The news is by your side.

سندھ حکومت‘ پانی اورعدالت

پاکستان کی سیاست کا جائزہ لینے پر یہ افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے کہ چار سُو خراب طرزِ حکمرانی کا ڈیرہ ہے، جس کی بدولت عوام بے سکون ہیں۔ سندھ میں ہزاروں اساتذہ سالوں سے تنخواہوں سے محروم ہیں ۔مرے پہ سو دُرے یہ کہ پُر امن اساتذہ کو اپنا حق مانگنے پر تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔کراچی، حیدرآباد ،لاڑکانہ، خیر پور ، ٹھٹھہ ،سکھر ،میر پور خاص،نوابشاہ و دیگر اضلاع کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہے ہیں۔اسٹریٹ کرائمز و دیگر جرائم کی بڑھتی وارداتوں کی وجہ سے دوبارہ سے سماجی و معاشی سرگرمیوں پر منفی اثر ات مرتب ہو رہے ہیں، لیکن حکومت ان جرائم پر قابو پانے میں بڑی حد تک ناکام ہوگئی ہے ۔عوام میں مایوسی ،بے چینی ،بے یقینی کی سطح بلند ہے ،لہذا انصاف کے حصول کے لئے فطری طور پر وہ عدالت کا رخ کر رہے ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصے سے مسئلہ چاہے تجاوزات کے خاتمے کا ہو،رفاہی پلاٹوں پر سے قبضے ختم کرانے کا ہو ،اسپتالوں کی ناگفتہ بہ حالتِ زار کا ہو یا پھر صاف پانی کی فراہمی کا، سندھ حکومت کی خراب کارکردگی کی وجہ سے فطری اور آئینی طور سے اس خلا کو عوامی مفاد میں عدالت سوموٹو ایکشن اور پٹیشنز کے ذریعے پُر کررہی ہے تاکہ معاشرہ میں داخلی استحکام مضبوط ہو جس کی اس وقت پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔

پانی کے حوالے سے تو ایک درخواست گزار کی پٹیشن کی سماعت کے دوران عوام کے علم میں یہ چشم کشا خوفناک حقائق سامنے آئے کہ پانی فراہم کرنے والے بیشتر فلٹر پلانٹس بند ہیں ،دریاؤںمیں اسپتالوں،صنعتوںاور سیوریج کا گند ڈالاجاتا ہے اور پانی صاف کرنے والے ٹریٹمنٹ پلانٹس کام نہیں کررہے ہیں، جس کی وجہ سے کراچی کا 80 ،حیدرآباد کا 85،لاڑکانہ 88 اور شکار پور کا78 فیصد پانی آلودہ ہے، مجموعی طور پر سندھ میں 29 اضلاع کے عوام آلودہ پانی پی رہے ہیں ،جب کہ سندھ کا 80 فیصد پانی آلودہ ہے جس کی وجہ سے تقریباً 80 لاکھ لوگ ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہیں ،جس پر چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ اور سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کو بھی عدالت طلب کیا ۔

مذکورہ پٹیشن کی سماعت کے دوران عدالت نے سندھ بھر میں آلودہ پانی کے حوالے سے ویڈیو دکھائی اور وزیر اعلی ٰکو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے لوگوں کی زندگیاں خراب کردیں، اختیارات مزے لینے کے لئے نہیں خدمت کے لئے ہوتے ہیں، دیکھیں لوگ کیا پی رہے ہیں،عدالت اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنا چاہتی ہے ،6 ماہ میں اس مسئلے کو حل کیا جائے۔

اس صورتحال پر وزیر اعلی ٰنے کہا کہ یہ ویڈیو درخواست گزار نے بنائی ہے ،صورتحال اتنی بھی خراب نہیں،میں بھی ایک ویڈیو بنا کر لاؤں گا ۔انہوں نے سندھ کے پانی کی صورتحال کا پنجاب کے پانی سے موازنہ کیا اور کہا کہ 6 ماہ میں یہ کام نہیں ہوسکتا، لیکن عدالت نے سخت اورواضح موقف اختیار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ ہمیں آپ لوگوں کے خلاف کاروائی پر مجبور نہ کیا جائے، وزیر اعظم ہو یا وزیر اعلی کسی کو آئین کے خلاف کچھ نہیں کرنے دیں گے اور ساتھ ہی پینے کے صاف پانی کے حوالے سے جامع رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔

وزیر اعلی ٰکے موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پانی کے حوالے سے لگائی جانے والی اس پٹیشن کو اپنی حکومت کے خلاف ایک سازش سمجھتے ہیں،کیونکہ اس معاملے کا پنجاب سے آغاز نہیں کیا گیا ،بہرحال بات جو بھی ہو ،لیکن یہ حقیقت ہے کہ پینے کے پانی کے حوالے سے سندھ میں صورتحال واقعی بہت خراب ہے، جس سے باشعور عوام باخبر ہیں مگر وزیر اعلی کایہ موقف اپنی جگہ درست ہے کہ 6 ماہ میں یہ کام مکمل نہیں ہوسکتا ۔

آلودہ پانی کے حوالے سے حقائق جاننے کے لئے غیر جانبدارانہ غور و فکر کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پنجاب بھر سے صنعتوں سمیت دیگر فضلہ دریائے راوی میں ڈالا جاتا ہے ،جو بہہ کر دریائے سندھ میں گرتا ہے ۔اس عمل کو ختم کرنے کی ذمہ داری پنجاب حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

سندھ میں بھی پنجاب کی طرح ہی کی صورتحال ہے، جہاں صنعتوں،اسپتالوں اورجانوروں کا فضلہ مختلف شہروں کی نہروں میں ڈالا جاتا ہے ۔ سندھ میں کینجھر اور منچھر جھیل کی آلودگی بھی اب راز نہیں رہی ہے، جن سے تقریباً 70 فیصد پانی کراچی کو سپلائی ہوتا ہے۔

سندھ میں ٹاؤن پلاننگ کبھی درست نہیں کی گئی، یہاں صاف پانی اور سیوریج کے پانی کی لائنیں ایک ساتھ بچھائی جاتی ہیں ،جو ہلکے معیار کی ہوتی ہیں ،جب کہ سرکاری کاغذوںمیں معیاری ،یہ وقت سے پہلے ہی بوسیدہ اور ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں ،پھر ان کو بروقت تبدیل بھی نہیں کیا جاتا، اس لئے سپلائی سے آنے والا گندا پانی اور سیوریج کی لائن کا پانی اس میں شامل ہوکر مزید زہریلا ہوجاتا ہے ، اس پر ستم یہ کہ زیادہ تر ٹریٹمنٹ پلانٹس آئے دن خراب رہتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام نہ چاہتے ہوئے بھی دہائیوں سے فضلہ ملا پانی پینے پر مجبور ہیں۔

سندھ کے عوام کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ یہاں 30 سال سے زائد پی پی پی کی حکومت رہی ہو یا پھر دیگرسیاسی جماعت کے وزرائے اعلیٰ آئے ،لیکن کسی نے بھی بنیادی انسانی حقوق کے اس مسئلے کومنظم منصوبہ بندی کے ساتھ طویل اور پائیدار طریقے سے حل کرنے کی غرض سے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جو مذکورہ بالامسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کا بہترین حل ہے کیونکہ پانی، سیوریج کی لائنیں ،فلٹر پلانٹس،ٹریٹمنٹ پلانٹس،سڑکیں و دیگر انفرااسٹرکچر تعمیر کرنے اوراس کی دیکھ بھال و مرمت کرنے کا کام بلدیاتی حکومتوں کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے ۔

ڈکٹیٹرز کے دور میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے، لیکن ان کے جانے کے بعد حکمران سیاسی جماعتوں نے بجائے بلدیاتی انتخابات کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز میں بلدیات کو ملنے والے فنڈز تقسیم کر کے انہیں بھی خراب کیا اور عوام کے ساتھ بھی ظلم کیا۔ آج بھی سندھ بھر میں بلدیاتی حکومتیں بغیر اختیارات کے روح کے بغیرڈھانچے کی مانند ہیں، جس کی وجہ وڈیرہ شاہی حکومت ہے۔

مستند تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق ہیپاٹائٹس اور کینسر سمیت70 فیصد بیماریاں آلودہ پانی پینے سے ہوتی ہیں اور سندھ کا80 فیصد پانی آلودہ ہے، اس لئے عوام کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کی غرض سے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر وقتی اور دیرپا عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔

پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) نے چالیس سال قبل پانی کی صفائی کے حوالے سے ایک بہترین اور سستی دوائی بنائی تھی، جس کا نام ”مصفا “ ہے یہ ایک ٹیبلٹ 100 لیٹر پانی کی صفائی کرتی ہے اور ایک ماہ کے لئے کارآمد ہوتی ہے، جس سے عرصہ دراز تک خاص طور سے کراچی کے عوام کی ایک بڑی تعداد مستفید ہوتی رہی ہے، لیکن اب پانی کی صفائی کے لئے اس کا استعمال عام نہیں کیا جارہا اور اس کو چھپا کر غیر ملکی مہنگی مصنوعات کو زائد منافع کی غرض سے دکاندار بیچ رہے ہیں۔ فوری طور سے عوام کو سستی اور معیاری سہولت فراہم کرنے کے لئے حکومت کو اس جانب غور کرنا چاہیے۔

دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک ڈیمز بنا کر پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ سمندر کے پانی کو صاف کر کے نہانے ، کپڑے، برتن، زمین دھونے اور سڑکوں کی صفائی کے لئے بھی استعمال کر رہے ہیں(سوائے پینے کے کیونکہ سمندر کا پانی جتنا صاف کر لیا جائے پینے کے قابل نہیں ہوتا) اور وہاں اس مقصد کے لئے الگ لائنیں، پینے کے پانی کے لئے الگ لائنیں اورسیوریج کے لئے الگ لائنیں بچھائی جا رہی ہیں۔اس طرح نہ صرف وہاں پینے کے پانی کو آلودگی سے بچایا جاتا ہے، بلکہ اسے مذکورہ بالا کاموں میں استعمال میں نہ لا کر ذخیرہ محفوظ رکھا جاتا ہے اور دیگر ضروریات زندگی کے حوالے سے پانی کی کمی بھی نہیں رہتی ۔ عرب ممالک نے بھی عرصے سے یہ طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے ۔مذکورہ کامیاب اور قابلِ عمل طریقہ کار کو کراچی جیسے ساحلی شہروں میں پانی کی قلت دور کرنے پر جلد شروع کیا جائے تو چند ہی سالوں میں کراچی اور بعد ازاں اندرونِ سندھ میں اس کے دائرہ کار کو وسعت دے کر پانی کی قلت پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

اب جب کہ دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ اور آلودگی کی وجہ سے پانی کی قلت ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے بقول غیر جانبدار ملکی و غیر ملکی مبصرین عالمی جنگوں کا خطرہ ہے۔ صد افسوس اب تک پاکستان بھر میں نہ تو موجودہ آبادی اور مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیمز بنائے جا رہے ہیں، بلکہ پینے کا جو دستیاب پانی ہے اسے بھی آلودہ کیا جا چکا ہے ۔آلودہ پانی کا مسئلہ انتہائی سنجیدہ، اہم نوعیت اور ترجیحی بنیادوں پر حل کا متقاضی ہے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اس مسئلے کو جڑ سے ختم کئے بغیر سب کاوشیں عارضی ثابت ہوں گی۔ سندھ کی کثیر آبادی کے لئے ڈیمز بنانے اور پینے کا صاف پانی پہنچانے کے لئے فلٹر پلا نٹس،ٹریٹمنٹ پلانٹس، پینے ، نہانے ، کپڑے، برتن، زمین دھونے، سڑکوں کی صفائی اور سیوریج کی الگ الگ لائنیں ڈالنے اور مستقبل کے حساب سے ان میں توسیع کرنے کے لئے بلدیاتی انتخابات کا تسلسل اور با اختیار بلدیاتی حکومتیں ، ہر سطح پر مکالمے کا عمل ،بڑی منصوبہ بندی، اچھی کارکردگی اور بجٹ درکار ہے جس کے لئے سندھ کے موجودہ اور مستقبل کے حکمرانوں سمیت بیوروکریسی کی نیک نیتی،مخلصی ، بے لوثی اور دیانتداری اشد ضروری ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں