نواز شریف کی نا اہلی کے فیصلہ کے بعد خواجہ سعد رفیق کے ساتھ یہ پہلی نشست تھی ۔ ضعیم قادری اور رانا مشہود بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ اس وقت تک خواجہ سعد رفیق وہ پریس کانفرنس کر چکے تھے جس میں ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی ناہلی کے پیچھے کوئی ادارہ نہیں لیکن بعض افراد انفرادی طور پر ضرور ہیں ۔ اسی پریس کانفرنس میں انہوں نے نعرہ لگایا تھا کہ ایک شریف کو اتارو گے تو ہم دوسرا شریف لائیں گے اور دوسرے کو اتارو گے تو تیسرا اور چوتھا شریف لائیں گے ۔ گفتگو کے دوران ٹیلی ویژن سکرین پر بھی یہی ٹکرز چل رہے تھے اور اس بیان پر اینکرز کے تبصروں کا سلسلہ جاری تھا ۔
خواجہ سعد رفیق اس نشست میں بھی دل کی بھڑاس نکال رہے تھے ۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اب تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان جو کشیدگی چل رہی ہے ماضی میں اس سے زیادہ کشیدگی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان رہی ہے ۔ یہاں تک کہ ایک دوسرے کو غدار وطن کے سرٹیفکیٹ بھی دیئے جاتے رہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی پر بات نہ کریں ، ہم نے غلطیوں سے سبق سیکھا ہے اور میثاق جمہوریت کے بعد ہمارے سیاسی رویوں میںتبدیلی آئی ہے ، وہ یہی مشورہ تحریک انصاف کو بھی دینا چاہتے تھے کہ وہ راستہ اختیار نہ کریں جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ماضی میں اختیار کیا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ماضی کے برعکس بہتر سیاست کی جانب گامزن ہوئے ہیں ۔
خواجہ سعد رفیق اور ان کے رفقا ءنے اس دن بہت سے باتیں کیں لیکن میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی ہم بہتری کی جانب گامزن ہیں ۔ اگلے روز تحریک انصاف چھوڑتے وقت عائشہ گلالئی نے جو الزامات لگائے وہ باعث تشویش ہیں لیکن یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ انہوں نے کسی قسم کا ثبوت فراہم نہیں کیا ۔ دوسری جانب اس کے ردعمل میں تحریک انصاف کے حامیوں نے جس طرح عائشہ گلالئی کی بہن کی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنا شروع کیں وہ بھی قابل مذمت ہے ۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان کی بہن کی یہ تصاویر اب سامنے آئی ہیں ؟ جب وہ تحریک انصاف کا حصہ تھیں تب تحریک انصاف کی قیادت کو ان کی بہن کا علم نہیں تھا ؟یا تب ان کی مبینہ کرپشن سے قیادت واقعی لاعلم تھی ؟ اگر وہ تحریک انصاف نہ چھوڑتیں اور یہی تصاویر مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کے کارکن اپ لوڈ کرتے تو یقینا تحریک انصاف اسے کردار کشی کی گھناؤنی کوشش قرار دے کر مذمت کر رہی ہوتی ۔
تحریک انصاف بھی مقابلے میں عائشہ احد کو نکال لائی ہے۔ ہم نے تو مردانہ وار لڑنا سیکھا ہے لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ ان دنوں زنانہ وار لڑ رہی ہے ۔ سچ کہوں تو ہمارے یہاں لڑائی جھگڑوں نے اخلاقیات اور تہذیب کا جنازہ نکال دیا ہے ۔ ایک وقت تھا جب دشمن کی بہن اور بیٹی کو بھی اپنی عزت تصور کیا جاتا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب مکان کچے مگر لوگ سچے تھے ۔ لڑائی جھگڑوں کا بھی اصول ہوا کرتا تھا لیکن اب جذباتیت اور جلد بازی نے ہمارا معاشرتی ڈھانچہ ہی تباہ کر دیا ہے۔ ۔ ایک بار ڈی آئی جی عامر ذوالفقار نے کہا تھا کہ اگر لوگ جذباتیت کی بجائے حقیقت پسندی کو اپنا لیں اور کوئی بھی قدم اٹھانے سے قبل اس کے نتائج پر غور کر لیا کریں تو نہ صرف آدھے سے زیادہ جرائم ختم ہو جائیں گے بلکہ معاشرہ انتشار کا شکار بھی نہ ہو گا ۔ ان کی یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے ۔
ہم نے نوے کی دہائی میں جس سیاسی ماحول کو فروغ دیا تھا اس سے اس ملک کو فائدہ کچھ نہیں ہوا لیکن ہم نے گنوایا بہت کچھ ہے ۔ بدقسمتی سے ہم ایک بار پھر اسی ماحول کو فروغ دے رہے ہیں۔خواجہ سعد رفیق سے بھی گزشتہ دنوں یہی شکوہ کیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے میثاق جمہوریت کے بعد سے ایک نئے سیاسی سفر کے آغاز کا دعوی کیا تھا ۔ میرے خیال میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان بھی ایک ایسے ہی میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے جس میں عہد کیا جائے کہ ملک میں سیاسی انتشار ، الزامات اور ہارس ٹریڈنگ کی بجائے عوامی سیاست کو فروغ دیا جائے گا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت جس انتشار کو فروغ دیتی ہے اس کا شکار عوام بنتے ہیں ۔ سیاسی بیان بازیوں کے نتیجے میں عام آدمی لڑتا ہے اور احتجاج کے دوران جلاؤگھیراؤ میں عام پاکستانی کی دکان اور گاڑی جلائی جاتی ہے ۔ ان حالات میں سی سی پی لاہور امین وینس اور ڈی آئی جی حیدر اشرف براہ راست دہشت گردوں کا ٹارگٹ ہونے کے باوجود فیلڈ میں نظر آتے ہیں یا ایس ایس پی ایاز سلیم نت نئے سکیورٹی سافٹ ویئرز متعارف کروا کر فورس کی کمی کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں سراہنے کو دل کرتا ہے لیکن سچ کہوں تو یہ مسائل کا حل نہیں ہو سکتا بلکہ ہمیں اپنے عوامی اور سیاسی رویوں کو بہتر بنانا ہو گا ۔ ہمیں سوشل میڈیا کی اپ ڈیٹس سے لے کر سیاسی تقاریر تک اپنے رویوں کو تبدیل کرنا ہو گا ۔ سیاسی اختلافات جمہوریت کا حسن ہیں لیکن ان اختلافات کی بنیاد پاکستان کی بہتری ہونی چاہئے ۔ جمہوری نظام میں اختلافات چلتے رہتے ہیں لیکن یاد رہے آدمیت اس روز مر جاتی ہے جب ہم ان اختلافات کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا کیچڑ اچھالنے لگتے ہیں ۔
ہمیں شاید یہ اندازہ نہیں کہ ہم ایسی سیاست کے نام پر جس انتشار کو فروغ دیتے ہیں اس سے لاقانونیت کو تقویت ملتی ہے اور یہی لاقانونیت جرائم کو فروغ دیتی ہے ۔ نا امیدی اور مایوسی ہمیں اس سطح پر لے آئی ہے کہ اب ہمیں اچھے کام بھی نظر نہیں آتے ۔ اچھے کاموں کو تو چھوڑیں ہمیں تو اپنے شہدا ءکی قربانیاں بھی معمول کا حصہ لگنے لگی ہیں ۔ 4 اگست کو ملک بھر میں یوم شہدا ئے پولیس سرکاری سطح پر منایا گیا لیکن مجھے عوامی سطح پر تاحال ویسی پذیرائی نظر نہیں آتی جو شہدا کا حق ہے ۔ پنجاب پولیس کے چودہ سو بہادر جوان انہی گلی کوچوں میں جرائم پیشہ افراد کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں لیکن ہم ان قربانیوں کا حق ادا کرنے کو تیار نہیں ۔ انسان نے ترقی کے نام پر جنگل سے شہر تک کا سفر طے کیا تھا لیکن یہاں بھی بے حسی اور وحشت کا یہ عالم ہے کہ بقول شاعر۔۔
لگ رہا ہے شہر کے آثار سے
آ لگا جنگل در و دیوار سے
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔