انسان کی زندگی جستجو اور امکانات سے پر ہے تاہم اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ زندگی ہماری ہوتی ہے اور اسے جیتا کوئی اور ہے ،بچے کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک والدین و دیگر گھر والوں اور دوستوں سمیت اس کی زندگی میں بہت سے لوگ اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ کیونکہ یہی رشتے معاشرے کے شیرازے کو جنم دیتے ہیں اس لئے ایک فرد پر ان کا اثر سو فیصد ہوتا ہے۔ آج کا المیہ تو یہ ہے کہ ہم حد سے زیادہ سوچنے لگے ہیں لیکن اس سے بھی بڑی حماقت یہ ہے کہ ان چیزوں کے بارے میں سوچ بچار کرنے لگے ہیں جن کا حل بھی ہماری بساط سے باہر کاہے۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے لیکن مسائل کو جنم دینا اور پھر زندگی کو پیچیدہ بنانا آج کل کے جدید دور کا ہی تحفہ ہے ۔ المیہ یہ نہیں کہ نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے یا ان کی راہ نمائی کرنے والا کوئی نہیں یا وہ خود ہی شتر بے مہار بن چکی ہے المیہ یہ ہے کہ ہم کل آنے والی نسل کو کیسے والدین دے کر جا رہے ہیں ؟۔
پارکوں میں جا کر سیر و تفریح کے نام پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگا دینا ، کسی کی مالی امداد کر کے اپنے احسانا ت کے گن گانا ، ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ان پروگراموں کو بھی دیکھنا اور بحث کرنا جن سے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ سکول میں باقی بچوں کو اپنے غیظ و غضب کا نشانہ بنانا ، مہمانوں کے سامنے سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال کرنا اور پھر اس پر ندامت بھی محسوس نہ کرنا یقینا نوجوان نسل کا یہی خاصہ ہے ۔
آج ہم اپنے حقیقی رشتوں سے دور ہو چکے ہیں جس کا عملی ثبوت تعلیمی اداروں میں پیرنٹس ٹیچرز میٹنگ کے موقع پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ والدین ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘ یہاں تک کہ کئی ڈگری ہولڈرز کی چیخ و پکار کی وجہ سے ان کی ذات کا بھرم بھی کھل ہی جاتا ہے ۔
درحقیقت شادی کرنا بہت آسان لیکن والدین بننا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ ایک ایسا ناطہ ہے کہ جو قربانی ، محبت و ایثار اور توجہ کے بغیر پھل پھول نہیں سکتا ۔ والد اور والدہ بننے کے بعد آپ کو اپنے قول و فعل کی ادائیگی میں بہت احتیاط برتنا ہوتی ہے ، اگر آپ پہلے کسی چیز میں ڈنڈی مارنے کے عادی بھی ہیں تو اب آپ ایسا نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ بچے آپ سے ہی سیکھتے ہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں سوائے چند گھرانوں کے شاز و نادر ہی بچوں کی غلطیوں پر ان کی سرزنش کی جاتی ہے ۔ اصل میں ہم خود اپنے گھر اور اپنی ذات سے ہی ایک شدت پسند قوم ہیں ، بچوں کو ماریں گے تو دھلائی ایسی کریں گے کہ پھر بچوں سے آنکھ ملانے کے بھی قابل نہیں رہیں گے ۔ اور اگر لاڈ اٹھانے کا موقع آئے گا تو اولاد کو بگاڑ کر ہی رکھ دیں گے ۔
والدین کی عدم توجہگی اور آئندہ بننے والے والدین دونوں کے لئے ہمیشہ کچھ اصولوں پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ واقعتاً اس کے لئے کچھ اصول و ضوابط وضع کئے گئے ہوں ۔ اگر میاں بیوی میں ناچاقی ہے ، گھر میں کھلے عام تمباکو نوشی اور دیگر نشہ آور ادویات کا استعمال ہوتا ہے ، بچوں کو وقت نہیں دیا جاتا بلکہ آیاؤں کو تنخواہ دے کر جان چھڑا لی جاتی ہے تو پھر حال حسبِ توقع ہی ہوتا ہے کہ مایوسیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہونے لگتا ہے اور ہمارے رشتے ایک جونک کی طرح ہم سے لپٹنے لگتے ہیں کیونکہ ایسے رشتے پھر انسان کے لئے نقصان دہ ہو جاتے ہیں نہ انھیں اگلا جا سکتا ہے اور نہ ہی نگلا ۔
پھر یہی مشاہدہ ہوتا ہے کہ انہی والدین کے بچے جو کل کے ماں باپ ہوں گے ہوٹلوں میں بیروں سے بدتمیزی کرتے ، موبائل فونز کے معاملے پر ایک دوسرے سے گتھم گھتا ہوتے ، اساتذہ اور والدین کے سامنے چرب زبانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دکھائی دیں گے ۔
کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص تو بہت خاندانی ہے ، بہت باوقار شخصیت کا مالک ہے تو اس تعریف کے پیچھے صرف اس ایک فرد کی نہیں ایک پورے معاشرے کی تعریف و توصیف ہوتی ہے بالکل اسی طرح ایک برے اور سماج دشمن کردار کی وجہ سے پورا معاشرہ زیر عتاب آجاتا ہےاور اسے صرف ایک فرد کی بداعمالیوں کے لئے جواب دہ ہونا پڑجاتا ہے ۔
آج کل کے والدین کی ذمہ داری صرف یہاں تک ہی نہیں کہ خود اچھے والدین بن جائیں بلکہ ایک ایسی نسل کی آبیاری کرنا بھی ہے جنہوں نے آگے جا کر والدہ اوروالدہ بننا ہے کہ معاشرہ میں نبھانے والا سب سے اہم کردار ہی یہی ہے ۔