The news is by your side.

یارانِ جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت

سبزے اور پھولوں سے لہلہاتی حسین و جمیل وادی ،پہاڑوں کی خوبصورتی میں لپٹی پرکشش جھیلیں، موسموں کے دلکش نظارے اور پھلوں سی مزید نعمتیں اس وادی کو جنت کہنے پر مجبور کرتی ہیں۔افسوس کے اس حسین و جمیل وادی میں رہنے والے خوبصورت اور بہادر باشندے برسوں سے قید کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔یہ نڈر و غیور قوم یہ سوال ضرور دل میں رکھتے ہوں گے کہ’ آخر مسئلہ کشمیر کب حل ہوگا‘؟۔ پھر خود ہی اس کے جواب میں جذبہ آزادی سے سرشار یہ لوگ کہتے ہوں گے کہ’ آخر کب تک‘؟۔ اللہ کے کرم سے ایک نہ ایک دن تو ہمیں آزادی ضرور نصیب ہوگی۔انشاء اللہ!۔

کشمیری برسوں سے آزادی کے حصول کے لئے لڑ رہے ہیں۔مگر ان کے ولولے میں کبھی کمی نہیں آئی۔بہت ثابت قدم قوم ہیں۔کشمیری ایسے پھولوں کی مانند ہیں، جنہیں ان کے اپنے ہی آنگن میں مسل اور مسخ کر دیا جاتا ہے۔مگر وہ پھر اگلی صبح نئی امید اور مہک کے ساتھ پنپتے ہیں۔برسوں سے قابض بھارتی فوج نے ظلم و ستم کی ایسی داستانیں قائم کیں ہیں ،جنہیں بیاں کرنا بھی مشکل ہے۔انسانیت کا درد رکھنے والا کشمیریوں پر ہوتے ظلم کی داستان سن کر تھر تھر کانپے اور بھارت کے لئے بددعا کرے۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ امریکہ کی گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق 45فیصد کشمیری ڈپریشن جیسی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں۔

Kashmir valley
بھارتی فوج کے عوام پر مظالم

میرے نزدیک تو کشمیری عوام جس ماحول میں رہنے پر مجبور ہیں ان میں سے 90 فیصد ڈپریشن جیسے ذہنی مسائل کا شکار ہوں گے۔جب آپ اسی خوف میں ہوں کہ آپ کے آنگن کے پھول اور کلیاں مسل دیئے جائیں گے ۔ ہنستا بستا گھرانہ اجڑ جائے گا۔آپ آنکھوں کی بنائی سے محروم ہو جائیں گے۔ اپنوں کو بھارتی ظلم کا نشانہ بنتے دیکھ کر کچھ نہ کر پائیں گے۔پریشانیوں کا دھڑکا تو لگا ہی رہے گا۔تو کیسے نفسیاتی بیماریاں کم ہوں گی۔ ایک پورا معاشرہ ہمہ وقت اس خوف میں مبتلا ہے کہ آخر کب تک اس کی نسلیں درندگی کا نشانہ بنتی رہیں گی؟۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اقوامِ عالم ا س پر خاموش ہے۔

بھارت کشمیر کو ہر حال میں ہضم کرنا چاہتا ہے۔پاکستان اپنے مسائل میں ہی الجھا رہتا ہے۔مسلم دنیا خو دالجھی ہوئی ہے۔چین جیسا فریق ویسے ہی خاموش تماشائی ہے۔اقوام متحدہ‘ انسانیت کی نام نہاد تنظیمیں اور دنیا کے پاس تو ویسے کشمیر کے لئے وقت نہیں ۔مسئلہ کشمیر بھی دنیا کے ایسے حل طلب مسئلوں میں سے ہے۔ جسے شاید دنیا کی طاقتیں حل کرنا ہی نہیں چاہتیں اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش کرتی ہیں۔بلکہ اسے مزید الجھایا جاتا ہے۔

کشمیر ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے۔ جس نے لاکھوں کشمیریوں کی جانوں کا نذرانہ لیا ہے، مگر اب بھی جوں کا توں ہے۔یہ مسئلہ انیسویں صدی کا ہے۔یہ تاثر بھی غلط دیا جاتا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے تحریکیں قیام ِپاکستان کے بعد شروع ہوئیں۔تاریخ گواہ ہے کہ 1832میں جب کشمیری مسلمانوں کو بھی باغی قرار دے کر مسلمانوں کی کھالیں اتاری گئیں اور انہیں سرعام لٹکایا گیا تو منظم طریقے سے آزادی کی تحریکیں شروع ہوگئیں۔مارچ 1846میں انگریزوں نے کشمیر کو 75لاکھ کے عوض سکھ راجہ کو فروخت کیا تو آزادی کی باقاعدہ تحریکیں شروع ہوگئیں۔

کشمیریوں کی تحریکوں کو کچلنے کے لئے مسلمانوں کی شہادتیں معمول بننے لگیں۔ پھر1931میں قرآن پاک کی توہین کے خلاف تحریک چلائی گئی تو اسے کچلنے کے لئے بہت سے مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔جس سے مسلمان آزادی کے لئے مزید متحرک ہوگئے۔اگست1931میں مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی قیادت میں یوم کشمیربھی منایا گیا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 1946میں کشمیر میں مسلم کانفرنس میں شرکت کی اور کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔

Kashmir valley
اپنی رعایا کو فروخت کرنے والا راجہ ہری سنگھ ڈوگرا

جولائی1947کو مسلم کانفرنس میں’ قرار داد الحاق پاکستان‘ منظور ہوئی۔مگر بھارت کی چالاکیوں سے تنگ آکر مسلح جدوجہد کا آغاز کیا گیا۔راشٹر سوائم سیونک سنگھ نامی ہندو انتہا پسند تنظیم نے راجہ کو قائل کر کے جھوٹا الحاق کروایا۔ایسے میں مسلمان مجاہدین نے جدوجہد جاری رکھی اور 15ماہ کی جدوجہد کے بعد کشمیر کا کچھ علاقہ آزاد کروا لیا۔ جسے اب آزاد کشمیر کہتے ہیں۔بھارتی وزیراعظم نہرو کو جب کشمیر ہاتھ سے جاتا نظر آنے لگا تو جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ سے مدد کے لئے بھاگا۔اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا حکم دے دیا اور مسئلہ کشمیر کو رائے شماری کے زریعے حل کروانے کی قرار داد منظور کی۔

بھارت نے رائے شماری کروانے کا وعدہ کیا ۔مگر بھارت آج تک اپنے اس وعدے سے مکر رہا ہے۔ہوا کچھ یوں کے بھارت نے حیلے بہانے شروع کردیے۔ رائے شماری کی بجائے معصوم و نہتے کشمیریوں کو شہید کیا جانے لگا۔آزادی کشمیر کی تحریک کچلنے کے لئے 6لاکھ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر پر قابض ہوگئی اور ظلم و تشدد کرنے لگی۔مسلمانوں کی نسل کشی کی پوری کوشش کی گئی۔یہاں تک کے ہندو بستیاں آباد کی جانے لگیں۔صوبے کا درجہ دیا گیا اور نام نہاد حکومتیں بننے لگیں۔پاکستان نے کشمیر کے لئے دنیا بھر میں اپنی آواز اٹھائی۔مگر مکاربھارت نے پاکستان کو پہلے دو لخط کر کے کمزور کیا اور اب بلوچستان میں اپنی کاروائیاں کر رہا ہے۔بھارت نے پاکستان کا پانی ہڑپ کرنے کے لئے کشمیر پر قبضہ کیا ۔پھر کشمیر سے نظر ہٹانے کے لئے پاکستان کو بیک وقت متعدد محاذوں پر الجھا رہا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ باقاعدہ راکی ٹریننگ کے ساتھ اسرائیلی اسلحے سے لیس کشمیر کے علاقوں میں فیڈ کی جا رہی ہے، تا کہ ظلم و بربریت کے ذریعے مسلمانوں کی نسل کشی کی جائے۔ایسے میں نام نہاد انسانیت پسند تنظمیں کچھ نہیں کریں گی بلکہ مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق ہی بھارت کوباز رکھنے کے لئے کچھ کر سکتا ہے۔

Kashmir valley
بھارتی فوج کی جھنجھلاہٹ‘ کشمیری شہری کو انسانی ڈھال بنالیا

یہ تو کوئی نہیں جانتا کہ مسئلہ کشمیر کب حل ہوگا۔مگر یہ ایک بڑا سوال ضرور بن چکا ہے کہ، یہ سنگین ترین مسئلہ کب حل ہوگا؟۔کب برصغیر کے لوگ بالخصوص مسلمان سکون کا سانس لیں گے؟۔دنیا کی طاقتوں سے کسی قسم کی کوئی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی ۔کیونکہ یہ مسئلہ انگیزوں کا اپنا تخلیق کردہ ہے۔انگریز کبھی بھی نہیں چاہتے کے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔بلکہ برصغیر میں خانہ جنگی کے لئے وہ مزید اس مسئلے کو الجھائیں گے۔تاکہ اس خطے کے مسلمان مستحکم نہ ہو سکیں۔اس مسئلے کے پیچھے ضرور بہت سے بین الاقوامی سطح کے مفاد ات جڑے ہوئے ہوں گے۔جو وقت عیاں کرتا جائے گا۔

وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔یہ ضرور بدلتا ہے اور اللہ نے چاہا تو ایک دن کشمیریوں کی جدوجہد ضرور کامیاب ہوگی۔وقت کشمیر کے لئے سازگار ہوگا۔کشمیر کی آزادی بھارت کی ناکامی ہوگی ۔بھارت اپنے ہی کھودے گڑھوں میں گر جائے گا۔جو کسی کو زبردستی محکوم بنانے کی کوشش کرتا ہے ،وہ خود تباہ ہوجاتا ہے۔کشمیر کی آزادی بھارت میں موجود بہت سی مظلوم اقلیتوں کو بھی جذبہ جدوجہد فراہم کرے گی۔یہ اقلیتیں بھارت سے آزادی حاصل کر کے آزاد حیثیت اختیار کریں گی۔پھر بھارت بکھرنے کی راہ پر گامزن ہوگا۔مگر وقت سنھلنے کا موقع نہیں دیتا۔یہ بکھرتا چلا جائے گا یہاں تک کہ مٹ جائے گا۔یہ وہ وقت ہوگا جب اسلام اس خطے میں مضبوط ہو گا اور مزید پھیلے گا۔کشمیری اسے آغاز فراہم کریں گے۔اللہ نے جب چاہا تب ہی کشمیر آزاد ہوگا۔

یارانِ جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے، نہ ملے گی


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ بلاگ پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں