سال نو کا آغاز مملکتِ خداد کے لیے کچھ اچھا نہ رہا محض 5 روز ہی گزرے تھے کہ جنوری کی 10تاریخ کو ننھی معصوم خوبصورت سی گورے رنگ والی بچی کی لاش کچرے کے ڈھیر سے برآمد ہوئی جہاں وہ ہونٹ بھینچ کر ابدی نیند سو رہی تھی۔
قصور کی ننھی زینب کی پرانی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں اور بتایا گیا کہ اس ننھی بچی کے والدین عمرے پر گئے ہوئے ہیں کہ درندہ صفت شخص نے اسے اغوا کرلیا اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا۔
تصاویر میں بچی کی خوبصورتی اور معصومیت نے لوگوں کو رُلا کر رکھ دیا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے زینب کی تصویر دیکھنے کے بعد افسوس کا اظہار نہ کیا اور اس خواہش کا اظہار بھی نہ کیا ہو کہ قاتل کو ایسی سزا دی جائے کہ معصوم بچوں کے مستقبل محفوظ رہیں اور وہ آئندہ کسی کی بھی درندگی کا نشانہ نہ بنیں۔
زینب کے لیے سوشل میڈیا پر آوازیں بلند کرنے والے افراد کا تعلق تمام مکاتب فکر سے تھا ‘ سب نے بلا جھجھک اور شرم ننھی پری کی تصاویر شیئر کیں شاید اُس کو کبھی یہ اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ یہ یادگار تصویریں اس کام کے لیے استعمال ہوں گی۔
سوشل میڈیا صارفین کا احتجاج مین اسٹریم میڈیا تک پہنچا پھر میڈیا چینلز پر بریکنگ نیوز اور ٹکرز کا طویل سلسلہ شروع ہوگیا ہر کوئی اس خوبصورت بچی کے قتل پر نادم ہوا، کھل کر اسکرین پر ٹی وی چینلز پر تصاویر دکھائی گئیں، پروگرام ہوئے مباحثے ہوئے قاتل کو سزا دینے کی تجاویز سامنے آئیں، چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا، یہاں تک آرمی چیف کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا اور۔
زینب بہت ہی کسمپرسی کے عالم میں ماری گئی لیکن اس کے جنازے کی براہ راست کوریج شہزادیوں کی طرح ہوئی، ایک کونے پر فائل فوٹو مسلسل لگی رہی اور لمحہ لمحہ اپ ڈیٹ کیا جاتا رہا ‘ تاکہ اب تک نہ دیکھنے والے لوگ اچھے سے بچی کو پہنچان لیں۔
اب آئیے دوسرے واقعے کی طرف جو کراچی میں پیش آیا، 13 جنوری کو شہر قائد کے علاقے اسٹیل ٹاؤن میں جعلی مقابلہ ہوا جس میں 4 لوگ مارے گئے ان لوگوں میں خوبرو نوجوان نقیب اللہ محسود بھی شامل تھا جو ایک قد کاٹ اور سفید رنگت کی وجہ سے کسی ماڈل سے کم نہیں دکھائی دے رہا تھا۔
اس مبینہ جعلی مقابلے کی ہلاکت سامنے آنے کے بعد لوگوں نے محسود قبیلے کے نوجوان کے لیے آواز حق بلند کی اور انصاف کا مطالبہ کیا، سب نے زینب کی طرح جسٹس فار نقیب پر کام کیا اور وہ اس واقعے کو بھی مین اسٹریم میڈیا تک لانے میں کامیاب ہوگئے۔
دونوں واقعات میں بے گناہ افراد قتل کیے گئے فرق صرف اتنا ہے کہ ایک کو سرکاری شخص نے جبکہ دوسری کو ایک خبیث نے زیادتی کے بعد قتل کیا، دونوں ہی افراد واپس نہیں آسکتے، زینب کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ جعلی مقابلے میں ملوث ایس ایس پی ملیر اور اُن کی پوری ٹیم کو فارغ کردیا گیا اسی طرح پولیس گردی کا واقعہ ڈیفنس میں پیش آیا جہاں انتظار نامی نوجوان پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی بآلاخر اُس کے قتل کی تحقیقات میں بھی پیشرفت سامنے آئی۔
اب آئیے تصویر کے دوسرے رخ کی طرف سب سے پہلے قصور کی ہی اگر بات کرلی جائے تو زینب کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ ڈی این اے رپورٹ کے مطابق ملزم عمران 8 بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرچکا بلکہ 12 نومبر کو کائنات بتول نامی بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد اُس کو مردہ سمجھ کر کچرے میں پھینکا وہ تاحال لاہور کے ڈی ایم ایچ اسپتال میں کومے کی حالت میں ہے مگر اُن میں سے کسی کے لیے شاید اس لیے آواز نہیں اٹھی کہ اُن کی خوبصورت تصاویر موجود نہیں تھیں یا پھر۔۔
اسی طرح 13 جنوری کو نقیب اللہ کے ساتھ مارے جانے والے تین مزید لوگوں کے لیے بھی کوئی آواز نہیں اٹھی بلکہ گزشتہ روز کئی دن سے لاپتہ شخص جس کی ملیر کینٹ سے لاش ملی اُس کے لیے بھی کسی نے علم انصاف بلند نہیں کیا شاید ایسا ہو کہ وہ خوبصورت نہ ہو چھوٹے بال ہوں، رنگ سفید دودھ کی طرح کا نہ ہو اور نہ ہی وہ ماڈل لگتا ہو۔
قصور کی ننھی زینب سے پہلے ایک سال کے اندر تقریبا 13 بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا جبکہ کراچی شہر میں بھی متعدد نوجوانوں جیسے سرفراز ، آفتاب احمد کو دوران حراست قتل کیا گیا مگر کسی کے لیے اس قدر آواز نہ اٹھی کیونکہ اب ہم مقتول کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر علم انصاف بلند کرنے لگے ہیں۔خدا ہمارے اس رویے اور دہرے معیار پر خیر کرے ۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں