The news is by your side.

جب وزیراعظم بے نظیر بھٹو اچانک ایدھی سینٹر پہنچیں

یہ نوے کی دہائی کے بھیانک دنوں کی بات ہے جب ہر دو چار منٹ کے بعد کراچی کے کسی علاقے سے کسی انسان کی لاش ملنے کی اطلا عات ملتی تھیں،کہیں یکے بعد دیگرے واقعات میں پانچ سے دس لاشیں پڑی ہوئی ہوتی تھیں اور کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کی وجہ سے مواصلات کے سارے آلات بھی غیر مؤثر کردیئے جاتے تھے۔ کئی کئی گھنٹوں تک لاشوں کی شناخت نہیں ہو پاتی تھی اس لیے لاشوں کی جگہ صرف ایدھی سرد خانے میں ہی ہوتی تھی لیکن لاشوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے سرد خانے میں جگہ کم پڑ جاتی تھی۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو بحیثیت وزیر اعظم پاکستان جب کراچی کے دورے پر تھیں اور اس موقع پر انہیں معروف سماجی رہنما عبدالستار ایدھی سے ملاقات کا خیال آیاتو اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ،چیف سیکریٹری اور دیگر اعلیٰ حکام کو حکم دیا گیا کہ پرائم منسٹر بے نظیر بھٹو بلاول ہاﺅس سے ایدھی سینٹر روانہ ہوں گی۔ شہر کے حالات کی نوعیت گمبھیر تھی ،میٹھادر کی تنگ گلیوں میں وزیر اعظم کے جانے کا حکم سن کر انتظامیہ پریشانی کے عالم میں تھی کہ کسی طرح وزیر اعظم کے میٹھا در جانے کے بجائے کسی دوسرے مقام پر ایدھی صاحب کو ملاقات کے لیے لایا جائے لیکن وزیر اعظم بضد تھیں کہ انہیں خود ایدھی سینٹر جانا ہے۔ سیکیورٹی کے حوالے سے پولیس اور رینجرز نے کھارا در اور میٹھا در کا پورا علاقہ گھیر رکھا تھا لیکن اس وقت بھی عبدالستار ایدھی دنیا سے بے خبر اپنے فلاحی کاموں میں متحرک تھے۔

benazir 1

ان ہی حالات میں وزیر اعظم کا قافلہ ایدھی سینٹر پہنچتا ہے اور جب بے نظیر بھٹو ایدھی سینٹر کے چھوٹے سے دروازے سے داخل ہوتی ہیں تو ایدھی صاحب اور ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی اٹھ کر وزیر اعظم کا استقبال کرتے ہیں اور بے نظیر بھٹو ان کے ساتھ ہی بیٹھ جاتی ہیں۔ گفتگو کے دوران وزیر اعظم نے کہا کہ ایدھی صاحب ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے تو ایک لمحے کے لیے عبدالستار ایدھی بھی چونک گئے اور کہا کہ میں فقیر آدمی آپ بادشاہوں کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ بی بی نے اسی لمحے کہا: مولانا صاحب ہم کراچی کا انتظام آپ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ آپ کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی)کو سنبھالیں اسے چلائیں جیسے اپنی ایدھی فاؤنڈیشن کو چلا رہے ہیں جس پر ایدھی صاحب نے مسکراتے ہوئے مخصوص لہجے میں کہا کہ: بی بی صاحبہ ہم سیاست سے دور بھاگتا ہے، ہم ملنگ آدمی ہے، سرکاری کاموں سے ہمارا کیا تعلق ۔ جواب میں بے نظیر بھٹو نے کہا کہ ایدھی صاحب کراچی کو آپ کی ضرورت ہے۔ جس پر عبدالستار ایدھی نے اپنے ساتھ کھڑے ایک نوجوان کا ہاتھ پکڑا اور کہا بی بی صاحبہ ہم یہ نوجوان آپ کے حوالے کرتے ہیں، یہ کیپٹن فہیم الزماں ہے،بہت پڑھا لکھ نوجوان ہے، یہ ہمارا جہاز چلاتا ہے آپ اس کو ذمہ داری دےدیں، اچھا دیانت دار اور شریف آدمی ہے۔

وزیر اعظم نے فہیم الزماں کو سلام کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کی جانب اشارہ کیا اور وہاں موجود صحافیوں کو بتایا کہ ہم ایدھی صاحب کی مرضی کے مطابق ان کے نمائندے کو کراچی میونسپل کارپوریشن کا ایڈمنسٹریٹر بنانے کا اعلان کرتے ہیں اوراس کے بعد کیپٹن فہیم الزماں کافی عرصے تک کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر فائز رہے۔

23

وقت گزرتا رہا لیکن عبدالستار ایدھی اور ایدھی فاﺅنڈیشن کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کراچی کے بہت سارے لوگ جانتے ہیں کہ دو چار نہیں بلکہ کئی بار نامعلوم افراد کی جانب سے عبدالستار ایدھی کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں، سب کچھ جانتے ہوئے بھی آج کوئی میڈیا میں اس موضوع پر بات نہیں کرتا۔ کون نہیں جانتا کہ کراچی میں عبدالستار ایدھی سے قربانی کی کھالیں چھینی جاتی تھیں اور ان کے رضاکاروں کو کھالیں جمع کرنے سے منع کیا جاتا تھا۔ کوئی اس پر بھی بات نہیں کرتا کہ ایدھی ایمبولینسز کے کئی ڈرائیوروں کو شہر کراچی میں قتل کیا گیا اور آئے دن رضا کاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

11

ایدھی صاحب اس وقت بہت ہی دکھی ہوتے تھے جب ان کے فلاحی ادارے کے رضاکار نسلی، لسانی سرگرمیوں میں ملوث نکلتے تھے، ایسے سیکڑوں ملازمین کو ایدھی فاﺅنڈیشن سے برطرف بھی گیا کیونکہ ایسے لوگ ایدھی فاﺅنڈیشن کی ایمبولینسز کو دہشت گردی کے مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ایک موقع پر ایدھی ایمبولینس کے مقابلے میں شہر میں ایک دوسری ایمبولینس سروس بھی متعارف کرادی گئی تھی۔ وہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے جب ایدھی صاحب ناراض ہوکر بیرون ملک چلے گئے تھے اور وصیت کی تھی کہ جلا وطنی کے حوالے سے کتاب لکھ کر ملک سے باہر رکھ لوں گا جو میرے مرنے کے بعد شائع کروائی جائے۔

عبدالستار ایدھی جیسی ملنگ نما عظیم شخصیت سے بہت سے لوگ بیزار بھی تھے کیونکہ وہ سماجی خدمت کے وقت مسلک، مذہب، فرقہ، ذات، قوم، رنگ و نسل نہیں دیکھتے تھے،وہ بلا امتیاز خدمت پر یقین رکھتے تھے، لیاری میں جب مرحوم چوہدری اسلم نے آپریشن شروع کیا تھا تو بند گھروں میں محصور بلوچوں کے پاس راشن اور کھانے پینے کی اشیا لے کر جانے والے ایدھی کو جانے سے روک دیا گیا تھا لیکن ایدھی صاحب نے کہا کہ وہ جائیں گے کسی کو گولی مارنی ہے تو مار ڈالے۔ علاوہ ازیں آواران کے زلزلے میں ایدھی صاحب کو مشکے جانے سے بھی روکا گیا تھا۔ عبدالستار ایدھی جس نے ایدھی سینٹر کے اندر بھارتی لڑکی گیتا کے لیے چھوٹا سا مندر بھی قائم کردیا تھا، ایدھی صاحب جو یوم عاشور کے جلوس میں بھی پائے جاتے تھے تو بارہ ربیع الاول کے عید میلادالنبی ﷺکے جلوس میں بھی اپنی خدمات جاری رکھتے تھے۔ کراچی کی سڑکوں کے کنارے بیٹھ کر بھیک مانگنے والا یہ شخص عبدالستار ایدھی ہی تو تھا جو ہر یتیم کا باپ اور ہر لاوارث کا وارث تھا۔ وہ ہر کسی کو حاجی صاحب کہتا تھا لیکن خود حاجی نہیں تھا اور وہ کہتا تھا کہ حاجی صاحب انسانیت کی خدمت ہی سب سے بڑی خدمت ہے۔

7

زندگی کا بڑا حصہ سفر میں گزارنے والے ایدھی کے ساتھ زندگی کے ہر سفر میں دھوکے ہوئے۔ شادی کے نام پر دھوکا کرکے ایدھی سینٹر سے لاکھوں روپے کا سونا چوری کیا گیا۔ ایدھی کو کئی زخم لگے لیکن وہ جگ میں اپنے زخموں کو چھپا کر انسانیت کی خدمت کرتے رہے۔ دنیا بھر سے ملنے والے سارے اعزازات ان کی شخصیت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے، ننھے منے بے سہارا بچے ہی ایدھی کی سب سے بڑی خوشی تھے۔

میں عبدالستار ایدھی سے کئی بار ملا کئی انٹرویوز بھی کیےلیکن میں نے اس شخص کو ہمیشہ سوچتے دیکھا، نہ جانے وہ کیا سوچتے رہتے تھے، جب دیکھو اپنے خیالات میں گم۔ ان کے من میں ایک بے چینی تھی جو شاید آخری دم تک قائم رہی وہ کبھی بھی مطمئن نظر نہیں آئے۔ملیشین کھدر کے پرانے جوڑے میں دھرتی ماں کی گود میں سکون سے سونے والے ایدھی صاحب پاکستان کی شاہراہوں پر دوڑتی ہوئی ایمبولینسز ہمیں ہمیشہ تمہاری یاد دلاتی رہیں گی۔ایدھی ایمبولینس سروسز کی دو ہزار کے لگ بھگ گاڑیاں آج پورے ملک کی شاہراہوں پر دوڑ رہی ہیں کئی اسپتالوں، ڈسپنسریوں،سرد خانوں،مردہ خانوں،قبرستانوں،سمیت گلی کوچوں میں جہاں جہاں دکھی انسانیت ہوگی وہاں عبدالستار ایدھی کو یاد رکھا جائے۔

یہ شخص مرا نہیں بلکہ یہ زندہ تاریخ کی صورت میں پاکستان میں انسانیت کی عظمت کی اعلی مثال رہے گا۔ پوری زندگی وی آئی پیز سے دور بھاگنے والے ایدھی صاحب کی میت بہرحال وی آئی پیز کے گھیرے میں رہی، سڑک پر بھیک مانگنے والے شخص کے لیے شاہراہیں بند کرائی گئیں۔ پروٹوکول کی وجہ سے نیشنل اسٹیڈیم میں نماز جنازہ کے دوران بھی ہزاروں افراد اسٹیڈیم کے باہر موجود رہے لیکن کھدر پوش ایدھی صاحب دنیا کی ان تمام عظمتوں سے عظیم تھے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں