سندھ بھرمیں بھی سیاسی جماعتیں خم ٹھونک کر میدان میں اُتر چکی ہیں، احتجاج ،جلسے ،عوامی رابطہ مہم، پریس کانفرنسز کے ذریعے جماعتوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں، عوام سے وعدوں،حکومت سے عوام کو حقوق دینے کے مطالبات اور حکومت سندھ کی عوام کے ساتھ ناانصافیوں کو اُجاگر کرنے کا سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے ،سیاسی اتحاد تشکیل پا رہے ہیں تو حکمران بھی ناانصافیوں اور مظلومیت کا رونا رورہے ہیں تا کہ متوقع انتخابات میں زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کی جاسکے۔
کراچی پریس کلب کے باہر چائنہ کٹنگ کے متاثرین کی بڑی تعداد کے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کنوینر ایم کیو ایم فاروق ستار نے کہا کہ عدلیہ کے حکم کی آڑ میں صوبائی حکومت کی لینڈ مافیا لوگوں کو بے گھر کرنا چاہتی ہے،کراچی کی زمینوں پر قبضہ نہیں ہونے دیں گے، یہ 20،000 انسانی خاندانوں کا مسئلہ ہے، بے گناہ لوگوں کے گھر گرے تو پھر حکومتوں کے گرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوجائے گا،لینڈ مافیا کے جرائم کی سزا عام شہریوں کو دی جا رہی ہے، غریبوں اور عام شہریوں کو مشکل وقت میں تنہا نہیں چھوڑیں گے ،حکومتِ سندھ اپنے لوگوں کو نواز رہی ہے ،زمینوں کی بندر بانٹ ہو رہی ہے اور سرکاری سرپرستی میں زمینوں پر قبضے کرائے جا رہے ہیں۔
مئیر کراچی وسیم اختر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا حکم سر آنکھوں پر، یہ دیکھناچاہئیے کہ کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہو رہی ہے۔ وسیم اختر نے پی ایس پی کے وسیم آفتاب و دیگر کا نام لئے بغیر کہا کہ حکومت کو بھی پتہ ہے کہ چائنا کٹنگ کے چیمپئین کون تھے اور آج کہاں ہیں،عدلیہ اور حکومت کو بھی یہ دیکھنا چاہئے۔
دوسری جانب عوامی رابطہ مہم کے بعد پاک سر زمین پارٹی نے لیاقت آباد فلائی اوور پر جلسہ کیا جس سے خطاب کرتے ہوئے چئیر مین مصطفی کمال نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے سپریم کورٹ میں جھوٹ بولا کہ کراچی کی آبادی 1 کروڑ 67 لاکھ ہے اور کراچی کو 840 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے کراچی کی پانی کی ضرورت 1200 سو ملین گیلن ہے اور یہ بھی ابھی کم ہے۔سی پیک میں سے کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کو ہٹا دیا گیا ہے،حلقوں کو تبدیل کیا جا رہا ہے،کراچی کو کچرا کنڈی بنا دیا گیا ہے ، مہاجر سیاست کے نام پر لوگوں کو لڑانا نہیں چاہتا،مئیر کراچی ایک بزرگ کو پنشن دینے سے پہلے 6 لاکھ روپے رشوت لیتا ہے ، بلوچستان کی طرح کراچی کے نوجوانوں کو بھی عام معافی دی جائے۔جبکہ پارٹی کے صدر انیس قائمخانی کا کہنا تھا کہ اب یہ شہر الطاف حسین کا نہیں رہا بلکہ کراچی مصطفی کمال کا ہے۔
سندھ میں بننے والے ایک اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا اجلاس پیر پگاڑا پیر صبغت اللہ راشدی کی صدارت میں منعقد ہوا جس کے بعد رہنماؤں نے میڈیا کو بریفنگ دی جس میں یہ بھی بتایا گیا کہ18 فروری کو مورو میں جلسہ کیا جائے گا ۔ پریس بریفنگ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ سید غوث علی شاہ نے کہا کہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے دو بڑے جلسوں کی گونج پورے پاکستان میں ہے ،یہ تاثر غلط ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا متبادل موجود نہیں ہے ۔سابق وزیر اعلی ارباب غلام رحیم نے کہا کہ اب کرپشن فری پاکستان چاہئیے، بڑی مچھلیوں کے خلاف کارروائی کی جائے،سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے کہا کہ ہم لٹیروں کو پیغام دے رہے ہیں کہ ان کے خلاف جنگ شروع ہو چکی ہے ، عدالت کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے پانی کے مسئلہ پر وزیر اعلی ٰکو بلایا، پیر صدر الدین شاہ راشدی نے کہا کہ مرحلہ وارہر ضلع میں کنونشن منعقد کئے جائیں گے تاکہ عوام کو متحرک کیا جاسکے ،ایاز لطیف پلیجو نے کہا کہ جن لوگوں نے چائنا کٹنگ کی اور نوکریاں بیچیں ان سے کوئی اتحاد نہیں ہوگا، بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں ملوث لوگوں کا ساتھ نہیں دے سکتے۔
بے نظیر بھٹو شہید کی برسی پر گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں خطاب کے دوران چئیر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عمران خان کی سیاست اشاروں پر چلتی ہے ، اس بات پر افسوس ہے کہ عدلیہ نے مجھے ،میرے ماں باپ اور نانا کو انصاف نہیں دیا،شہید بی بی کو عدالت کے چکر لگوانے والے عدالتوں کے باہر چیخ رہے ہیں، بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بلاول کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے صورتحال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے میری والدہ کو قتل کروایا۔
سابق صدر اور شریک چئیر مین پی پی پی آصف زرداری کا کہنا تھا کہ بی بی اور پی پی کے خلاف سازش اب بھی جاری ہے،آر اوز کے بنائے گئے لیڈرسازشی عناصر کے گندے انڈے ہیں ،کوئی کپتان تو کوئی لیڈر بن رہا ہے،پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کا اب ساتھ نہیں دیں گے۔5 ،جنوری کو میرپور خاص میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ نواز شریف نظریاتی نہیں نفسیاتی ہیں،شوگر مل مالکان ملیں نہیں چلا سکتے تو چابیاں ہمیں دے دیں ہم چلا لیں گے۔شہید ذوالفقار علی بھٹو کے 90 ویں یومِ پیدائش کے موقع پر آصف زرداری نے یہ پیغام بھی دیا کہ مذہبی انتہا پسندوں کو مذہب کے نام پر سیاسی اختیار پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔
جواب میں ضلع گھوٹکی کی تحصیل ڈہرکی میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت پر تنقید کرنے والوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنے دور کا ایک منصوبہ دکھا دیں ،مخالفین انتخابات میں مقابلہ کریں حقیقت کا پتہ لگ جائے گا،اقلیتوں کی سلامتی اور تحفظ کی ضمانت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس سے قبل مسلم لیگ (ن) سندھ کے جنرل سیکریٹری شاہ محمد شاہ نے پیر پگاڑا سے ملاقات کی جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ملاقات سندھ میں جی ڈی اے کے ساتھ مل کرپی پی کے خلاف ون ٹو ون اُمیدوار سامنے لانے کے لئے کی گئی ہے۔
آل پاکستان مسلم لیگ،جماعت اسلامی ،جے یو آئی(ف)، جے یو پی (ن)مہاجر قومی موومنٹ نے بھی اپنے اپنے جلسے کئے اور عوامی رابطہ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں، متحدہ مجلس عمل بھی بحال ہوچکی ہے جس کی اعلیٰ قیادت میں کچھ اختلافات موجود ہیں جسے حل کر کے ایم ایم اے بھی سندھ کے سیاسی میدان میں زور آزمائی کا آغاز کرے گی ۔
سندھ کی سیاست کو شہری اور دیہی تناظر میں دیکھا جائے تو اب تک شہری سطح پر ایم کیو ایم اور دیہی سطح پر پیپلز پارٹی چھائی رہی ہیں۔22، اگست ،2016ءکو بانی ایم کیو ایم کی متنازعہ تقریر کے بعد سے ایم کیو ایم کی گراؤنڈ سے غیر موجودگی کا فائدہ کراچی ، حیدرآباد،میرپور خاص وغیرہ میں پی ٹی آئی،پی پی،پی ایس پی ،جی ڈی اے اور مذہبی جماعتیں اُٹھانے کی بھر پور کوشش کر رہی ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں بھی پی پی کی خراب طرز حکمرانی کے سبب جو فطری خلا پیدا ہوا ہے کو پُر کرنے کے لئے پی ٹی آئی،جی ڈی اے ،مسلم لیگ (ن)اورمذہبی اتحادبھی سر گرمِ عمل ہیں ۔
ایم کیو ایم پاکستان‘ لندن سے لاتعلقی کے بعد سیاست میں اپنی کم ہوئی عوامی مقبولیت کو تیزی سے بحال کرنے کی کامیاب کاوشیں کر رہی ہے جو اب تک ایم کیوایم کے عوامی جلسوں اور عوامی مسائل پر احتجاج سے ملنے والی پذیرائی سمیت میڈیا پر آنے والے گیلپ سروے سے بھی ظاہر ہوا ہے۔ بہرحال اصل صورتحال توآنے والے انتخابات کے نتائج کے بعد عوام کے سامنے آئے گی۔
اس میں بھی دو رائے نہیں کہ تحریک انصاف اندرونِ سندھ بڑے جلسے کرچکی ہے اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے بھی دو بڑے جلسے کئے ہیں یہ تمام جلسے درحقیقت پیپلز پارٹی کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ادھر پی پی بھی دوبارہ سندھ کے اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔اساتذہ کی بحالی اور میرپور خاص کے جلسے سے قبل بند شوگر ملز کھلوانا اسی سلسلے کی دو کڑیاں ہیں ۔کاش پیپلز پارٹی یہ عمل اساتذہ اور کسانوں کے شدید احتجاج اور ان پر تشدد سے قبل کر لیتی تو اس کی یہ عوامی خدمت مشکوک نہ ٹہرتی۔
لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تحریر میں شامل تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کے لئے میدان میں تو موجود ہیں مگر ابھی تک کسی نے بھی اپنا منشور عوام کے سامنے پیش نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے سندھ اور اس کے عوام کو بدحالی میں پہنچانے والے مرض ” کوٹہ سسٹم“جو کہ 2013 ءمیں اپنی آئینی معیاد پوری کرچکا ہے اور اب بھی اس پر عمل جاری ہے کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے عملی قدم اُٹھایا ہے۔
سندھ کی تباہی کی جڑ وڈیرہ شاہی اور اُس کی تانا شاہی ہے۔ سندھ کے سیاسی منظر نامے پر سے دھند ابھی چھٹی نہیں ہے لیکن نظر آنے والے آثار سے اندازہ ہورہا ہے کہ بہت کچھ نیا دیکھنے کو مل سکتا ہے لہذا سندھ اور اس کے عوام سے محبت کا دم بھرنے والے سیاستدانوں و دیگر اربابِ اختیار کو چاہئیے کہ سندھ اور اس کے مظلوم عوام کے مفاد میں زیادہ مخلصانہ عملی توجہ سندھ کو لگائے گئے مرض کوٹہ سسٹم کو جڑ سے ختم کرنے پر دیں ورنہ مرض کا وقتی علاج ہوگا لیکن جڑ سے خاتمہ ممکن نہیں ہوسکے گا۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں
عمران نور کا تعلق حیدرآباد سے ہے‘ انہوں نے سیاسیات میں ایم اے کیا ہے‘ گزشتہ کئی برس سے سیاسی و سماجی نوعیت کے معاملات پر ان کی تحریریں مختلف اخبارات میں شائع ہورہی ہیں۔