The news is by your side.

دعا ، ایقان اور روشنی

ایقان بھروسہ کی انتہائی شکل ہے ، یہ ایک ایسے بھروسے کا نام ہے جو پکا ہو متزلزل نہیں ہوکبھی حالات کی آندھی اسے اڑا نہ لے جا سکتی ہو ، کبھی کوئی طوفان اس کا خاتمہ نہ کر سکتا ہواور کبھی کوئی اندھیرا اس کی امید کو مٹا نہ سکتا ہو ۔

لیکن جس ایقان کی یہاں بات ہورہی ہے وہ خالق پر ایمان اور کامل یقین کی بات ہے ، ہم لوگوں پر کتنا ہی بھروسہ کرلیں ۔ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ہمیں مایوسی اور بدگمانی کا سامنا ہو ہی جاتا ہے اور سچ بھی ہے کہ کوئی کب تک آپ کی توقعات پرپورا اترے ، یہی چیز اگر ہم خو د پر لاگو کریں تو ہم بھی بہت سے مراحل پر دوسروں کو ناامید کر دیتے ہیں ۔ لیکن ایک ذات باری تعالی ہے جو ہمیں کبھی مایوس نہیں کرتی ۔

اس فانی دنیا میں ہم ہمہ وقت خوش نہیں رہ سکتے اور اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ناشکرے بھی ہیں ، مثال ہی لے لیں کہ پہلے زمانے میں کسی کے پاس دولت ہوا کرتی تھی تو سب اس کے قائم رہنے کی دعا کرتے تھے ، اپنے لئے بھی کہا کرتے تھے کہ یا اللہ تو اپنا فضل ہم گناہ گاروں پر بھی کر لیکن اب نفرت ، حسد اور کینہ کی ایک ایسی آندھی چلی ہے کہ جس کی وجہ سے ہم سب کے مکروہ چہرے سامنے آگئے ہیں۔

اب ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھی کسی بھی طرح اس دولت مند بندے کی نقل کر لیں اور چاہے منہ تھپڑوں سے کیوں نہ لال کرنا پڑے وہ بھی کر لیں ۔

زندگی میں پیش آنے والی مشکلات درحقیقت نہ صرف اللہ تعالی کی ذات کی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں بلکہ انسان کو ایک حد میں رکھنے کی ایک واضح اور روشن دلیل بھی ہوتی ہیں ۔ لیکن اس سارے عمل میں جب ہم ناامید ہوتے ہیں تو کہیں نہ کہیں یہ یقین ضرور ہوتا ہے کہ کوئی ہستی ایسی ہے جو ہمیں تھام لے گی ، کوئی انسان کتنا بھی کرپٹ کیوں نہ ہو اس کا ضمیر اسے کبھی نہ کبھی ملامت ضرور کرتا ہے ، لوگ کہتے ہیں کہ اب اس کے اعتراف گناہ کی کیا حیثیت ؟ لیکن ایسا نہیں میرا خیال ہے کہ اپنے گناہوں کا ادراک اور ان کی توبہ جس وقت بھی ہو وہ اصلاح کی طرف پہلا اور مکمل قدم ہے ۔

اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ ہمیں معجزات پر یقین سکھاتا ہے ، بہت سے قریب المرگ افراد کو میں نے دعاؤں اور معجزات کی بنا پر تندرست ہوتے اور اپنے پیروں پر چلتے دیکھا ۔ اسی طرح اللہ پر یقین ہمیں ہمیشہ ایک اچھے دوست سے روشناس کرواتا ہے ۔ اللہ تعالی وہ واحد دوست ہے جو احسان کر کے جتاتا نہیں ، جو ہمارا مکمل راز داں بھی بن جاتا ہے اور جس کے سامنے ہمیں کوئی اعتراف گناہ کرتے ہوئے خفت بھی محسوس نہیں ہوتی ، ہمارے دوست ، بہن بھائی اور عزیز و اقارب خواہ کتنے ہی قریب کیوں نہ ہو ں، اکثر اوقات کوئی بھی بات بتاتے ہوئے درمیاں میں بہت سے حجابات حائل ہو جاتے ہیں ۔

خدا پر یقین صرف دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت کے بارے میں بھی سزا اور جزا کے تصورات کی تشریح کرتا ہے ہمیں یقین کامل ہوتا ہے کہ ہمیں آخرت میں بھی اچھا ہی ملے گا ۔ اگر ہم نے اچھے اعمال کئے ہیں تو جیسے موسلا دھار بارش کے بعد چمکتی دھوپ نکلتی ہے اور قوس قزح نمودار ہوتی ہے بالکل اسی طرح ہم بھی اللہ تعالی کے ہاں سے انعام و اکرام کے حق دار ٹھہریں گے جبکہ یہ دنیا اگر انعام دے گی بھی تو لالچ میں ، رشوت کے ذریعے اور بدعنوان ہونے پر ۔

آج ہم پریشان اس لیے ہیں کہ ہم نے اپنے مسائل اللہ تعالی سے شئیر کرنے کی بجائے لوگوں کو بتانا شروع کر دئیے ہیں ، پوشیدہ دعاؤں اور اللہ سے رازداری کرنے کی بجائے لوگوں کے پیدا کردہ مسائل کے حل کے لئے بھی لوگوں کو ہی نجات دہندہ سمجھنا شروع کر دیا ہےاور یہ صورتحال الارمنگ ہے کہ معبود کو عبد اور عبد کو معبود کا درجہ دینے کی کوشش ہو رہی ہے جو کہ انسانیت کی تذلیل بھی ہے اور رحمت خداوندی کے شایان شان کے بر خلاف بھی ۔

یاد رکھیے دعا کا کوئی وقت نہیں ہوتا ، روحانیت کے حصول کے لئے ہاتھ میں تسبیح ، سالانہ عمرہ اورحج ضروری نہیں ، خدا سے لو لگانے کے لئے ساٹھ باسٹھ سال کا ہونا معانی نہیں رکھتا ۔یہ تو بندے اور خدا کا معاملہ ہے ا س کی ذات سے لو لگانے کا معاملہ ہے کہ آپ زندگی کے کسی امتحان میں ہوں یا خوشی میں آپ کا دل اللہ تعالی کی یاد سے لبریز ہو ، بس اس کی اور آپ کے تعلق کی ڈور ٹوٹنے والی نہ ہو ۔

دعا کی قبولیت کا خلوص نیت سے تعلق تو ہے ، دینا یا نہ دینا اسی مالک کی عطا ہے لیکن فقیر کی مستقل مزاجی اور اعتقاد ایسا ہونا چاہیے کہ رحمت خداوندی خود ہی جوش میں آجائے اور حاجتوں کی با آوری ہونے لگے ۔ پورے یقین اور عز م کیساتھ اللہ تعالی کے ساتھ اپنے تعلق کو جوڑئیے ۔۔اپنے تعلق کو جوڑئیے ۔۔دعا قبول ہوتی ہے تو آپ کی خوشی میں اضافہ ہوگا اور اگر دعا قبول نہیں ہوتی تو آپ کا خدا پر یقین اور بڑھے گا جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ’’ میں نے اللہ تعالی کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا ‘‘ بس آج کی دنیا کے مسائل کا حل صرف یہی ہے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں