The news is by your side.

بدعنوان حکومتیں ، بے ضمیر حکمران

سنہ۱۹۹۹ میں بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے جب نیلسن منڈیلا سے پوچھا گیا کہ سیاست دان اور لیڈر میں کیا فرق ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ سیاست دان ہمیشہ اگلے الیکشن کا سوچتا ہے جبکہ لیڈر آئندہ نسل کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے اور اس کی توجہ کا محور عوام کی فلاح و بہبود ہوتا ہے ۔ دنیا کے باقی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اگرچہ کہ الیکشن کو کافی اہمیت دی جاتی ہے اور ہر خاص و عام کی نظر انتخابات کے انعقاد پر لگی ہوئی ہوتی ہے ، لیکن پھر بھی کہیں دھاندلی کا شور مچتاہے تو کہیں من پسند نتائج حاصل کرنے کے مخالفین پر گولیاں تک برسا دی جاتی ہیں ۔

ہمارے ملک میں خواہ کسی فوجی جرنیل کے اقتدار کا دوام ہو یا اسلام کے نام پر حکومت کا حصول ، جہاد افغانستان کے نام پر طالبان کا وجود میں آنا ہو یا روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر دہشتگردی کے خلاف جنگ کا آغاز ،وراثتی سیاست نے ملک کے عوام کا بیڑا غرق کر دیا ہے ، ایک لیڈر ہے تو وہ دوسرے پر الزام تراشی کر رہا ہے کہ میں تو یہاں اپنی بیٹی کے ساتھ مقدمات کا سامنا کر رہا ہوں اور چور اور لیٹرے باہر بیٹھے ہیں اور وہ چور لٹیرے وہی ہیں جو بے نظیر اور مجھے مکا دکھا کر پاکستان آنے سے روکتے تھے۔ دوسری طرف دبئی میں بیٹھے صاحبان کا یہ کہنا ہے کہ وہ ملک کا درد رکھتے ہیں اور کسی بھی وقت پاکستان آسکتے ہیں لیکن انھیں سیکورٹی خطرات بھی درپیش ہیں جس کی وجہ سے ان کا دورہ پاکستان ہمیشہ منسوخ ہو جاتا ہے ، ملک اور بالخصوص کراچی کی ایک بڑی جماعت ایم کیو ایم اس وقت اپنے اختلافات کی وجہ سےدوراہے پر کھڑی ہے ، کہیں میمو گیٹ سیکنڈل کھل رہا ہے تو کبھی احتساب عدالتوں سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کروانے کی کوشش جاری ہے ۔

الیکشن ۲۰۱۸ چند ہفتوں کی دوری پر ہے لیکن کسی جماعت کے راہنما کے لبوں پر عوام کا نام نہیں ہاں ’’ مجھے کیوں نکالا ‘‘ کی صدائیں ، کپتان کی بڑھکیں اور ایم کیوایم کی روزانہ کی کہانیوں کے ساتھ ساتھ پی پی پی کے جیالوں کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیتنے کے دعوی ضرور سامنے آرہے ہیں ۔

یہ کرپشن ہمارے معاشرے میں آکاس بیل کی طرح بڑھ رہی ہے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عوامی منشا کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے سب چیزیں جو ہے اور جیسا ہے کی بنیاد پر قبول ہو رہی ہیں، مجھے تو اس بات سے بھی اختلاف ہے کہ لوگ غلط حکمرانوں کو چن لیتے ہیں ، کیا ایسا کہنے والوں کی نگاہ سے عوام کے جعلی ووٹ اور پھر ان کے بدلتے ہوئے نتائج نہیں گذرتے یا وہ اس حقیقت کا سامنا نہیں کرنا چاہتے کہ کرپٹ لوگ اچھے لوگوں کو سامنے نہیں آنے دے رہے ۔

پاکستان میں فی زمانہ حکومت کے کتنے کام ایسے ہیں جو عدالت سرانجام دے رہی ہے ، یہ کہنا بہت آسان ہے کہ عدالت عظمیٰ تو حکومت کے کام میں مداخلت کر رہی ہے لیکن اگر سیاسی جماعتیں عوام کے مفاد کے لئے اس طرح متحرک ہوں تو عدلیہ کیوں کارسرکار کو متاثر کرے ، ہمارے عوام کو غرض کسی کرسی کسی ووٹ سے نہیں انھیں غرض ہے تو صرف اپنے بچوں کے پیٹ بھرنے سے ، جس ملک میں آٹے کا تھیلا سات سو سے بھی اوپر ہو ، گلیوں اوربازاروں میں گندگی کے ڈھیر ہوں ، سیوریج کا درست انتظام نہ ہو ، عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہوں اور وہاں کے حکمران چین کی بانسری بجا رہے ہوں تو قرب قیامت کی علامت اور کیا ہو گی ؟۔

آج ایک عام آدمی کی نگاہیں صرف عدالت عظمیٰ پر ہیں ، اس کے انصاف پر ہیں اور بالکل بجا ہے ، ہماری سیاسی جماعتیں دیکھا جائے تو صرف سیاست کر رہی ہیں ، سیاست میں افہام و تفہیم کو نہیں دھونس اور رعب کو رواج دیا جا رہا ہے اور عوام کے ساتھ بالکل وہی ہو رہا ہے جیسے گہیوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے ، خدارا ہمارے حکمران اپنی کرسی کے ساتھ ساتھ عوام کی بھلائی کا بھی کوئی کام کرلیں۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں