The news is by your side.

اماں جان‘ کیا آپ مجھ سے خفا ہیں؟

رشتوں کی تمیز ہونے کے بعد سب سے معتبر اور قابلِ اعتبار شخصیت ماں کو ہی پایا مگر افسوس یہ کہ صرف 10 برس کی عمر میں وہ ہمیں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئیں، 31 اگست کو جب ماں سے ملنے اسپتال گیا تو دل بہت اداس اور گھبرایا ہوا تھا معلوم نہیں کیوں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ امی کا انتقال ہوجائے گا اور ہماری اماں جان بھی 8 روز پہلے جب طبیعت خراب ہونے پر اسپتال جارہی تھیں تو کچھ ایسے الفاظ بطور نشانی ادا کرگئیں جو آج بھی سوچو تو معلوم ہوتا ہےکہ انہیں اپنی رخصتی کا علم ہوگیا تھا۔

انتقال سے ایک روز قبل اماں سے اسپتال ملنے گیا تو اُس وقت اُن کی طبیعت بہت بہتر تھی، چونکہ ہم ماں بیٹے ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے اس لیے ہماری ملاقات کے دوران کسی کو دخل اندازی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی بے شک میرے والد یا خالہ ہی کیوں نہ ہوں۔

مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم بہن بھائی اماں کی حکم عدولی کرتے تھے تو وہ نانی کے گھر جانے کا کہہ کر ہمیں بس اتنا ہی کہتی تھیں کہ ’’ٹھیک ہے ہم امی کے گھر جارہے ہیں اب رات میں اکیلے سونا‘‘۔ رات گھر میں سونے کے باوجود جب گلی میں کوئی کتا بھونکتا یا بارش میں بجلی کڑکتی تو امی ہم سب بہن بھائیوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیتیں کسی کو گود میں لٹا لیتی اور اگر کوئی دور ہوتا تو اُسے اپنی آواز کے ذریعے تسلی دیتی تھیں، یہ کوئی معمولی عمل نہیں تھا کیونکہ اس کا احساس اُن کے چھوڑ جانے کے بعد بہت زیادہ ہوا۔

ابتدائی ایام میں تو میں ، والد، چھوٹے بھائی روز امی سے ملاقات کے لیے قبرستان جاتے بلکہ میرا دوپہر کا وقت امی کے سرہانے بیٹھ کر گزر جاتا تھا اس دوران اُن سے خوب باتیں کرتا اور کبھی جب گلے لگنے یا پیار کرنے کا زیادہ دل چاہتا تھا تو ادھر اُدھر نظر دوڑا کر کسی شخص کی عدم موجودگی میں انہیں پیار کرلیتا تھا جس کے بعد کافی سکون حاصل ہوجاتا تھا۔

امی سے قبرستان میں ملاقات کا سلسلہ تین برس تک چلتا رہا پھر وقت نے کروٹ بدلی ، ہم مصروفیات میں گم ہوئے ملاقات ہفتے ، مہینے اور پھر سال میں ایک بار ہونے لگی، ہاں مگر اس دوران اماں سے خواب کے ذریعے ملاقات ہوجاتی تھیں جس میں وہ کبھی لال جوڑا، کبھی سفید کفن پہنے آتیں اور تسلی دے جاتی تھیں۔

پڑھائی کے ساتھ نوکری شروع کی تو ہر دوسرے دن خواب میں حوصلہ بلند کرنے آجاتی تھیں بلکہ جب پہلی تنخواہ ملی تو اُس دن انہوں نے فرمائش بھی کی کہ میرے نام کا جوڑا فلاں خاتون اور کھانا اُس کو دے آنا، ہم نے تنخواہ ملتے ہی گھر والوں کے لیے مٹھائی خریدی اور اماں کی ہدایت کے عین مطابق وہ چیزیں خرید کر متعلقہ لوگوں کو پہنچائیں۔

وقت کی مصروفیات اس قدر بڑھ گئیں کہ دوسری تیسری اور اُس کے بعد آنے والی تنخواہیں ملنے پر اماں خواب میں نہیں آئیں نہ ہی اُن سے خیالی ملاقات ہو سکی مگر آج بھی ہم کچھ نہ کچھ اُن کے نام کا رفقاء میں ضرور تقسیم کردیتے ہیں تاکہ اُن سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہے۔

آج زندگی بہت ہی مصروف ترین گزر رہی ہے صبح گھر سے نکلو اور رات گھر میں داخل ہو جس کے بعد صرف ایک ہی چیز بستر پیاری لگتی ہے، جسم کی تھکاوٹ گھر میں موجو بہن بھائیوں کو دیکھ کرختم ہوجاتی ہے مگر ذہن اس قدر ماؤف ہوتا ہے کہ سونے کے لیے لیٹ جاؤ تو بعض اوقات دعا بھی مکمل نہیں ہوپاتی اور صبح کے ساڑھے 8 بج جاتے ہیں۔

کل شام کے بعد ایک دم اماں کی یاد بہت ستانے لگی جس کے بعد اُن کی مغفرت کے لیے دعا کی اور تھوڑی دیر اکیلے بیٹھا کر خیالی ملاقات کی کوشش کی مگر ناکام رہا، امی یاد آگئیں اُن کی آواز ہنسی اور غصہ سب یاد آیا مگر اُن کا چہرہ دھندلا رہ گیا۔

ماں کا دھندلا چہرہ میرے لیے باعث تکلیف بنا کیونکہ وہ میری سب سے اچھی دوست تھیں جن سے میں بیٹھ کر گھنٹوں اپنی باتیں شیئر کرتا تھا اور وہ غیر حاضری میں بھی اپنی کی گئی تربیت کے ذریعے مشورے دے دیتی تھیں، مگر کل نہ جانے ایسا کیوں ہوا معلوم نہیں؟۔

اس تمام تر صورتحال کا غور و فکر کیا کچھ سمجھ نہیں آیا، ہاں مگر یہ لگا کہ ماں کسی بات پر شدید ناراض ہے مگر امی اب تو آپ آتی بھی نہیں اور آپ کی قبر پر کسی دوسرے کی قبر بنادی گئی تو کیسے مناؤں آپ کو؟ کاش کہ میرے جذبات آپ تک پہنچ جائے اور آپ ایک بار پھر خواب میں آکر گلے لگائیں اور پھر میں آپ کے چہرے پر پیار کرسکوں۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں