The news is by your side.

کتابوں کا قرض ادا کرتی نسلیں

میرے دوستوں کی اکثریت میری کتابوں سے محبت کی شیدائی ہے۔ اکثر لوگوں سے دوستی میری صرف اس محبت کی بنا پر جنم پائی ہے۔مگر میں کیسے سب کو بتاؤں کہ یہ محبت میرے لیے کسی لاحاصل محبت سے ذیادہ نہیں۔یہ مجھے اسی طرح تڑپاتی ہے جیسے کوئی پردیسی محبوب دور بیٹھے چاہنے والے کو ترساتا ہے۔ جوہزارکوششوں،خواہشوں اور خوابوں کے باوجود قریب نہیں آ پاتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے قریبیمال جاؤں تو باڈرز یا ورجن(بڑے کتب خانے) جائے بغیر گزارا نہ میرا ہوتا ہے نہ میرے بچوں کا ۔

اس کے باوجود کہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ جو کتاب اٹھائی جائے واپس نہ رکھی جائے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ خواہش ہوتی ہے کہ کسی صدیوں کے بھوکے ندیدے کی طرح اسے ایک ہی منٹ میں بغیر ڈکار لیے نگل لیا جاے۔مگر بندہ مزدور کے اوقات کی طرح میرے بھی اوقات اتنے ہی تلخ ہیں جو اس دھواں دھار عیاشی کے متحمل نہیں ہو پاتے ۔چناچہ بہت سے کڑوے گھونٹ بھر کر بہت سے دلاسے دل کو دے کر کچھ کتابیں اٹھائی جاتی ہیں اس عزم کے ساتھ کہ انشااللہ جلد ہی پچھلی کتب ختم ہونگی اور انکی باری آے گی۔

کچھ ذرا نظر چرا کر واپس رکھی جاتی ہیں چونکہ چھوڑی جانے والی کتاب سے نظر ملانا بہت ہی تکلیف دہ امر ہے ،اس حقیقت سے نظر ملا کر کہ ابھی تو گھر میں اتنی پڑی ہیں جن کی ابھی باری نہیں آی۔اور یقین کیجیے کہ زندگی کی ایک بڑی مایوسی کی وجہ وہ کتابیں بھی ہیں جو میرے بک ریک کے شیشے کے پیچھے سے مجھے آنکھیں مار مار تھک چکی ہیں اور میں ان سے عشق کے دعوے کی ہزار سچائی کے باوجود ان کے قریب نہیں جا پاتی،ان کے لفظوں کو اپنی روح میں نہیں اتار سکتی،ان کے خوبصورت ملائم صفحات کا لمس محسوس نہیں کر پاتی۔اس کی وجہ یہی ہے کہ میں ایک بے پرواہ سولہ سال کی لڑکی نہیں جس کی اماں اسے فارغ بٹھا کر پڑھانا چاہتی ہو‘ تاکہ وہ اتنی فرصت سے پڑھے کہ کامیابی سے ڈاکٹر بن جاے بلکہ میں ان مراحل سے سالوں پہلے گزر چکی اک عمر رسیدہ ماں اور بیوی ہوں اور اپنی ماں کی دی ہوئی وراثتی عادت سے مجبور اپنے بچوں کو بٹھا کر پڑھانا چاہتی ہوں۔

چناچہ باورچی خانے کے چولہے سے باتھ روم کے ٹب تک،بچوں کے تہہ در تہہ کاغذوں اور کھلونوں سے لدے کمرے سے لے کر گھر کی دیواروں تک میں ہر چیز کو صاف کرتے ،مانجھتے اور سنوارتے پائی جاتی ہوں ۔اگر کہیں مشکل سے ملتی ہوں تو اپنے گھر کے اسی محبوب کونے میں جہاں میں نے کسی معصوم کم سن بچی کے گڑیا گھر کی طرح اک کرسی میز کے ساتھ قلم کاغذاور کتاب رکھ کر اپنے خوابوں کا گھر سجا رکھا ہے۔اور میرا منتظر یہ کونہ میری آمد کا منتظر رہتا ہے جو میں اکثر دے نہیں پاتی چناچہ کبھی اک کتاب یہاں رکھی کبھی وہاں منتظر بیٹھی چالیس دنوں میں یا دو ماہ میں بمشکل اختتام پذیر ہوتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ بہت بچپن میں میرے چچا کا گھر چھٹیاں گزارنے کی بہترین جگہ ہوتا تھا جہاں میں اپنی دادی کے ساتھ اکثر جاتی رہتی تھی۔اس کی وجہ ان کے کنوارے گھر میں جا بجا سسپنس ڈائجسٹ کی بہتات تھی،ڈھیروں ڈھیر،تہہ در تہہ،جو مجھ چوتھی پانچویں کی بچی کو سمجھ تو کیا آتے ہوں گے مگر دل لگانے کا بہترین ذریعہ تھے کہ اس خالی گھر میں دادی کے ساتھ اکیلی رہتے میں وہ ڈھیروں ڈھیر ڈائجسٹ ان کے گھر کے ہر کونے سے ڈھونڈ کر پڑھ آتی تھی۔سکول میں درجن بھر سے زیادہ کزنز اوپر نیچے تقریبا ہر کلاس میں بھری تھیں اور میرا مشغلہ تھا کہ بریک میں بچوں کے ساتھ کھیلنے کی بجائے میں کسی نہ کسی کزن سے اس کی اردو کی کتابیں مانگ لاتی تھی۔

اس ی لیے گریڈ ون سے لے کر ٹین تک ہر سال سب سے بور مضمون مجھے اردو لگتا تھا کہ سو سو بار پڑھ رکھا ہوتا تھا۔جب تک کہ سلیبس بدل کر اس میں کچھ نئے اسباق کا اضافہ نہ ہو جائے ۔جنگ کے بچوں کے رسالے جو اس وقت چار صفحات پر مشتمل تھے اور اشتہارات کی جاگیروں سے محفوظ تھے ڈھیروں ڈھیر اکٹھے تھے۔پھر زرا سے بڑے ہوئے تو اسی خاندانی اخبار کو الف سے ے تک چاٹنے لگے۔چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے سارے کالم سب مضامین سارے فیچرز پڑھے جاتے اور خبر بھی نہ ہوتی کہ دل دماغ کی زنبیل میں کیا کیا کچھ الٹ چکے۔

ہاں مگر اب ضرور اندازہ ہوتا ہے جب اک ذرا سی معمولی بات بھی دوسروں کو سمجھانے کے لیے کتنا سر کھپا کر بھی بے اثر رہتے ہیں تو سمجھ میں آتی ہے کہ کس قدر سمجھ علم اور شعور ان کتابوں اور رسالوں نے چپکے چپکے ہمارے اندر انڈیلی تھی کہ ہمیں خبر بھی نہ ہوی۔ایسا کیوں تھا؟ اس قدر مطالعہ کا شوق کتاب سے اس قدر محبت؟ شاید کچھ وراثتی بھی ہو گا۔کہ گھر میں امی کی جاگیر رضیہ بٹ کے ناولوں اور پنجابی داستانوں کی بہتات تھی۔گھر کی الماریوں میں ابا جی کے بنک کے ماہانہ میگزین اور سالانہ خوبصورت کتاب نما رپورٹیں قطاروں میں سجی تھیں۔اس کے علاوہ مشہور زمانہ بہشتی زیور ،اور مرنے کے بعد موت کے منظر سے لے کر ،نسیم حجازی کے سب ناولز سمیت ،کیمیاء سعادت،غنیتہ الطالبین،کشف المجوب تک ترتیب سے لگی تھیں۔

بڑے بھای کتابوں پر کتابیں خرید کر لاتے اور ہم سے بچا کر تالا لگی الماری میں بند کر لیتے ۔اب ہم مانگتے پھرتے اور مانگ مانگ پڑھتے۔ایک واپس کرتے تو دوسری ملتی۔ ساری عمر روزانہ اخبار صبح صبح دہلیز پر پڑا ملتا جو عمر بھر علم اور شعور میں بغیر بتائے اور جتائے بے انتہا اضافہ کرتا رہا۔قدم قدم چلتے ہم کہاں سے کہاں پہنچے یہ فرق ہمیں تب دکھتا ہے جب ہمیں ان کے ساتھ بیٹھنا پڑ جائے جن کے گھر میں بچوں کے نصاب کے سوا کوئی کتاب نہیں ملتی،جن کے ناشتہ کی میز پر صبح کا اخبار نہیں ہوتا،جن کے سرہانے رات کو سوتے اک الٹی کتاب اور ایک ترچھی عینک نہیں گری ہوتی۔

لیکن اب الماری میں ڈھیروں ڈھیر کتابیں ٹھوس لینے کے باوجود بھی اس قدر وقت نہیں کہ ایک ہی دن میں کتاب نپٹ جاے۔ پھر بھی دل میں مایوسی نہیں۔وجہ؟ ایک بہت اہم وجہ ہے۔میری بیٹی ماشاءاللہ جب بھی بیٹھتی ہے سرہانے ایک نہیں دو تین کتابیں رکھ کر بیٹھتی ہے،باہر جاتے ہیں تو دو کتابیں ساتھ لے کر جاتی ہے۔مالز جائیں تو میرے بچے کھلونوں سے زیادہ کتابوں پر مچلتے ہیں۔ میری کتابوں جتنا خرچہ میرے دو چھوٹے بچوں کی کتابوں پر ہو جاتا ہے۔مجھے یاد ہے میں نے فاطمہ کے لیے پہلی کتاب تب لی تھی جب وہ ایک ماہ کی تھی۔مائیں بچیوں کے پیدا ہوتے ہی ان کا جہیز بنانے لگتی ہیں میں نے اس کی لائبریری بنانا شروع کر دی تھی۔

پہلے اس نے تصویریں دیکھنا سیکھا،پھر کہانی سننا اور بالآخر تحریر کو پڑھ لینا۔اس کے بعد میری مشکلیں آسان ہو گییں۔اب وہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے پڑھتی ہے۔ وہ سوتی ہے تو اس کے سرہانے تین چار کتابیں پڑی ہیں وہ کھاتی ہے تو کھانے کی میز پر کتاب رکھے بیٹھی ہے۔مجھے سکوں ہے کہ کم عمری سے ہی میں نے اس کا ہاتھ محفوظ ہاتھوں میں دے دیا ہے۔اسے وہ رستہ دکھا دیا ہے جس پر اسے ہمیشہ روشنی ملے گی۔

دنیا میں کیسے ہی مشکل امتحاں آجائیں زندگی میں کتنے ہی کٹھن مرحلے،یہ دوست ہمیشہ اس کے ساتھ راستہ دکھانے کو موجود رہیں گے۔یہی وجہ ہے کہ میری منتظر کتابیں مجھے بیکار نہیں لگتیں۔میں نے لفظ لفظ پڑھ کر بھی اگر اپنی نسل کو اک تحریک دے دی ہے تو اس میں برا کیا ہے۔کچھ کتابیں ہمارے والدین نے گھر میں اپنی محبت سے مجبور ہو کر سجائی تھیں جنہیں وہ پڑھ نہ پاتے تھے۔مگر ان کی لگن لے کر ہم چل پڑے۔اب کچھ محبتیں ہم نے اپنی الماریوں میں سجا دی ہیں تو کیا ہوا جو قدم ہمارے اکھڑ چکے،ہماری رفتار برقرار کو اگر ہمارے بچے موجود ہیں تو پھر یہ سودا گھاٹے کا نہیں۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

 

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں