب ہے۔ سوال یہ ہے کہ طاقت میں ہوتے ہوئے کچھ بھی یاد کیوں نہیں آتا ؟۔

ماضی کی مثالوں نے نواز شریف کو کتنا نظریاتی ثابت کیا اور کتنا موق شناس ثابت کیا  یہ فیصلہ تو  آپ  خود کریں اور نواز شریف کتنے قابلِ بھروسہ ہیں اس کا فیصلہ بھی آپ پر  ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ  نظریاتی آدمی حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں وہ نظریاتی ہی ہوتا ہے اس کے پیش نظر فائدہ یا نقصان نہیں ہوتا بلکہ نظریہ ہوتا ہے جس پر بلا خوف و خطر وہ ڈٹا رہتا ہے۔

فیصلہ  اب آپ  کے ہاتھ میں ہے کہ طے  کریں اس جملے میں کتنی صداقت ہے کہ’’میں ایک نظریاتی آدمی ہوں‘‘۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں