The news is by your side.

نفرت کی زمیں پربوئے ہیں جنگوں کے شعلے

پاکستان میں گزارے بچپن اور جوانی کے سال انڈیا کی ساتھ لگتی سرحد سےطیاروں کے دندناتے گھس آنے اور آگ کے شعلے برساتے ٹینکوں کے روندتے چلے جانے کے خوفناک خواب بہت بچپن سے شعور کے ساتھ چمٹ گئے تھے۔ کنٹونمنٹ کے قریب گھر ہونے کی وجہ سے یہ خوف زندہ آسیب کی طرح ہر چند دن کے بعد خوابوں میں اترآتے تھے۔ نجانے بچپن کے کس حصے میں کیا دیکھا کیا سنا تھا کہ جنگ کا، جنگی جہازوں کا،بمبار ی کا اور آگ بھری راتوں کا خوف ہمیشہ مجھ پر طاری رہا۔

بچپن اور جوانی کے سب سے ڈراؤنے خواب لپکتے گرجتے جنگجو اور خونخوار طیاروں سے بھرے گروہوں کی صورت اور گرتی ہوی چھتیں اور برستے ہوئے آگ کے شعلوں سے بھرے ہوتے تھے. یہ خوف اس قدر تکلیف دہ تھے کہ کہ جی چاہتا اس دنیا سے کہیں دور بھاگ جائیں۔ کسی ایسی جگہ جہاں یہ آسیب زدہ خوف دامن گیر نہ ہوں. جہاں دور دور تک کسی دشمن کسی جنگ کا تذکرہ نہ ہو. جہاں صرف امن اور سلامتی ہو!۔

 

کوئی ایک دہائی قبل جب امارات منتقل ہوے تو دل کے اندر کہیں سکون اترا کہ دنیا کے ایک محفوظ خطے میں آ گئے ہیں جہاں ہر طرف ہماری طرف توپوں کا رخ کیے بیٹھا انڈیا جیسا دشمن نہیں ۔ ہر وقت ملکی حالات نازک ہونے کی پریشانی نہ جنگی جہازوں کی پروازیں اور گرجتی چمکتی بمباری. کبھی کبھی خلیج کے اس حصے سے کسی ہمسایہ ریاست میں مشن کےلیے جاتا یا آتا کوئی بھولا بھٹکا ،ہوائیں چیرتا اور کانوں کے پردوں کو خوفزدہ کرتا جنگی طیارہ بصارت کی حدوں کے ادھر سے سیکنڈوں میں گزر جاتا ہے تو دل پھر خوفزدہ ہو جاتا ہے۔


‘اک خواب سفر میں رہتا ہے’


 انڈیا کے جنگی طیاروں اور میزائیلوں کے خوف کو پیچھے چھوڑ کر ہم ایک نمبر امریکی اسلحہ خانوں کے قریب ہو چلے ہیں. کہیں دور کی عرب ریاستوں کی عمارتوں کو ڈھاتے اور انسانوں کو پھاڑتے یہ جدید امریکی بمبار طیارے یقینا ہماری حدوں سے بہت دور سے گزر جاتے ہیں مگر جنگ اور خون آلود ڈراونے خوابوں کو زندہ کر جاتے ہیں۔

تعلیم یافتہ انسان اور تہذیب یافتہ ترقی نے آنکھوں کو خیرا کر دیا ہے تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی روزافزاں اُڑان نے انسان کو انگشت بدنداں کر دیا ہے مگر جس چیز نے سب سے زیادہ ترقی کی ہے وہ انساں کی نابینائی اور انسانیت کی تذلیل ہےاور یہ ترقیاں مذہب، اخلاق اور اقدار کو نگل گئی ہیں. دنیا کے سب مذہب اور اخلاقی اسباق جامد اور بےجان ہو چکے ہیں۔ بنی نوع انسان کی تنزلی کے سامنے طاقت کی لڑائیاں ‘ سرحدوں اور ریاستوں کے جھگڑے انسان کو نگلے جا رہے ہیں۔

جدید ترین اسلحے سے لیس طاقت کے سرچشمے اپنی طاقت کے زعم میں کمزوروں کو کچلے جا رہے ہیں۔ انسان انسان کا خون پی رہا ہے۔ طاقت ور بھیڑیے کمزور بکری نما لوگوں کو ادھیڑے جا رہے ہیں اور اس اتنی بڑی دنیا میں کوئی حکومت کوئی مذہب کوئی گروہ کوئی عقیدہ اور کوئی قوم ان کا ہاتھ روکنے میں کامیاب نہیں۔ سب پیغمبر اور مسیحا دکھی دل سے انسانیت کو لٹتے دیکھتے ہوں گے ۔ دنیا میں کونسا مذہب ہے جو انسانیت کی تعلیم نہیں دیتا ؟،کونسا مذہب ہے جو محبت اور سلامتی کا پیغام نہیں دیتا!کون سے صحیفے ہیں جو عورتوں اور بچوں پر ہسپتالوں اور سکولوں پر عام انسانوں اور ان کے گھروں پرنہتے اور کمزور لوگوں پر آگ برسانے کے سبق دیتا ہے؟. پھر بھی ہر مزہب اور ہر عقیدے کے لوگ خاک وخون میں لت پت ہیں۔

زمین پر پانی ختم ہو رہا ہے اور جو رہ گیا وہ انسانی لاشوں سے خون آلود ہو رہا ہے۔دنیا میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے. کیا یہ اضافہ ان جدید جنگی طیاروں اور میزائیلوں کی پھیلائی گرمی اور تپش نہیں؟ کیا یہ نفرتوں اور طاقت کے نشے میں اقتدار کی لڑایوں کی پھیلائی حرارت نہیں.؟ کل میں ایک جنگ سے خوفزدہ بچی تھی آج میں جنگوں سے بھری دنیا میں رہتی ایک دلگداز ماں ہوں اور بچوں کو جھلستے بلکتے ،کئی حصوں میں بٹتے ، ساحلوں پراکڑتے، اور ملبے میں زندہ دفن ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔جس کی گود میں بچے ہوں وہ دشمن کے بچوں کو بھی اذیت میں نہیں دیکھ سکتا۔

مائیں اپنے بچوں کو اس آگ اور خون سے بھری دنیا میں، گولی اوربم کی زرخیزی اور موت کے کنویں میں کیسے چھوڑ دیں۔ بڑے بڑے ایوانوں اور محلوں میں قلعوں اور غاروں میں اپنےبچوں کوچھپا رکھنے والے لاکھوں بے کس اور بےسہارا بچوں ، عورتوں اوربےقصور انسانوں کو تار تار کیے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خود ان کے گھر محفوظ ہیں۔ ان جنگوں میں مارنے والے بھی مر رہے ہیں۔ جنگوں میں سب کی اولادیں جل رہی ہیں‘ کمزور کی بھی اور طاقتور کی بھی کسی کی آج کسی کی کل۔ ہم نے زمینوں پر درختوں کی بجائے بم بو دیے ہیں اور اپنے بچوں کو جنگوں کے زہریلے اور جلتے کھیتوں پر بٹھائے ان کے خوبصورت مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں۔

کیا کوئی مذہب، کوئی ملک کوئی فرقہ کوئی عقیدہ کوئی مفکر دانشور استاد کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس آگ اور موت کے کھیل پر اعتراض کرے! کوئی جماعت ایسی نہیں جو بڑھ کر اس خون کی ہولی کی پشت پناہی کرنے کی بجاے ان کو روکنے کی کوشش کرے۔ انسان اگر اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی کی آسماں پھاڑتی ترقی سے انسان کو نوازنا چاہتا تو آج کوی شخص اس زمین پر بھوکا اور ننگا نہ ہوتا. آج دنیا میں اتنی نفرت نہ ہوتی۔

شاید کہ ایسا ہوتا تو آج کی دنیا ہمارے بچوں کے لیے ان کے آنے والے مستقبل کے لیے ایک محفوظ جگہ ہوتی۔ ہمیں جنگوں سےاٹے خواب ملے تھے وراثت میں اور ہم اپنے بچوں کی جھولیاں بموں سےبھر رہے ہیں اور یقین کریں جب یہ آگ اور خو ن کے پٹاخے پھوٹیں گے خدانخوستہ تو آج کے اس آگ کو پروان چڑھاتے انسانوں کو قبر میں بھی چین نہ ملے گاکہ اولاد کے دکھ والدین کو موت کے بعد بھی ستاتے ہیں۔

 war and future

اسلام جیسے امن پسند اور انسان دوست مذہب کو بھی ہم مسلمانوں نے، مسلمان ملکوں اور حکمرانوں نے تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ قدیم مذاہب کے ماننے والوں کی طرح ہم نے صرف اسلام کے نام کی پرستش کر کے اندھیروں کو بڑھایا ہے. لیکن کوئی بھی قوم ہو کوئی بھی مذہب ہو اس دنیا سے بھاگ کرنہیں جا سکتے۔ آگ کو ہوا دینے والوں کو یا تو بڑھ کر اسے بجھانا ہو گا یا اس میں خود بھی جلنا ہو گا۔ ہمیں اپنے بچوں کی زندگیاں اور مستقبل عزیز ہیں تو طاقت عقیدے اور سرمائےکی اس آگ کو روکنا ہو گا۔ نفرت اور جنگوں کو مٹانا ہو گا۔

ہمارے بچے ابھی ایلس کی دنیامیں جیتے ہیں‘ ابھی الہٰ دین کا چراغ ان کے سپنوں کو منور کرتا ہے ۔ان کے خوابوں کو جلنے سے بچانے کے لیے ان کے زندہ مستقبل کی تعبیر کے لیے اور انسانیت کی سزا ختم کرنے کے لیے آواز اٹھانی ہو گی۔ ہمیں مذاہب کی ،مملکتوں کی، عقیدوں کی اور طاقتوں کی نہیں اس زمین پر آخری سانس لیتی انسانیت کو انسانیت اور سلامتی کی ضرورت ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں