ویسے تو ماں کی زبان صرف محبت ہوتی ہے جو زبانوں کی شناس سے بھی پہلے ہماری روح میں موجود رہتی ہے۔ جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو صرف ماں کی پکار کو ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ کانوں میں اذان کی آواز سے قبل ہی ہمارے کان ماں کی آواز سے مانوس ہوتے ہیں۔ لیکن جوں ہی ہم شعور کی دہلیز کو چھوتے ہیں، تھوڑا سا چلنے پھرنے لگتے ہیں تو ماں ہمیں چلنے پھرنے کے ساتھ توتلے الفاظ میں اپنی زبان سکھانے کی تربیت دینا شروع کرتی ہیں۔ پھر جب ہم الف اللہ سے میم ماں تک پہنچتے ہیں تو ہم شعور کی زبان بولنا شروع کرتے ہیں جو ہماری مادری زبان کہلاتی ہے۔
میرے شعور نے مجھے سکھایا ہے کہ میری دھرتی کی زبان سندھی ہے جو میری مادری زبان ہے، قانونی زبان ہے یا سرکاری زبان ہے۔ ہاں مگر بحیثیت سندھی قوم کے یہ ہی میری قومی زبان بھی ہے۔ جب ہوش سنبھالا تو گھر میں بلوچی زبان سنی، بلوچی بولنے لگے، پڑوس میں سندھی، پھر اسکول میں سندھی بڑے بزرگوں سے یہ ہی سنا کہ ہم بلوچ ہیں۔ عقلی دور میں داخل ہوئے تو سنا سندھ میں سینکڑوں برس قبل آباؤ اجداد بلوچستان سے داخل ہوئے تھے۔ تاریخ کو پڑھنے اور سمجھنے کے لائق ہوئے تو پتہ چلا کہ قوموں کی تہذیب، تمدن، تاریخ، رسمیں، ثقافتیں اور پھر دھرتی اپنے اندر دیگر تہذیبوں، ثقافتوں اور زبانوں کو جذب کر دیتی ہے۔
زمین لاکھوں کروڑوں برسوں کی تاریخ رکھتی ہے۔ زمین پر آباد لوگوں نے الگ الگ ادوار میں اپنے لیے شناخت کے راستے تلاش کیے۔ طاقت ور قبائل نے طاقت کے زور پر کمزور قبائل کو فتح کرکے مفتوح بننے کی کوشش کی۔ فاتح اور مفتوح کی جنگ نے انسانوں کے لیے تباہی کا ساز و سامان تیار کیا۔ انسان نے جب سے کھانا، پینا، پہننا شروع کیا تب سے طاقت کا نشہ ایک حاوی عنصر بنتا گیا۔ غلامی کا دور، جس میں طویل عرصے تک طاقت ور کمزوروں کو غلام بناتے تھے۔ پھر غلام بھی معاشیات کے دائرے میں لائے گئے، غلاموں کا کاروبار ہوتا گیا۔ آقاؤں کی تاریخ ہی مؤرخین کو یاد رہی، آقاؤں کے کارنامے ہی تاریخ کی زینت بنتے رہے، بادشاہوں کے دربار ذرا جدت لے آئے، بادشاہوں نے کنیزوں اور غلاموں کو قانونی شکل دی۔
درباری مؤرخین نے تاریخ، تہذیب، زباں اور ثقافت کو بھی بادشاہوں کی ثنا خوانی کا راستہ بنا کر مراعات کی دنیا آباد کر لی۔ لیکن سچ بولنے والے ہر دور میں بولتے رہے۔ غلاموں نے بھی بغاوتیں کیں تو سچ کی طاقت نے انہیں جینا سکھایا اور بغاوت کے راستے نے موت سے نوازا تو تاریخ نے اپنی گود میں جگہ دے دی۔ سچ اور بغاوت تب سے ہے جب سے انسان ہے۔ اسی طرح زبانوں، تہذیبوں اور ثقافتوں کی تاریخ کے ساتھ بھی درباری تاریخ داں، جبر کرتے رہے۔ موہن جو دڑو اگر پانچ ہزار برس قبل سندھ کی تہذیب کی علامت ہے تو وہ زبان کون سی تھی جو پانچ ہزار سال قبل کے سندھی بولتے تھے۔ جو بھی تھی لیکن وہ آج والی سندھی نہیں۔ آج تو سندھ میں شاہ لطیف کے زمانے کی سندھی بھی بولی نہیں جاتی۔
شاہ لطیف نے تو لکھا تھا کہ، ’جی تو فارسی پڑھیو تاں گولو توں غلام‘، یعنی اگر تم نے فارسی پڑھی تو تم غلام کہلاؤ گے۔ لیکن قدیم سندھ کے مدارس میں عربی کے ساتھ فارسی زبان میں تعلیم دی جاتی تھی۔ شاہ لطیف نے 400 برس قبل اس تضاد کو بیان کیا اور مقامی سندھیوں کو مدارس میں فارسی پڑھنے سے منع کیا۔ مؤرخین نے مخدوم بلاول، صوفی شاہ عنایت، سچل سرمست، محمد بن قاسم سے لے کر ارغونوں، ترخانوں، افغانوں، مغلوں اور انگریزوں تک تاریخ میں بہت سارے جھوٹ ٹھونس ڈالے۔ تاریخ کے منہ میں ٹھنسے ہوئے جھوٹ ہی آج کی تاریخ ہیں۔
صوفی شاہ عنایت ہوں یا شاہ عبدالطیف بھٹائی، قلندر شہباز ہوں یا سچل سرمست، سب ہی باہر سے ہجرت کر کے آئے ہوئے ہیں۔ لیکن جب وہ سندھ آئے تو سندھ کے ہو کر رہ گئے۔ سندھی بن گئے، سندھ کی محبت اور سندھ دھرتی کی انسیت نے سندھ میں آنے والوں کو اپنے اندر سمیٹ لیا۔ سندھ میں کچھ طاقت ور قوتیں حملہ آور ہوئیں کیونکہ سندھ خوشحال خطہ تھا۔ سندھ میں آنے والے بلوچ سندھ میں روزگار کی خاطر داخل ہوئے، بعد میں سندھ میں آباد بلوچوں نے سندھ کے دفاع میں باہر سے حملہ کرنے والوں کے خلاف کئی جنگوں میں حصہ لیا۔
بلوچوں نے سندھ میں اپنی زباں، لباس، روایات اور ثقافتوں کو زندہ ضرور رکھا لیکن آہستہ آہستہ وہ سندھ کی سرزمین کا حصہ بنتے گئے۔ آج سندھ میں جو بلوچی بولی جاتی ہے وہ بلوچستان کی بلوچی سے بہت مختلف ہے۔ سندھ کی سرائیکی پنجاب کی سرائیکی سے الگ ہے۔ یہ دونوں زبانیں سندھ میں بہت زیادہ بولی جاتی ہیں لیکن مادری زبان پھر بھی سندھی کو ہی تصور کرتے ہیں۔
میری ماں کی سندھی میں آج بھی مذکر مؤنث کا فرق نہیں۔ وہ آج بھی بلوچی لباس پہنتی ہیں، لیکن پھر بھی میں سندھی ہونے پر فخر کرتا ہوں، اس لیے کہ میں حملہ آور نہیں، میرے آباؤ اجداد کے تصور میں سندھ میں آباد ہونے کی نیت تھی، سندھ پر قبضہ کرنا نہیں تھی۔ بھارت سے آنے والے مسلمان بھائیوں کے لیے اردو میڈیم اسکول بنائے گئے تھے لیکن سندھ میں آباد بلوچوں نے سندھی زبان میں ہی تعلیم کو ترجیح دی۔ کیونکہ وہ سندھی زبان کو ہی مادری زبان تصور کرتے تھے اور سندھ کو ماں مانتے تھے۔
ہمارے ملک میں مادری زبانوں کی حالت بھی اچھی نہیں۔ عالمی رپورٹ کے مطابق 36 فیصد مادری زبانوں کو خطرہ ہے۔ کمپیوٹر اور گلوبلائزیشن کے باوجود مادری زبانوں کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح مادری زبانوں کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آبادی کے اعتبار سے ملک میں 48 فیصد آبادی پنجابی، 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، 8 فیصد اردو، 8 فیصد پشتو، 3 فیصد بلوچی، 2 فیصد ہندکو، اور 1 فیصد براہوی بولی جاتی ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ یہ رپورٹ کتنی مصدقہ ہے لیکن ہمارے ملک میں زیادہ تر لوگ اردو بول سکتے ہیں، لیکن مادری زبانوں میں پنجابی اور پھر سندھی آگے ہیں۔ اردو کے بعد ہر میڈیم میں سندھی ہے۔ آج گوگل پر اور موبائل ایپس پر آنے والی زبان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قانونی حیثیت دینے سے انکار ہو رہا ہے۔ سرکار بھی عجیب ہے، سی پیک کے چکر میں تعلیم بالغان کی طرح چینی زبان سیکھنے کی ترغیب تو دی جا رہی ہے لیکن سندھ کے شہروں سے سندھی زبان کی بے دخلی پر کوئی شنوائی نہیں۔
سندھ اسمبلی کے قوانین بھی عدالتوں میں لٹکتے مقدمات کی طرح ہیں جو برسوں سے انصاف کا انتظار کرتے ہوئے سو گئے۔ نجی اسکول بھی سرکار کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ شہر کے سندھی میڈیم سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کے تو آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔ قانون کی زبان نہ جانے کون سی ہوتی ہے لیکن ماں کی زبان روح میں پیوست ہوتی ہے جو دنیا کے ہر قانون سے بالاتر ہے۔