The news is by your side.

نچلی ذات سے ایوانِ بالا تک

ماروی کے دیس تھر میں جب قحط سالی ہوتی ہے تو تھر کے چرواہے اور محنت کش کہتے ہیں کہ چلیں سندھ چلتے ہیں۔ان غریب تھری باشندوں کے لیے سندھ کا تصور ہی خوش حالی اور سر سبز خطے کا تصور ہے۔ریگزاروں کے یہ باشندے نہر والے ععلاقوں کو سندھ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔نہری علاقوں میں کاشت کاری، فصل کی کٹائی اور کپاس کی پھٹی کی چنائی کا کام یہ تھری محنت کش مرد اور خواتین مل کر کرتے ہیں۔

روپلو کولہی نے ’تھر‘ کے پہاڑوں پر انگریز سامراج سے لڑ کر جان کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اسی روپلو کا قریبی عزیز جگنو کولہی بھی ان ہی کاشت کاروں میں سے تھا جو ننگر پارکر سے نقل مکانی کرکے عمرکوٹ کے علاقے کنری اور دیگر علاقوں میں کاشت کاری کرتا تھا۔جگنو کولہی ایک کسان تھا اور مختلف زمینداروں کے پاس کاشت کاری کرتے کرتے قید ہوگیا۔سندھ کے ایک جابر وڈیرے نے غریب کسانوں کے کئی خاندانوں کو تین برس تک قید رکھ کر اپنی زمینیں کاشت کروائی۔جگنو کولہی کے بچے ویرجی اور کرشنا بھی اپنے والدین کے ساتھ قید رہے۔

کرشنا کو تو تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا ‘ سو نہری علاقے میں موقع ملتے ہی اسکول چلی گئی۔ غریب جگنو کے بچے پڑھنے لگے اور تب سے جگنو اور اس کی بیوی نے خواب بننا شروع کیے۔ ہاں مگر شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والے جگنو نے ایسا خواب تو کبھی غلطی سے بھی نہیں دیکھا ہوگا کہ پارلیمنٹ اسمبلی سیاست اور حکومت سے بھی غریبوں کو کوئی تعلق ہوتا ہے۔یہ خواب جگنو کے سارے خوابوں سے بہت بڑا خواب ہے کہ غریب جگنو کی بیٹی پاکستان کے ایوان بالا میں پہنچ جائے۔

جگنو کولہی کیا پاکستان کی سیاست سے اس طرح کی امید تو میرے جیسا پڑھا لکھا بندہ بھی نہیں کر سکتا۔لیکن ا ب یہ نہ خواب رہا نہ تصور بلکہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے غریب کسان کی بیٹی کرشنا کماری کے ہاتھ میں سینٹ کا ٹکٹ تھماکر اس کی قسمت سے قحط سالی کو ختم کردیا اور کرشنا اب اسلام آباد کے ایوانوں تک پہنچنے کے قریب تر ہے۔پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق سینیٹ کی خواتین امیدواروں میں کرشنا کا نام اول نمبر پر ہے ‘ لہذا کرشنا آوے ہی آوے کے نعرے یقینی سنائی دے رہے ہیں۔

انتالیس سالہ کرشنا کی چھوٹی عمر میں شادی ہوگئی لیکن خاوند کی مدد سے انہوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور پانچ برس قبل کرشنا نے سندھ یونیورسٹی سے سماجیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرلی۔کرشنا کی پہچان تھر کی پسماندہ خواتین کے لیے ان کی سماجی خدمات ہیں۔ وہ تھر میں اپنی روایتی ڈھاٹکی اور مارواڑی زبان میں تھری عورتوں کو سمجھایا کرتی ہے کہ آگے بڑھو۔ ساری عمر غلامی میں مت رہو ‘ بچیوں کو اسکول بھیجو۔ بزرگ مائیں کرشنا کو گلے لگا کر گال تو چوم لیتی ہیں لیکن انہیں کرشنا کی بات اپنی زبان میں بھی پیچیدہ لگتی ہے۔پھر کرشنا ان بزرگ ماؤں کو سمجھاتی ہیں کہ’ کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ہیکلی‘( نیم کے درخت کے نیچے اکیلی کھڑی ہوں) کا مطلب ہے کہ آپ سب اکیلی نہیں ہیں یہ کرشنا آپ سب کے ساتھ ہے۔

کرشنا نے وڈیروں کی نجی جیلوں کے خلاف اپنے بھائی ویرجی کے ساتھ مل کر آواز بلند کی اور اس جرم میں ویر جی کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی۔ سنہ 1857 میں میں انگریز سامراج کے خلاف ننگر پارکر کے پہاڑوں میں لڑنے والے بہادر جنگجو روپلو کولہی کے خاندان کو ڈیڑھ صدی کے بعد پیپلز پارٹی کے جواں سال چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے اعزاز سے نوازا۔کرشنا پہلی کولہی عورت ہوگی جو اتنے بڑے عہدے پر پہنچ سکیں گی اور پاکستانی سینٹ میں ہندو برادری کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون کا اعزاز بھی انہی کو حاصل ہوگا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں