The news is by your side.

ثناءخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

کسی بھی قبائلی معاشرے میں عزت وغیرت اور ننگ وناموس کے نام پر خواتین کو نفسیاتی بھوک کی بینت چڑھاناہر دور میں ایک محبوب مشعلہ رہا ہے۔ گرچہ جدید سائنس وفلسفہ اور سماجی علوم وادب کی بے انتہا ترقی نے معاشرے کی اس وحشی پن کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور آج یورپی معاشروں جہاں کم وبیش ایک ہزار برس سے زائد عرصے تک تاریکی کا راج رہا ، وہاں اب انسانی آزادیوں پر قدعن اور صنفی امتیاز ناقابل برداشت جرم تصور کیا جاتا ہے ۔جبکہ ہمارے معاشروں کی حالت یہ ہے کہ ہم آج بھی بدترین جہالت میں جی رہے ہیں۔

خواتین سمیت معاشرے کے کسی بھی کمزور طبقے کو ظلم وزیادتی کا نشانہ بنا کے آج کا درندہ خصلت انسان زور دار قہقہہ لگا رہے ہوتے ہیں ۔ ان انسان نما درندوں کی خون آلود جبیں پر کبھی اشک ِندامت کے آثار نمودار نہیں ہوئےاور وہ اپنی حیوانی خواہشات کی تکمیل کے لئے سارے حدود وقیود کو پھلانگ رہے ہوتے ہیں ۔ جبکہ معاشرتی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ کمزور کا سہارا بننا تو دور کی بات ظلم کو ظلم کہنے کا رواج بھی روز بروز ناپید ہوتا جارہا ہے ۔

اسی قسم کا گھناؤنا اور ناقابل برداشت جرم ایک برس قبل چترال کے بالائی علاقہ لاسپور کے ایک یتیم لڑکی کے ساتھ ہوا۔ حمیدہ (فرضی نام) بہتر مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے تعلیم کے لئے نکلی ۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد اس کا واحد سہارا بوڑھی ماں تھی۔ وہ روزانہ صبح سویرے اٹھ کر گھریلو کاموں میں والدہ کا ہاتھ بٹاتی اور پھر حصول تعلیم کے لئے نکلتی ۔

ایک دن وہ اکیلے ہی سکول جارہی تھی کہ اچانک ان کے اپنے سکول (گورنمنٹ ہائی سکول ہرچین )کے چوکیدار نے ان کو ہراسان کرنے کی کوشش کی ۔ اس باہمت لڑکی نے اس درندے کی بدنما حرکت کا جواب دیا‘ اسی دوران گاؤں کے دو افراد کا وہاں سے گزر ہوا جنہوں نے لڑکی کو اس درندہ نما انسان کی ہوس سے بچایا ۔

وہ لڑکی سکول پہنچ کر ہیڈ ماسٹر کے سامنے شکایت کی ‘ ہرچین ہی سے تعلق رکھنے والے ایک استاد اس لڑکی کو لے کر پولیس تھانہ پہنچے اور ان دو گواہوں کو بھی ڈھونڈ نکال کر واقعے کی ایف آئی آر درج کی ۔ پولیس نے واقعے کی تحقیقات کن بنیادوں پہ کی کچھ بھی پتہ نہیں البتہ کیس پولیس کے بعد جب عدالت پہنچا‘ توپیشی پہ پیشی ہوتی رہی۔ بالاخر عدالت کے سامنے گواہوں کو پیش ہونے کا حکم دیا گیا لیکن وہ دونوں گواہ پیش نہ ہوئے۔

انتہائی باخبر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق گواہان کو پیش ہونے سے روکنے میں ہرچین سکول انتظامیہ کا بھی کلیدی کردار تھا۔ کیونکہ یتیم لڑکی کے لئے گواہی کون دیتا ہے ۔ لڑکی کی جانب سے گواہوں کی عدم پیشی پر عدالت نے کیس کا فیصلہ اس کے خلاف دیا ۔ یوں یہ پاک دامن لڑکی ناکردہ گناہوں کا داغ اپنے دامن میں لگا کے گھر واپس آئی لیکن ہمت نہ ہاری اور اپنے اساتذہ اور پرنسپل کے سامنے انصاف کی بھیک مانگتی رہی لیکن استاد محترم الٹا اس لڑکی کو بدنام کرتے رہے کہ دراصل یہ پیسے کے لئے ہمیں بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہی ہے،اور اساتذہ سمیت گاؤں کے اکثر افراد اس لڑکی کو گناہ گار اور بدکردار گردانتے رہے۔

ظالم باپ نے بیٹی کو قتل کرکے لاش جلادی

اس مسئلے کو رفع دفع کرنے کے لئے سکول انتظامیہ نے پہلے چوکیدار کا کسی اورسکول میں تبادلہ کیا پھر کئی ماہ بعد چوکیدار کی دوبارہ اسی سکول میں واپسی ہوئی ۔ اس بدقماش چوکیدار نے اب پہلے سے زیادہ سخت گیر انداز میں اس لڑکی کو ہراساں کرنا شروع کر دیا ۔ جو کہ ایک پاک دامن لڑکی کے لئے ناقابل برداشت تھی ۔

قانون کا دوازہ کھٹکھٹانے کے بعد جب مایوسی ہوئی تو لڑکی سکول انتظامیہ پر دباؤ ڈالتی رہی کہ وہ چوکیدار کا یہاں سے تبادلہ کریں لیکن اس کی بات کون مانتا۔ ان تمام حالات وواقعات کے ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ بتایا کہ کورٹ کے فیصلے کے بعد اس لڑکی پرمایوسی چھائی ہوئی تھی۔جب ہر جانب سے ناامیدی کے سواکچھ نہ ملا تو ایک دن زہر ساتھ لے کر سکول پہنچی اور سکول انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ اگر آج اس کو انصاف نہیں ملی تو وہ زہر پی کر اپنے دامن میں لگے داغ کومٹا دے گی لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی ۔

سکول چھٹی ہونے جارہی تھی سارا اسٹاف سکول بند کرکے گھر جانے لگا تو وہ وہیں موجود تھی‘ اس نے انتظامیہ کو بتا یاکہ وہ زہر پی چکی ہے لیکن کسی نے یقین نہیں کیا اور سارااسٹاف ایک ایک کرکے گھر چلا گیا اور لڑکی نے وہیں تڑپتے تڑپتے جان کی بازی ہار دی ۔

اس حادثے کے بعد محکمہ تعلیم نے پرنسپل ، ایک استاد واقعے کے اصل محرک چوکیدار کو سزا کے طورپر محض کسی دوسرے سکول میں تبادلہ کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ای ڈی او ایجوکیشن نے اس کیس کو رفع دفع کرنے کے لئے اساتذہ کی تنخواہوں میں سے کٹوتی کرکے کچھ رقم لڑکی کے والدہ کو دی اور یوں سارے کیس کو دبایا دیا گیا ۔ واقعے میں ملوث اسٹاف اب دوبارہ اپنی جگہ ڈیوٹی دے رہے ہیں اور ڈر یہ ہے کہ کوئی اور بنتِ حوا کسی دن لرزتے ہاتھوں میں زہر کی شیشی تھامے انصاف کی بھیک نہ مانگ رہی ہو۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں