سلمان خان
شہر کراچی جو ماضی میں حسین اور خوبصورت ترین شہر تصور کیا جاتا تھا،جہاں لوگ دوردراز ممالک سے آیا کرتے تھے ، یہاں کے خوش ذائقہ کھانوں کے مراکز ہمیشہ کھانے کے شوقین افراد کو لذت فراہم کرتے، سڑکیں بے حد کشادہ ،تعلیمی نظام اعلیٰ اور معیاری سفری سہولیات کے لیے ٹرام سروس اور ڈبل ڈیکر بسیں ہمیشہ حاضر رہتیں ، یہ تو تھا ماضی کے کراچی کا احوال ۔اگر آج کے کراچی کو دیکھا جائے تو کشادہ سڑکوں کی کشادگی ختم ہوچکی ، کھانوں کے مراکز کی ایام ِ سابقہ جیسی چکاچوند ختم ، ٹرام اور ڈبل ڈیکر بسیں قصۂ پارینہ بن گئیں ، معیاری تعلیمی نظام نقل کی نذر ہوا‘ یہاں تک کے کھلیوں کے میدان اور باغات کو بھی ختم کردیا گیا اور اب ان کی جگہ بے ہنگم سی ہونے والی انفراسٹرکچر کی منصوبہ بندی ، اداروں میں کرپشن اور نااہلی نے لے لی ہے۔
کراچی کے پرانے علاقوں میں جہاں میدان ، اسکول اور پارک کی جگہ تھی وہاں اب بلند و بالا کانکریٹ کا ڈھانچہ عمارتوں نے لے لی ہے ، جس کے بعد شہر قائد کے باسیوں کے کیے تفریحی مقامات نہ ہونے کے برابررہ گئے ہیں، شہر قائد کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں کی مٹی ہر ایک شخص کو بآسانی راس آجاتی ہے‘ شائد یہی وجہ ہے کہ حکومت کی نااہلی اور آنکھیں بند کرنے یا پشت پناہی کے باعث سیاسی جماعتوں ، اداروں کے افسران ، اور کرپٹ مافیا نے شہر کے رفاہی ، فلاحی پلاٹ ، ریلوے کی اراضی ، نالے ، فٹ پاتھ بھی فروخت کردیے۔
شہر کے علاقے جن میں کورنگی ، نارتھ کراچی ، سرجانی ، گلستان جوہر اور گلشن اقبال سمیت کئی علاقوں کی زمینوں پر غیر قانونی عمارتیں اور شادی ہالز بن گئے ہیں ۔ چائنا کٹنگ کی اس بہتی گنگا میں جس کا بس چلا ہاتھ دھوتا گیا۔ دیکھا جائے تو شہر پر قابض ہونے کی منصوبہ بندی کوئی تین چار سال پرانی نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں گزشتہ تیس پینتیس سال کا کارنامہ دکھائی دیتا ہے جو اب بھی جاری و ساری ہے ، اس کرپٹ مافیا کا جہاں بس چلا اپنا کارنامہ دکھایا فٹ پاتھ سے لے کر کئی ایکڑ زمینوں کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا، ملیر ندی اور اس کے اردگرد کی زمینیں جہاں کبھی سرسبز باغات لہلہاتے تھے آج مافیا کی نظر ہوکر سوسائٹیوں کا روپ دھار گئے اور یہ کام ان اداروں کے ساتھ مل کرکیا گیا جو اس کام کو روکوانے پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
ان اداروں کی اگر بات کریں تو ماضی میں جب کبھی انہیں کارکردگی ظاہر کرنا پڑی ہے تو ہاتھ صرف اور صرف غریب پر ہی پڑا ہے کھیل کے میدانوں پر قائم کیے گئے شادی ہالز اور عمارتوں کے سامنے قائم پنکچر کی دکانیں یا پان کے کھوکے کو اکھاڑ کر یا ان کا سامان ضبط کرکے اخبار میں تصویر چھپوالی مگر ان کے عقب میں بیٹھے بڑے مگرمچھوں پر کبھی بھی ہاتھ نہ ڈالا گیا ‘ ہاں اگر بات زیادہ بڑھ جائے تو شہر کے سنسان علاقے میں جاکر چار دیواری کو گرا دیا جاتا اور دو چار دن بعد یہ چار دیواری دوبارہ قانون کو منہ چڑائے عالیشان انداز میں کھڑی نظر آئی ہے ۔
اگرصرفِ شہر قائد کے علاقے نیوکراچی کی بات کی جائے تو یہاں تقریبا پچاس فیصد کاروبار ہی نالوں کے اوپر قائم دکانوں میں ہوتا ہے ۔گودھرا سے دعا چوک ، کالا اسکول سے یوپی ، پانچ نمبر سے صبا سینما سمیت جہاں سے نالا گزرا وہیں ان کے اوپر دکانیں بھی پہنچ گئیں ، یہ دکانیں کوئی نئی نہیں بلکہ ایک عرصہ دراز سے قائم ہیں اور ان میں لوگ کامیاب کاروبار کررہے ہیں ایسے میں اگر ان دکانوں کے خلاف کارروائی کی بھی جاتی ہے تو ایسا کون شخص ہوگا جو بغیر مزاحمت کیے اپنے کاروبار کو اپنی ہی آنکھوں کے سامنے گرتا دیکھ سکےگا ‘ظاہر سی بات ہے کہ ان سب حالات میں یہ کاروباری حضرات بھی کسی حد تک ملوث ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ دکانیں نالے کے اوپر قائم کی گئی ہیں ان لوگوں نے خریدیں اور کاروبار کا آغاز کیا۔
اس امر میں ذمہ دار صرف یہ افراد اور حکومت ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہی دیگر ادارے جن میں محکمہ لینڈ و ماسٹر پلان ، ادارہ ترقیات ، کے ڈی اے ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، محکمہ انسداد تجاوزات شہر کراچی کی بااثر سیاسی جماعتیں اور ان کے زیر سایہ چلنے والے گروہ بھی شامل ہیں ، اب سپریم کورٹ کے ذریعے ایک بار پھر چائنا کٹنگ کے مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے ، ایک اندازے کے مطابق شہر قائد کی آٹھ ہزار ایکڑ آراضی پر قبضہ کیا جاچکا ہے ، سپریم کورٹ کے مطابق شہر ِقائد میں آخری بار گرینڈ آپریشن ایوب خان کے زمانے میں کیا گیا تھا ۔
عدالت کے برہم ہونے پر ایک بار پھر آپریشن کا آغاز ہوا ہے‘ کئی علاقوں میں کارروائی کرکے شادی ہالز کو توڑ دیا گیا ہے مگر جہاں اس آپریشن سے فائدہ ہوا وہیں ان لوگوں کو نقصان بھی ہوا ہے جنہوں نے شادی بیاہ کی تقریبات ان ہالز میں منعقد کررکھی تھیں ، اب دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ یہ متاثرہ افراد کسی نہ کسی طرح ان منہدم شدہ ہالز میں ہی قناطیں لگا کر تقریبات کررہے ہیں ۔کئی زیر تعمیر عمارتیں بھی گرائی گئی ہیں جس کے خلاف لوگ سراپا احتجاج بھی ہیں ، ان افراد کا کہنا یہ ہے کہ ان کا یہ آشیانہ پائی پائی جوڑ کر بنایا گیا تھا اور جب یہ عمارت یا تجاوزات قائم ہورہی تھی تو حکومت یا متعلقہ ادارے کہاں غائب تھے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ قبضہ مافیا کے خلاف یہ آپریشن صرف شادی ہالز یا چند عمارتوں تک ہی محدود رہتا ہے یا اس کا دائرہ آگے بڑھے گا ، اگر آگے بڑھتا ہے تو کئی رہائش پزیر عمارتوں کے علاوہ پوری پوری ہاوسنگ سوسائٹیوں کے نام بھی سامنے آجائیں گے جو کہ غیر قانونی طور پر قائم کی گئی ہیں ، ان کے خلاف آپریشن کیا گیا تو ان متاثرہ افراد کا بے گھر ہونا بھی ایک سنگین مسئلہ بن جائے گا۔ ضرورت اس چیز کی بھی ہے کہ اس کالے دھندے میں ملوث تمام افراد کے ناموں کو سب کے سامنے لانا چاہیے اور انہیں فی الواقع سزاد دینی چاہیے‘ خواہ اس بندے کا تعلق کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے ہو یا وہ بندہ کسی بھی اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہو ۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں