یکم مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں امریکی فوج نے آپریشن کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو قتل کر دیا ۔اس کے بعد سابقہ امریکی صدر اوبامہ کی زیر صدارت پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے اوبامہ نے آپریشن کے متعلق تفصیلات دیں۔ لیکن اس وقت ایک بات قابل توجہ تھی اور وہ یہ کہ ایک غیر مسلم ہونے کے با وجود اوباما بات کرتے کرتے رو پڑے اورکہنے لگے کہ مجھے نائن الیون میں ہلاک ہونے والے ان بہنوں اور بھائیوں کی یاد آگئی جو بے قصور اسامہ بن لادن کے حملے کے نشانہ بنے تھے ۔ حالانکہ اسلامی تعلیمات میں انسانیت اور اخلاقیات کے اسباق اس سے کہیں بڑھ کر ملتے ہیں لیکن اوبامہ کا یہ رویہ واقعی عوام کے لیے دل پذیر تھا ۔
دنیا کے تمام ممالک میں رعایا ایسے ہی حکمران چاہتی ہے جو ان کا دکھ درد سمجھتا ہے اور ان کا غم گسار بھی ہو ۔ اس پریس کانفرنس میں نہ تو اوبامہ نے کوئی کریڈٹ لینے والی بات کی کہ ہم نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کیا ہے اور نہ ہی تالیاں بجائیں اور نہ قہقہے لگائے ۔بلکہ افسوس کرتے ہوئے اس پہلو کو بڑھاوا دیا کہ کاش وہ اسامہ بن لادن کو ایسا کام کرنے سے پہلے ہی ختم کر دیتے ۔
ایک پریس کانفرنس گزشتہ روز بھی ہوئی ہے جو ایک بیٹی کے قاتل اور زنا کار کے گرفتار کیے جانے پر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمدشہبازشریف ‘ وزیر قانون رانا ثناء اللہ‘ زینب کے والد‘ پنجاب حکومت کا ترجمان اور دیگر شریک تھے ۔پاکستانی تاریخ پر دھبے تو اول دن سے بہت لگے ہیں لیکن یہ پریس کانفرنس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ پر ایک ہولناک داغ ثابت ہوئی ،اس کی ویڈیو بھی لیک ہو چکی ہے جس میں پریس کانفرنس کے آغاز سے پہلے رانا ثنا ء اللہ مرحومہ کے والد کو تنبیہہ کرتے نظر آتے ہیں کہ آپ نے صرف سزا کا مطالبہ کرنا ہے اس کے علاوہ کوئی با ت نہیں کرنی ،آپ کے جو بھی دیگر مطالبات ہوں گے وہ بعد میں ہم پورے کرنے کی کوشش کریں گے ۔
پریس کانفرنس کے دوران تمام حکومتی نمائندے یوں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے جیسے بہت بڑا معرکہ مار لیا ہو ، جیسے فاتح اعظم کا انہیں تمغہ لگنے جا رہا ہو ، چہرے پر نہ کوئی دکھ نہ غم ، میاں صاحب میڈیا کو بتاتے ہیں کہ قاتل پہلے تو بہانہ بنا رہا تھا کہ وہ دل کا مریض ہے اس لیے ہمیں تفتیش نہیں کرنے دے رہا تھا لیکن ہم نے اس کی ڈی این اے ٹیسٹ سکریننگ کروائی اور وہ میچ ہو گئی ، اور یہی سکریننگ ان باقی آٹھ لڑکیوں کے ساتھ بھی میچ ہو گئی جو پہلے اسی طرح زنا بالجبرکے بعد قتل کر دی گئیں تھیں ۔ انہوں نے بتایا کہ ٹوٹل گیارہ سو سے زائد لوگوں کی ڈی این اے سکریننگ کروائی گئی جن میں سے اس کی میچ ہو گئی ۔ شرم کا مقام ہے، اللہ کا قہر نازل ہو ایسے لوگوں پر جو بیٹیوں کی آبرو اور زندگی کا تماشا بناتے ہیں ۔
عمران علی کو محض تین گھنٹے پہلے پکڑا گیا اور اس نے جرم کا اعتراف بھی کر لیا اس کے بعد اس کا کوئی ٹیسٹ کروانے کی کوشش نہیں کی جا رہی تھی لیکن اس کے گھر والوں کے زور ڈالنے اور واویلا مچانے پر اس کی ڈی این اے سکریننگ کروائی گئی اور محض تین گھنٹوں میں رپورٹ بھی سامنے آ گئی کہ ڈی این اے میچ ہو گیا ہے ۔ لیکن یہاں سائنس کیا دلیل دیتی ہے؟ وہ کہتی ہے کہ ڈی این اے سکریننگ پر کم سے کم چوبیس گھنٹے اور زیادہ سے زیادہ 72 گھنٹوں کا دورانیہ صرف ہوتا ہے اور اگر یہی کسی کے خاندان کے بارے میں جاننے کیلئے کی جائے تو دو ہفتوں تک کا وقت درکار ہوتا ہے ۔ ہم اس کے خاندان پر نہیں جاتے ہم صرف ان آٹھ بیٹیوں اور زینب بیٹی کی بات کرتے ہیں۔
بڑا افسوس ہوتا ہے! تم لوگ عوامی نمائندے ہو اور انہیں کے ووٹوں سے حکومت کر رہے ہو لیکن پھر انہی کے ساتھ بھونڈا مذاق کرنے سے بعض نہیں آتے ! کیا یہ ڈوب مرنے کا مقام نہیں ؟ اگر محسوس ہوتا ہے حکمرانوں تو ڈوب مرو ! اگر عمران علی واقعی قاتل ہے جس طرح اس نے خود تسلیم کیا ہے تو یہ اتنا بڑا معرکہ کیسے ہو گیا ؟ بات تو تب تھی ، کارکردگی تو اس وقت ہوتی کہ جب ایسا کام ہونے ہی نہ دیا جاتا ، زینب کو ایسے ناسوروں کے ہاتھوں زندہ بچا لیا جاتا ! پھر تو یہ قہقے بھی جچتے تھے ،اور تالیاں بھی بجانے کی خوشی ہوتی ،لیکن تم لوگ یہ کیا کر رہے ہو کہ مقتولہ کی قبر کی مٹی ابھی تک خشک نہیں ہوئی اور تم اس کا تماشا بنائے بیٹھے ہو؟ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا یہ کوئی جنگل کا قانون ہے ؟۔
جب صحافی نے سوال مقتولہ زینب کے والد سے کیا تو وزیر اعلیٰ صاحب نے اس کے سامنے رکھے مائیک کا رخ اپنی طرف موڑ لیا اور اسے بند کر دیا ، اور دوسرا مائیک ساتھ بیٹھے پنجاب حکومت کے ترجمان نے اٹھا کر اپنے سامنے رکھ لیا ، انہیں بات ہی نہیں کرنے دی گئی ! کیا ہم جنگل میں رہتے ہیں ؟جنگل کی بات پر یاد آیا کہ ایک چوہا بہت تیزی سے بھاگا جا رہا تھا کہ راستے میں اسے لومڑی مل گئی ۔ اس نے پوچھا کہ تم اتنی تیزی سے کہاں بھاگے جا رہے ہو تو چوہا بولا خبر سنی ہے کہ شیرنی حاملہ ہو گئی ہے اور اسے اب بچہ ہونے والے ہے جس پر شیر کو تشویش ہے کہ وہ اس کا نہیں ہے ، اس لیے میں بھاگ رہا ہوں کہ کہیں شیر مجھے پکڑ کر اس جرم میں سزا نہ دے ،لومڑی ہنسی اور کہنے لگی تو اس نے تجھے تھوڑا ہی پکڑنا ہے ؟ چوہا بولا شیر جنگل کا بادشاہ ہے اور اپنی مرضی کا مالک ہے اس نے مہاندرا تھوڑی ملانا ہے !۔ کچھ عرصہ پہلے جو سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آئی تھی اس میں جو شخص زینب کو لے کر جارہا تھا اس میں اور گرفتار ہونے والے عمران علی کی شکل میں زمین و آسمان کا فرق بظاہر نظر آتا ہے ۔پریس کانفرنس کا ڈرامہ اور یہ باتیں شک میں ڈالتی ہیں کہ زینب قتل کیس میں بھی قانون کی آنکھوں پہ پٹی باندھنے کے سوا کچھ نہ ہو۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے :۔
ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں