میر مرتضیٰ بھٹو کی جلاوطنی کے خاتمےکا اعلان دی نیوز اخبار کے اس انٹرویو میں ہو جو مشہور صحافی کامران خان نے پاکستان سے جا کر دمشق میں کیا تھااور مرتضیٰ بھٹو کی واپسی بے نظیر بھٹو کی دوسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد ہوئی۔مرتضی ٰبھٹو کی واپسی کے دن سے لے کر شہادت کے دن تک تمام تر واقعات میں نے قریب سے دیکھے اور رپورٹ کیے ہیں۔ میں اس زمانے میں سندھی زبان کے سب سے بڑے اخبار کاوش کا کراچی میں جونیئر رپورٹر تھا۔ کاوش رپورٹننگ کے اعتبار سے میرا پہلا اخبار تھا۔ اس سے قبل ڈیڑھ برس میں اخبارات کے نیوز ڈیسک اور ادارتی صفحے پر کام کرتا تھا۔
مرتضی ٰبھٹو کی آمد کے دن میں کراچی ایئر پورٹ پر موجود تھا اور میں نے بیگم نصرت بھٹو کو پولیس کے سپاہیوں سے لڑتے دیکھا۔مرتضیٰ بھٹو کی گرفتاری کے بعد میں رات کو ستر کلفٹن کے آنگن پر اس پریس کانفرنس میں بھی موجود تھا جس میں بیگم نصرت بھٹو نے بے نظیر بھٹو کی سرکار کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے تھے، اس کے بعد انسداد ِدہشت گردی کی عدالت کے مقدمات ہوں یا جیل کی پیشیاں ‘ وہ تمام دن بھی دیکھے۔پھر جس دن میر مرتضی بھٹو جیل سے رہا ہو کر ستر کلفٹن پہنچے تھے تو بہت بڑا میلہ تھا۔ سخت گرمی میں مرتضی ٰبھٹو کی قمیض مکمل طور پر بھیگی ہوئی تھی۔ قطار لگا کر ملنے والوں میں میں بھی شامل تھا۔
سندھ اسمبلی میں حلف برداری ہو یا پھر لیاری کا دورہ ہو، سب کچھ ذرا ذرا یاد ہے۔ پوری کتاب کا موضوع ہے۔سبک مجید، اور علی احمد سومرو سے لے کر مخدوم خلیق الزماں اور پرویز شاہ تک طویل کہانیاں ہیں۔اس دوران ایک بار ہفت روزہ آرسی کے لئے اور تین سے چار بار روزنامہ کاوش کے لئے میر مرتضیٰ سے تفصیلی انٹرویوز کیے۔مرتضی ٰبھٹو کی گرجدار اور رعب دار شخصیت بہت ہی متاثر کن تھی۔ جب بھی ملے ان کو اپنی بہن بے نظیر بھٹو،ان کے شوہر آصف زرداری اور کچھ وزراء کے خلاف بات کرتے دیکھا۔ ہم سے ہی ایک انٹرویو میں انہوں نے لفظ حاکو ڈاکو استعمال کیا تھا۔ ۱۸ ستمبر ۱۹۵۴ کو پیدا ہونے والے مرتضیٰ بھٹو نے۱۹۷۹ میں اپنے والد کی پھانسی کے بعد نہ صرف جلاوطی اختیار کی بلکہ الذوالفقار جیسی مسلح جدوجہد کرنے والی تنظیم بنائی۔ پی آئی اے کے جہاز کی ہائی جیکنگ اور پاکستان کی فوج کے افسر طارق رحیم کے قتل کے الزام بھی لگے۔۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کی شہادت تب ہوئی جب شہادت سے کچھ ہی دن قبل وزیر اعظم ہاؤس میں مرتضی بھٹو کی اپنی وزیر اعظم بہن بے نظیر بھٹو سے ملاقات ہوئی۔ جس میں وزیر اعظم کے شوہر آصف علی زرداری بھی موجود تھے۔
اس ملاقات سے قبل ہی بے نظیر بھٹو کی سرکار اندرونی بحرانوں کا شکار تھی۔ملک کے صدر فاروق لغاری اپنی ہی پارٹی کی چیئرپرسن کے خلاف ہو چکے تھے اور اس سب کے پس پردہ میاں نواز شریف تھے۔ مرتضی بھٹو کی بیس ستمبر کی شام ستر کلفٹن سے سرجانی ٹاؤن قافلہ روانہ ہوا جہاں پر جلسہ سے خطاب کے بعد وہ ہی قافلہ واپس ہوا تو ستر کلفٹن کے قریب ان کا گولیوں سے استقبال ہوا۔ درختوں کے پیچھے چھپے ہوئے دہشت گرد جو بھی تھے لیکن فرنٹ پر پولیس تھی۔فائرنگ کے بعد شاہراہ پر زخمی پڑے تھے۔مرتضی ٰکے سات ساتھی اور وہ خود زخمی حالت میں تڑپ رہے تھے۔ اخبارات کے فوٹو گرافرز پہنچے تو کافی لوگ زندہ تھے۔لیکن زخمیوں کو چالیس منٹ تک نہیں اٹھایا گیا،زخموں سے بہت خون بہ چکا تھا۔ مرتضی ٰکو پہلے مڈ ایسٹ اسپتال اور پھر جناح اسپتال پہنچایا گیا۔ان کی آخری سانسیں چل رہی تھیں جب جناح اسپتال پہنچایا گیا۔
مرتضیٰ بھٹو کا قریبی ساتھی سبک مجید لاس اینجلس امریکہ سے فون کرالزام عائد کررہا تھا کہ میر کے قتل میں آصف زرداری ملوث ہیں۔رات کو بارہ بجے میر مرتضی ٰکی موت کا اعلان کیا گیا۔رات گئے تک اخبار کی کاپی رکی رہی ہم خبریں اپنے ہیڈ آفس حیدرآباد لکھواتے رہے۔ یہ بیس ستمبر ۱۹۹۶ کی رات تھی۔جب ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے فرزند کو اس ستر کلفٹن کے قریب مارا گیا جہاں پاکستان کی قسمت کے سیاسی فیصلے ہوا کرتے تھے۔
اسی رات کی تاریکی میں ملک کی خاتون وزیر اعظم ،دختر مشرق کو ننگے پاؤں روتے ہوئے جناح اسپتال جاتے دیکھا گیا۔ سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔شہر میں امن کے خواب دیکھنے والی وزیر اعظم کا بھائی اس شہر میں سر راہ گولیوں کا نشانہ بن کر چھلنی ہو چکے تھے۔مرتضیٰ بھٹو کے حوالے سے بہت ساری یادیں اور باتیں ہیں جو پھر کبھی۔