The news is by your side.

سر سید احمد خانؒ کے اعزاز میں یادگاری بین الاقوامی کانفرنس

جامعہ کراچی‘ شعبہ اُردوکے زیرِ اہتمام اور ہائر ایجوکیشن کمیشن ،اسلام آباد، انجمن ترقیِ اُردو و دیگر کے تعاون و اشتراک سے سر سید احمد خانؒ کے دو صد سالہ جشنِ ولادت کے حوالے سے ایک تاریخی اور یادگار بین الاقوامی کانفرنس ”ادب ،تاریخ اور ثقافت: جنوب ایشیائی تناظر اور سر سید احمد خان “ کے عنوان سے 16 تا18، اکتوبر 2017 ءآرٹس آڈیٹوریم، جامعہ کراچی میں منعقد کی گئی تھی جس میں پاکستان،ہندوستان،مصر،سوئیڈن،امریکہ،برطانیہ ،کینیڈا سمیت کئی ملکوں کے دانشوروں،محققین اورمقامی طلبا و طالبات کی کثیر تعداد نے بھی ہر روز بھر پور دلچسپی سے شرکت کر کے سر سید احمد خان ؒکی ہمہ جہت شخصیت کے بارے میں بھر پور آگاہی حاصل کی جو درج ذیل تحریر میں مختصرا ً پیش کی جا رہی ہے۔

تمغہ حسن کارکرکردگی کا اعزاز رکھنے والے انجمن ترقیِ ادب( لاہور) کے ناظم جناب تحسین فراقی صاحب نے سر سیداحمدخانؒ کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ سر سید احمد خانؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کی بیداری میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ان کے علمی کارناموں میں غیر معمولی تنوع ہے۔مثال کے طور پر وہ علم الکلام کے بھی ماہر تھے ۔ اُردو میں علمی نثر کو رواج دینے میں سر سیداحمد خانؒ کی خدمات لائق تحسین ہیں۔

خطبات احمدیہ کے نام سے سر سید احمدخانؒ نے سیرتِ نبویﷺ پر نہایت اعلیٰ درجے کی کتاب لکھی ہے جو بارہ خطبوں پر مشتمل ہے۔یہ کتاب سیرتِ نبویﷺ کے نہ صرف بہت سے نئے دریچے کھولتی ہے بلکہ ساتھ ساتھ مغرب کی جانب سے نبی کریمﷺ کی ذات پر جو اعتراضات کئے گئے اُن کا بہت ہی مستند جواب بھی دیتی ہے۔ کتاب خطباتِ احمدیہ کے بارہ خطبوں کے مطالعے سے یہ بھی علم میں آتا ہے کہ اسلام وہ دین ہے جس نے نہ صرف یہ کہ اپنے نبی کریم ﷺکے اقوال اور ارشادات کومحفوظ رکھا بلکہ یہی وہ دین ہے جس نے اسلام سے پہلے کے ادیان کے انبیاءکے کردار کی بھی درست تشریح پیش کی ہے جو ظاہر ہے اُن کی کتابوں میں نہیں ہے۔

آثار الصنادید کے نام سے سر سید احمد خانؒ نے دہلی میں موجود اس وقت کے آثارِ قدیمہ کی معلومات اکھٹا کرنے کا بڑا اہم کام انجام کیا اور یہ کتاب آج بھی دہلی کی آرکیالوجیکل تاریخ میں اہم سند ہے۔ کتاب تبین الکلام اور رسالہ تہذیب الاخلاق بھی سر سید احمد خانؒ کے نمایاں علمی کارنامے ہیں۔

سر سید احمد خانؒ کے تفسیری کام کے حوالے سے خود مولانا الطاف حسین حالیؒ نے لکھا ہے کہ سر سیداحمد خانؒ سے رقیق لغزشیں ہوئی ہیں اُن کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہئیے۔ سر سید احمدخانؒ کا زمانہ وکٹورین سائنس کا زمانہ تھا لہذا انہوں نے اُس محدود سائنسی تصور کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے قرآنِ حکیم کے بعض مقامات کی تفسیر کی جس کو جمہور اہلِ علم نہیں مانتے لہذا ہمیں اس کو نظر انداز کردینا چاہئیے ۔ اس کے علاوہ سر سیداحمدخانؒ کے افکار کا بڑا حصہ آج بھی زندہ ہے جس سے ہم راہنمائی لے سکتے ہیں ‘ اس پر توجہ دی جانی چاہئیے۔

پروفیسر ہینز ورنر ویسلرز ڈائس پر خطاب کرتے ہوئے

سوئیڈن سے کانفرنس میں شرکت کے لئے آئے دانشور پروفیسر جناب ہینز ورنر ویسلرز نے کہا کہ سر سیداحمدخانؒ ایک عوامی دانشور تھے اُن کی پرورش روایتی تعلیمی نظام کے تحت ہوئی تھی لیکن وہ اُن مشکلات کی گہری سوجھ بوجھ رکھتے تھے جو جدید نو آبادیاتی نظام کی پیدا کردہ تھیں۔ سر سیداحمدخانؒ شاہ ولی اللہؒ سے بہت متاثر تھے ۔1857 ءکے غدر کے بعد انگریز نے مغربی نوآبادیاتی نظام کو جبراً پہلے سے زیادہ عوام پر نافذکیاتو ایسے میں سر سیداحمدخانؒ نے ذہانت سے سوچنا شروع کیا کہ کس طرح مختلف مذاہب کے لوگ آپس میں مل جل کر رہ سکتے ہیں جس کے لئے اُنہوں نے بائبل کا مطالعہ بھی کیا لیکن اُن کی عیسائی مذہب سمیت بین الامذاہب پر گفتگو کو کچھ حلقوں نے کم تر سمجھا ۔ سر سیداحمدخانؒ نے آئین ِاکبری کا ترجمہ بھی کیا۔

پروفیسر یوسف خشک سر سیداحمدخانؒ کی تعلیمی خدمات کے اثرات بتاتے ہوئے

خیر پور سے تعلق رکھنے والے پروفیسر جناب یوسف خشک نے سر سیداحمدخانؒ کی تعلیمی خدمات کے اثرات بتاتے ہوئے کہا کہ سر سیداحمدخانؒ کی تعلیمی خدمات کے اثرات صرف علی گڑھ تک محدود نہیں رہے بلکہ دیگر علاقوں کی طرح سندھ پر بھی اثر انداز ہوئے۔ سندھ سے محترم حسن علی آفندی نے وہاں جا کر سر سیداحمدخانؒ کی تحریک کا آئین بھی پڑھا اور جس طرح وہاں تعلیمی حوالے سے کا م کیا جا رہا تھا اُس کا گہرائی سے مشاہدہ کر کے واپس آنے کے بعد سندھ مدرستہ السلام قائم کیا جس میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد انہوں نے اندرونِ سندھ میں مختلف تعلیمی ادارے قائم کئے‘ جن میں سےنوشہرو فیروز میں کھولے گئے مدرسے سے شمس العلماءمحترم داؤد پوتہ اور محترم ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے تعلیم حاصل کی اس کے علاوہ میہڑ میں شمس الدین بلبل نے مدرسہ کھولا ، سکھر ، لاڑکانہ ،حیدرآبادسے اخبارات نکالے گئے جو اُس وقت لوگوں میں یہ شعور بیدار کر رہے تھے کہ تعلیم حاصل کر نی چاہئیے اور تعلیم حاصل کر کے مسلمان کس طرح مستفید ہو سکتے ہیں ۔غرض یہ کہ سر سیداحمدخانؒ کی تحریک ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے لئے مشعلِ راہ تھی جس سے سندھ کے لوگوں نے بھی بھر پور استفادہ کیا ۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور ڈاکٹر جعفر احمد نے کہا کہ سر سیداحمدخانؒ نے ایک ایسے وقت میں مسلمانوں کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے بے نظیر جدوجہد کی جب اُن کا پُرسانِ حال کوئی نہ تھا اور اس عظیم مقصد کے لئے انہوں نے تن تنہا مختلف محاذوں پر بہادری سے جدوجہد کی جس کے دوران اُنہیں مذہبی عناصر سمیت مختلف مخالف عناصر کا سامنا رہا لیکن اُن کا عزم متزلزل نہ ہوا۔ سر سیداحمدخانؒ اس حقیقت کا ادراک رکھتے تھے کہ انگریزوں کا طرزِ حکمرانی ماضی کے حکمرانوں سے بہتر تھا۔

سر سیداحمدخانؒ نے سہہ جہتی حکمت عملی استعمال کرتے ہوئے ایک جانب انگریزوں کے ذہن میں مسلمانوں کے حوالے سے پائے جانے والی غلط فہمیاں دور کیں اور دوسری طرف مسلمانوں سے بات کر کے بغاوتِ ہند تحلیل کرائی اور مسلمانوں کو باور کرایا کہ وہ انگریزوں کو ہندوستان سے بیدخل نہیں کر سکتے تو اُن سے محاذ آرائی کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے بہترین حکمتِ عملی یہی ہے کہ مسلمان برطانوی حکمرانوں کا اعتماد حاصل کریں اور تیسری حکمتِ عملی کے تحت مسلمان جو کہ اقلیت میں تھے‘ ان کو ایک قوم کا درجہ دلوا دیا جو مسلمانوں کے لئے نہایت فائدہ مند رہااس کوشش میں سر سیداحمدخانؒ نے اپنی تحریروں کے ذریعے سے بھی دونوں مذاہب کے ماننے والوں کو قریب لانے کے لئے اپنا کردار ادا کیا ۔ سر سیداحمدخانؒ کا بڑا کارنامہ 19 ویں صدی کے بہترین علم کو جذب کر کے 20 صدی میں منتقل کرنا بھی ہے ۔اللہ تعالی کی بنائی اس دنیا میں سر سید کی بنائی دنیا علی گڑھ یونیورسٹی ہے۔ہمیں سر سیداحمدخانؒ کی جدوجہد سے سبق سیکھ کر عمل کرنا چاہئیے۔

ہندوستان(علی گڑھ ) سے کانفرنس میں تشریف لائے پروفیسر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی نے فرمایا کہ سر سیداحمدخانؒ ایک عبقری شخصیت تھے جن کا کہنا تھا کہ قلم کا جواب قلم ہے یہی صحیح جواب ہے اور اسی سے جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ سر سیداحمد خانؒ یہ چاہتے تھے کہ ملتِ اسلامیہ کے درمیان جو اختلافات ہیں اُنہیں فکری طور سے سمجھ کر ختم کیا جائے اس مقصد کے لئے انہوں نے بھر پور کام کیا۔ علاوہ ازیں سر سیداحمدخانؒ نے مسلمانوں کو انگریزوں کے عتاب سے محفوظ رکھنے اور ایک قوم کا درجہ دلوانے کی غرض سے تعلیم کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں ۔مدرسہ قائم کیا جو اُن کی وفات کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی بنا جس سے قابلِ ذکر شخصیات فارغ التحصیل ہوئیں جن میں مولانا حسرت موہانیؒ، مولانا الطاف حسین حالیؒ، مولوی عبدالحقؒ ، مولی ذکاءاللہؒ و دیگر شامل ہیں،کئی کتابیں لکھیں جن میں خطباتِ احمدیہ او ر تبین الکلام اُن کی معرکتہ الآرا تصانیف ہیں جن میں جہاد پر مختصر ا ور بنیادی تحریر بھی پائی جاتی ہے۔

سر سیداحمدخانؒ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے سیر ت نگاریﷺ کو عالمانہ انداز میں لکھا ہے ۔ سر سیداحمدخان ؒکی عالمانہ کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے ایک مغربی مفکر گارسی نے لکھا ہے کہ ہمارا کوئی بھی عالم توریت، زبور پر اس اعلی ٰمعیار ی انداز سے کتاب نہیں لکھ سکتا جو اعلی ٰمعیار سر سیداحمدخانؒ کا ہے۔ غرض یہ کہ سر سید کی انتھک اور مسلسل جدوجہد کی بدولت مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار ہوا،مسلمانوںکی عزتِ نفس اور اعتماد بھی بحال ہوا اور مسلمانوں کو ایک قوم کا درجہ ملا ۔ہمیں سر سیداحمدخانؒ کی جدوجہد کا مطالعہ کرنا اور اس پر عمل کرنا چاہئیے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے دانشور ڈاکٹر نجیب جمال نے سر سیداحمدخانؒ کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ سر سیداحمدخانؒ کی کئی جہتیں ہیں ۔انہوں نے سیاسی ، مذہبی خاص طور پر سیرت اور تفسیر سمیت اُردو میں تحقیق کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ سر سید احمدخانؒ نے جتنی بھی کتابیں لکھی ہیں بہت تحقیق کر کے لکھی ہیں۔

سر سیداحمدخانؒ نے اُردو میں جہاں مضمون نگاری کا آغاز کیا ،تاریخ پر لکھا ، سیرت پر لکھا،تفسیر پر لکھاوہاں اُن کا سب سے بڑاس کارنامہ میری نظر میں اُن کی لکھی گئی کتب میں سائنٹیفک اپروچ ہے جو ہمیں دکھائی دیتی ہے۔1857 ءسے پہلے کی تاریخ دیکھیں تو مسلمان قوم کا زوال ہی زوال دکھائی دیتا ہے اور کوئی صورت ایسی دکھائی نہیں دیتی تھی کہ جس میں اس زوال کے ختم ہونے کی اُمید ہو۔ایسے میں ضرورت اس امر کی تھی کے کچھ لوگ میدان میں آتے اور علمِ نافع کی ترویج کرتے یعنی وہ علم جو لوگوں کے لئے فائدہ مند ہو جو اُن کی شعور ی آبیاری کر کے اُنہیں غلامی سے نکال سکے ۔اسی مقصد سے سر سیداحمدخانؒ نے سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی ،تعلیمی ادارے قائم کئے،رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا ، کتابیں لکھیں سر سیداحمدخانؒ خود مذہبی آدمی تھے لیکن سائنس کی طرف آئے اور سائنس کے موضوعات کی جانب لوگوں کو متوجہ کیا خود بھی ان موضوعات پر کتابیں لکھیں اور مسلم ایجو کیشنل کانفرنس کے ذریعے سے مسلمانوں میں سیاسی عزم بھی پیدا کیا۔

سر سیداحمدخانؒ نے مسلمانوں کو ذہنی غلامی سے نکالنے کے لئے ٹیمیں بنائیں۔ ایک ٹیم وہ تھی جس میں مولانا حسرت موہانیؒ، مولانا ظفر علی خانؒ،مولوی عبدالحق ؒودیگر جو اُن کے ادارے سے تعلیم یافتہ تھے‘ شامل تھے۔ان حضرات نے اخبارات نکالے جس نے لوگوں میں سیاسی عزم پیدا کر کے انہیں سیاسی طور پر باشعور کیا۔دوسری ٹیم وہ تھی جس میں مولانا شبلی نعمانیؒ، مولوی نذیر احمدؒ ، مولوی ذکاءاللہؒ،مولانا ابو الکلام آزادؒ، مولانا الطاف حسین حالیؒ، مولوی چراغ علیؒ و دیگر شامل تھے جنہوں نے ادب کی جانب لوگوں کو متوجہ کیا ۔

مثال کے طور پر ناول پہلی مرتبہ لکھا گیا، تنقید پہلی دفعہ لکھی گئی ،سوانح عمری پہلی مرتبہ لکھی گئی ، مسدس پہلی مرتبہ لکھی گئی جس کے لئے سر سیداحمدخانؒ نے یہ کہا تھا کہ میں نے حالی سے جو مسدس لکھوائی ہے وہ مجھے بخشوائے گی ۔ غرض یہ کہ ایک ایسے وقت میں جب یہ سوچ عام تھی کہ مسلمانوں کو صرف مذہبی تعلیم حاصل کرنی چاہئیے ‘ سر سیداحمدخانؒ نے جدید تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مسلمانوں کو ذہنی غلامی سے نکال کر باشعور بنانے کا بیڑا اُٹھایااور مسلسل غیر معمولی جدوجہد کرتے رہے ۔

اُن کی ٹیم کے جو افراد تھے وہ اپنی ذات میں خود ایک ادارہ تھے مثلاً مولانا شبلی نعمانی ؒنے دارالمصنفین اور دارالندوہ قائم کیا، مولانا محمد علی جوہر ؒنے جامعہ ملیہ اسلامیہ قائم کیا، مولانا حسرت موہانی ؒنے اپنے اخبار اُردوئے معلی کے ذریعے سے ایک انقلاب برپا کیاوغیرہ ۔ڈاکٹر نجیب نے مسعود مختار کی کتاب ”حرف شوق “ کا حوالہ دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ بمبئی میں سر سیداحمدخانؒ کے پرپوتے ایک یونیورسٹی میں وائس چانسلر ہیں ‘ جب کچھ لوگ سر سیداحمدخانؒ کے حوالے سے ایک پروگرام کے سلسلے میں اُن کے پاس گئے تو اُنہیں معلوم ہوا کہ وہ خود بھی سر سیداحمدخانؒ سے پوری طرح آشنا نہیں تھے کیونکہ سر سیداحمدخانؒ کے پرپوتے نے اُن لوگوں سے حیرت سے پوچھا کہ کیا سر سیداحمدخانؒ کی کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں ۔

سر سیداحمدخانؒ کے پوتے کے پوتے یہ تو جانتے تھے کے سر سیداحمدخانؒ اُن کے اجداد میں شامل ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اُن کے دادا کے دادا نے قوم کے لئے کیا خدمات انجام دیں۔افسوس صدافسوس۔ انہوں نے کہا کہ کم و بیش یہی افسوسناک صورتحال ہمارے معاشرے میں بھی ہے کہ ہم سر سیداحمدخانؒ کے نام سے تو واقف ہیں لیکن اُن کے کام سے واقف نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے محسنوں کو یاد رکھنا چاہئیے اور ہمہ وقت اُن کی فکر سوچ اور خدمات کو آگے بڑھاتے رہنا چاہئیے۔

کینیڈا سے تشریف لائے دانشور جناب اشفاق حسین

کانفرنس میں کینیڈا سے تشریف لائے دانشور جناب اشفاق حسین(تمغہ حسنِ کارکردگی) نے کہا کہ سر سیداحمدخانؒ نے اُس دور میں بہت سے مذہبی خیالات پر بحث کی جس پر بہت سے لوگ اُنہیں معتوب قرار دیتے رہے۔اُن کے بہت سے خیالات جس پر علمائے دین کو اختلافات تھے مولانا الطاف حسین حالیؒ کی کتاب ”حیاتِ جاوید“ میں موجود ہیں جن کی تعداد 41 ہے اس کے علاوہ 11 عنوانات ایسے تھے جن پر سر سیداحمدخانؒ کو خود شدید اعتراضات تھے جس میں سر سیداحمدخانؒ کو اجتہاد کا درجہ رہا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں سر سیداحمدخانؒ کی 150سال قبل لکھی گئی تحریروں کے صرف عنوانات بھی اخبارات میں شائع ہونے کے لئے دئیے جائیں تو وہ شائع نہ ہوں۔ہمارے معاشرہ کو ترقی یافتہ بنانے کے لئے آج کے دانشور کو اظہارِ رائے کی آزادی دی جانی چاہئیے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نزہت عباسی نے سر سید احمدخانؒ کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ سر سید احمدخانؒ کی اصلاحی تحریک کے
اثرات ہمہ گیر تھے اُن کے علمی کارناموں کے اثرات اُردو ناول پر بھی مرتب ہوئے ۔سرسیداحمدخانؒ نے جو کام رسالہ تہذیب الاخلاق کے اصلاحی مضامین سے لیا وہی کام خواتین ناول نگاروں نے بھی اپنے ناولوں میں سادہ اور عام فہم زبان کے ذریعے خواتین کے مسائل کو اُجاگر کر کے کیاجن میں اہم و ممتاز ناول نگار خواتین رشیدة النساء،محمدی بیگم،صغراہمایوںو دیگر شامل ہیں۔سر سیداحمد خان ؒ اس دنیا میں نہیں لیکن ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔

کانفرنس کےشرکاء

زندہ قومیں اپنے محسنوں کو نہیں بھولتیں اور اُن کے افکار سے سبق حاصل کر کے علم کی قندیلیں روشن کر کے معاشرہ کو منور کئے رکھتی ہیں ۔یہی عزم شیخ الجامعہ،جامعہ کراچی محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خا ن،رئیسِ کُلیہ سماجی علوم ،جامعہ کراچی محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری ،شعبہ اُردو کی سربراہ محترمہ پروفیسر تنظیم الفردوس اورڈاکٹرمحترم رؤف پاریکھ کی مخلصانہ سربراہی میں کام کرنے والی ٹیم جس میں جناب محمد سلمان ،ڈاکٹر ذکیہ رانی، ڈاکٹر صدف تبسم،ڈاکٹر تہمینہ عباس،ڈاکٹر رخسانہ صبا،ڈاکٹر راحت افشاں ، طلبا و طالبات اور ان کے ہر وقت ساتھ انجمن ترقی اُردو کے صدر محترم ذوالقرنین جمیل اور اس کی معتمدِاعزازی و ممتاز شاعرہ محترمہ ڈاکٹر فاطمہ حسن و دیگر کا اس کانفرنس میں عملاً دکھائی دیا جس کے لئے سب خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہو اپنے اسلاف کی پیروی کرتے ہوئے معاشرتی اخلاقی گراوٹ کو علم کے ذریعے دور کرتے رہنے کی انتھک مثبت عملی کاوشیں کرنا ،ان کو عملی جامعہ پہنانا اور اس عمل کو جاری رکھناجوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے لیکن حوصلے بلند ہوں تواندھیراآہستہ آہستہ دور ہونا شروع ہوتا ہیے اور نئی صبح کا سورج اپنی آب و تاب سے ہر جانب اُجالا بکھیر دیتا ہے ۔

علم کی ترقی اور اس سے فیض یاب ہونے کے لئے جامعہ کراچی کے شعبہ اُردو اور انجمن ترقیِ اُردو کی جانب سے اس کانفرنس میں پیش کئے جانے والے 100سے زائد مقالات کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا عزم بھی نہایت ہی لائقِ تحسین ہے ۔اُمید ہے یہ خوبصورت اور علم کی کرنیں بکھیرتارسالہ جلد ہی قارئین کے لئے دستیاب ہوگا۔

کانفرنس کے آخرمیں سب سے خوش آئند امر یہ رہا کہ سب شرکاءاس نقطہ پر متفق تھے کہ ایک صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرہ کو پروان چڑھانے اور مضبوط کرنے کا خواب علم حاصل کرنے، علم پھیلانے،غور و فکر کرنے، مکالمہ کرنے ،تحقیق و تنقید کرنے اور ان کے تسلسل کو جاری رکھنے ہی سے شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ اپنے حصے کی شمعیں جلاتے رہیے ۔۔چلتے رہیے کیونکہ’ ’چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر ۔۔۔۔آہستہ ۔۔۔۔آہستہ ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں