The news is by your side.

قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟

پاکستان کے موجودہ حالات پر نظر ڈالیں تو انتہائی المناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ملک مصنوعی مہنگائی ‘بے روزگاری‘ ناانصافی‘ کرپشن‘ انتہا پسندی‘ دہشت گردی‘ افراتفری‘ مایوسی اور غیر یقینی کا شکار ہے۔پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔عالمی بینک اور آئی ایم ایف سمیت بیرونی قرضے اربوں ڈالرز سے تجاوز کر چکے ہیں اور مزید اربوں روپیہ کے اندرونی قرضے اس کے علاوہ ہیں۔یہ معاشی ابتری اور سیاسی بے چینی اچانک پیدا نہیں ہوئی ، بلکہ ملک کی 70 سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو ان سب خرابیوں کی وجہ قیامِ پاکستان کے فوری بعدنوکر شاہی ، جاگیر دار طبقے اور مذہبی حلقوں کے گٹھ جوڑ اور ملک میں آئینی اور جمہوری حکومتوں کو سبوتاژ کرنے اور اپنے طبقاتی مفادات کے حصول سے شروع ہوئی ۔

یہی نہیں بلکہ دو فیصد امیر طبقے نے ملک میں غیر ملکی مداخلت کا راستہ بھی ہموار کیا جس کے نتیجے میں ہماری حقیقی آزادی‘ خود انحصاری‘ قومی ترجیحات اور قومی حمیت قدم قدم پر پامال ہوتی رہی اور ہماری سیاسی پالیسی‘ خارجہ پالیسی ‘ اقتصادی پالیسی‘ تعلیمی پالیسی اور سماجی پالیسیاں تک بیرونی مداخلت کے تابع آگئیں ۔ ہر حکومت نے ہر شعبہ کے لیے ایڈہاک پالیسیاں وضع کرنی شروع کیں جس کی وجہ سے کوئی شعبہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکا،ادارے کمزور اور بے مہار ہوگئے ہیں۔ کرپشن اور اقربا پروری نے پورے معاشرے کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا۔

غیر جمہوری حکومتوں کے قیام‘ عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی اور صرف دو فیصد امیر اور طاقتور طبقے کی اجارہ داری نے ملک میں امیری اور غریبی کے بیچ فرق میں زمین آسمان کی خلیج پیدا کر دی۔واضح رہے کہ ملک کا دو فیصد امیر طبقہ تمام تر سیاسی اور انتظامی اختیارات سمیت ملک کی 80 فیصد دولت اور قدرتی وسائل پر قابض ہے جبکہ 98 فیصد عوام کی قطعی اکثریت مفلسی ، ناداری، مایوسی ، احساسِ محرومی سمیت دیگر بے شمار مسائل سے دوچار ہیں ۔روزگار ، مکان، بجلی ، پانی،اشیاءصرف کا حصول ،طبی سہولتیں اور سستا انصاف ان کے نزدیک محض ایک خواب بن کر رہ گئے ہیں ۔

گو کہ سیکیورٹی فورسز کی لازوال قربانیوں کے سبب انتہا ، پسندی ، دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے لیکن انتہا پسند،دہشت گرد اب بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں جیسا کہ 12 ربیع الاول کے مقدس دن افغانستان سے ملنے والی ہدایات پر انتہا پسند وں نے پشاور کی ایک یونیورسٹی میں دہشت گردی کی کاروائی کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلایا جس کو بروقت سیکیورٹی فورسز نے پسپا کر کے بڑی جانی و مالی تباہی سے عوام کو محفوظ رکھا۔اس کے علاوہ کرسمس کی آمد کے موقع پر 17،دسمبر بروز اتوار کے دن کوئٹہ میں ایک چرچ کو انتہا پسندوں نے نشانہ بنایا لیکن یہاں بھی وہ مکمل کامیابی حاصل نہ کرسکے اور سیکیورٹی فورسز نے جلد ہی انہیں ہلاک کرکے صورتحال پر قابو پالیا۔

انتہا پسندی ، دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ہماری ہے یا بیرونی یہ سوال اپنی جگہ بحث طلب ہے مگر سچ یہ ہے کہ 9/11 کے بعد یہ مسئلہ ہم پر مسلط کر دیا گیا ۔انتہا پسندی، دہشت گردی کی یہ جنگ درحقیقت وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطی کے قدرتی وسائل کے حوالے سے مغربی طاقتوں کے گریٹ گیم کا حصہ ہے۔یہ گیم ایک عرصے سے جاری ہے جب کہا جاتا تھا کہ سوویت یونین افغانستان میں اس لئے آیا ہے کہ وہ خلیج کے گرم پانیوں اور گوادر تک رسائی چاہتا ہے جبکہ بات کچھ اور تھی اور اب تو بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے اور یہ ظاہر ہوچکا ہے کہ گرم پانیوں اور گوادر تک رسائی کے لئے کون کون سی بیرونی طاقتیں کیسے کیسے جال بچھا رہی ہیں ۔وسط ایشیا اور مشرق وسطی کے معدنی ذخائر جس میں تیل اور قدرتی گیس سرِ فہرست ہیں بڑی طاقتوں کی صنعتی ، معاشرتی اور دفاعی ضروریات کی تکمیل کے لئے بلڈ لائن کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہیں ۔جس کی وجہ سے بعض مبصرین کو یہ خدشات بھی لاحق ہیں کہ اگر بڑی طاقتیں اسی طرح آپس میں رسہ کشی میں مصروف رہیں تو یہ گریٹ گیم کہیں تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔

ملک کے جاری حالات ، غیر یقینی کیفیات اور سازشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جب پلٹ کر ہم اپنے ماضی ،تحریک ِپاکستان اور تشکیلِ پاکستان کے دور پر نظر ڈالتے ہیں تو سب سے پہلے ہماری نظریں بابائے قوم قائدِ اعظم محمدعلی جناحؒ کی پُر وقار شخصیت اور ان کی پُر عزم جدوجہد پر جاکر ٹہر جاتی ہیں۔قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ کی سیاسی عظمت اور انسان دوستی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ تقسیمِ ہند سے قبل ان کو ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کا غیر متنازعہ سفیر تسلیم کیا جاتا تھا ۔قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ اپنے افکار و خیالات اور قول و فعل میں اُصول پسند ،اعتدال پسند اور صلح پسند واقع ہوئے تھے۔قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے ہر سطح پر مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور ہر قسم کے تعصبات کی مخالفت کی۔

قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ ایک ایسے پاکستان کی تشکیل چاہتے تھے جہاں آئین کی حُرمت کو مقدم تصور کیا جائے ،جہاں پارلیمان آزادی اور خود مختاری سے فیصلے صادر کر سکیں، جہاں ہر شہری کو بلا امتیاز رنگ، نسل، مسلک، جنس اور مذہب انصاف میسر آسکے۔جہاں درسگاہیں علم و دانش کا گہوارہ ہوں ، تعلیم ، روزگاراور طبی سہولتوں پر ہر شہری کا بنیادی حق ہو ، جہاں عورت کی عزت اور توقیر کو مقدم تصور کیا جاتا ہو اور ریاست آدمیت کے احترام کو اولین ترجیح دیتی ہو۔ 1

11، اگست،1947 ءکو کراچی میں قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے پُر زور الفاظ میں کہاکہ ” آپ سب اب پاکستانی ہیں ، آپ کا جو بھی عقیدہ ہے اس پر عمل کریں اور اپنی عبادت گاہوں میں جائیں یہ آپ کا نجی معاملہ ہے، پاکستان سب کا وطن ہے “۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ نے 11، اگست،1947 ءکی اسی تاریخ ساز تقریر میں ملک سے ہر قسم کی سماجی برائیوں ، مثلاً کرپشن، ذخیرہ اندوزی، اقربا پروری اور ناانصافی کے خاتمے پر بھی زور دیا۔

قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ کے سوانح نگار اسٹینلے ولپورٹ نے اپنی کتاب ” قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کا پاکستان“ میں لکھا ہے کہ ” تاریخ میں بہت کم افراد ہیں جنہوں نے تاریخ کا رخ موڑ دیا،دنیا کے نقشے پر تبدیلی لے آئے یا ایک قوم کے تصور کو ریاست میں سمو دیا ۔مگر قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ نے حیرت انگیز طور پر یہ تینوں معرکے سر کر کے تاریخ میں اپنا نمایاں مقام بنالیا“۔

یہاں یہ نکتہ زیادہ اہم ہے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کی شخصیت ، سیاسی افکار و خیالات اور جدوجہد کے بارے میں تمام غیر جانبدار غیر ملکی مبصرین اور مورخین نے جو بات مشترکہ طور پر کہی ہے وہ یہ کہ قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کھلے ذہن کے مالک تھے ، جدید خیالات رکھتے تھے اور تعصبات سے بالاتر پُر جوش راہنما تھے ۔ان کی تمام تر سیاسی جدوجہد کا محور برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی ، خودمختاری، ترقی و خوشحالی رہا۔وہ مسلمانوں کوجدید دنیا کا سامنا کرنے اور ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ کندھا ملا کر ترقی کی جدوجہد میں آگے بڑھتے دیکھنا چاہتے تھے۔قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے افکار اور عمل سے قدم قدم پر یہ ثابت کیا کہ وہ پاکستان میں جمہوری سماجی انقلاب دیکھنا چاہتے ہیں ۔وہ تمام بڑی طاقتوں سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ پاکستان ایک آزاد، جدید اور ترقی یافتہ ملک بن کر اقوام عالم کی برادری میں اپنی جگہ بنا سکے۔

مگر افسوس کہ طالع آزماؤں اور اس ملک کی کوتاہ نظر ، مصلحت پسند اور اپنے طبقاتی مفادات کو ترجیح دینے والی اشرافیہ نے قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ کے پاکستان کو انتہا پسندوں ، دہشت گردوں ، قومی دولت لوٹنے والوں اور عوام دشمن قوتوں کا پاکستان بنا دیا۔ پاکستان میں اب تک وقفے وقفے سے صدارتی سسٹم نافذکرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جو پاکستان کے موجودہ حالات میں انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔یاد رہے صدر ایوب خان مرحوم نے جو صدارتی نظام نافذ کیا تھا اُس نے پاکستان کو دولخت کرنے میں جلتی پر تیل کا کام کیا تھا اس لئے جاری نازک ترین صورتحال میں پاکستان اس قسم کے کسی بھی تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

کچھ لوگ جن میں چند دانشور اور سیاستدان شامل ہیں صدارتی سسٹم نافذ کرنے کا بوگس پروپیگنڈہ کر کے عوام کا ذہن بھٹکانے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ دنیا میں جمہوری پارلیمانی نظام ناکام ہوچکا ہے دراصل یہ باتیں کرنے والے لوگ خود بوگس ہیں ۔ پاکستان میں گورنر جنرل غلام محمد کے زمانے ہی سے نوکر شاہی اور اس کے ساتھیوں نے اپنے خاص مقاصد کے لئے جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو شروع ہی سے درست طریقے سے پنپنے نہیں دیا تاکہ ان کی اجارہ داری قائم رہے جس میں یہ کامیاب رہے اور اس کے نتیجے میں آج تک سیاست، سیاستدان اور جمہوریت بدنامی کا شکار ہے۔یاد رہے کہ جمہوریت کے بغیر معیشت اور معیشت کے بغیر جمہوریت پنپ نہیں سکتی اس لئے پاکستان کی بقا،سالمیت، یکجہتی اور ترقی و خوشحالی کا سفر صرف اور صرف جمہوری پارلیمانی نظام اور اس کے تسلسل میں پوشیدہ ہے لیکن ساتھ ہی اس امر کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے کہ مستقبل میں آج کی طرح جاگیردارانہ جمہوریت رائج نہ ہوسکے جو صرف دو فیصد امیر طبقے کو فائدہ پہنچاتی ہے۔

اگر ہم خلوصِ دل سے وطنِ عزیز کو قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ کا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پولیٹیکل انجینئرنگ کو رد کرنے، جاگیرداری، وڈیرہ شاہی،نوکر شاہی وغیرہ کے منفی اثرات سے پاکستانی سیاست کو پاک کرنے، جمہوری قدروں کو توانا بنانے،امیری غریبی کے مابین فاصلے کم کرنے، خواتین اور اقلیتوں کو بنیادی تحفظ فراہم کرنے ،تعلیم ، صحت اور روزگار کی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے ،سستا انصاف فراہم کرنے، مکالمے کے عمل کو ہر سطح پر پروان چڑھانے،انتہا پسندی ،دہشت گردی،کرپشن کا جڑ سے خاتمہ کرنے اور ایک جدیدتعلیم یافتہ ،روشن خیال،اعتدال پسند ،امن پسند ،انصاف پسندپاکستانی معاشرہ کی تشکیل پر بھر پور زور دینا ہوگا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں