خواتین کے حق میں نعرے بلند کرنے والے اور جنسی ہراسگی کو خواتین کے تحفظ کے لئے استعمال کرنے والوں کے لئے یہ موضوع اگر پیچیدہ نہیں تو ناپسندیدہ ضرور ہے ۔ ہمارا معاشرتی المیہ یہ ہے کہ ہم صرف اور صرف انہی چیزوں کو اہمیت دیتے ہیں جو ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن جائیں اور ان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہ آئے شاید اسی لئے خواتین پر ہونے والے تشدد پر ہر کوئی بات کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن ہر قسم کے تشدد کو باآسانی مردوں کی طرف منتقل کر دینے پر کوئی غور نہیں کرتا ۔
شاید اس لئے کہ ہم دھیان نہیں دیتے کہ اگر ایک مرد سڑک پر کسی کو چھیڑ رہا ہے تو پورا بازار اس عورت کی حمایت میں میدان میں آجاتا ہے ، کسی دفتر میں کسی خاتون کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو وہاں کا پورا سٹاف بھی حقوق نسواں کی پاسداری کے لئے یک زبان ہو جاتا ہے ۔کہیں کسی نوکری کے لئے انٹرویو ہو تو خواتین کو ہی ترجیح دی جاتی ہے اور یہ ہی موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ کوئی مجبوری ہے تو یہ گھر سے باہر نکلی ہیں ۔
ہماری ماؤں بہنوں کی حفاظت کرنے والے فوجی بھی یقینا مرد حضرات ہی ہیں جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ان کی زندگیاں بچا رہے ہیں ، بہرحال معاشرے کا کون سا ایسا شعبہ ہے جو مرد و زن کے وجود سے خالی ہے ۔ می ٹو کا قصہ پرانا نہیں بلکہ ایک دو سال پہلے ہی شروع ہوا اور اس کو زیادہ نمایاں تب کیا گیا جب اکتوبر ۲۰۱۷ میں ہالی وڈ کے ۶۸ سال کے پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن کی جانب سےدرجنوں خواتین اور اداکاروں کو کئی سال تک جنسی نشانہ بنائے جانے کی خبریں سامنے آئیں ۔
اس مہم کو دنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہوئی اور امریکی حکومت کے تعاون سے ایک ادارہ’ٹائمز اپ ‘ نامی بنایا گیا جو کہ ایسے متاثر ہ افراد کو قانونی امداد فراہم کرتا تھا ۔ می ٹو مہم پر پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر کے فنکاروں اور دیگر اہم شخصیات نے بھی بات کی ۔ کسی نے کہا کہ جس جگہ بھی خواتین اور مرد اکٹھے ہوں گے وہاں پر ایسی واقعات ہوں گے اور یہ فطری بات ہے ۔ کسی کا یہ نظریہ تھا کہ می ٹو کی بہت سی کہانیاں محض کہانیاں ہی ہیں اور توجہ حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ جس شخص پر الزام لگایا گیا ہے وہ قصور وار ہے بھی یا نہیں ۔
بطورعورت میرا یہ ماننا ہے کہ پاکستان تو کیا دنیا بھر میں معاشرے نے بطور مردوں کے معاشرے کے ترقی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ می ٹو مہم ضرور چلائی گئی لیکن کیا اس کا ایک عام عورت کو فائدہ ہوا َ ؟ اور اگر ہوا بھی تو کس حد تک ؟ کیا اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والی عورت ، سڑک کنارے پھل بیچنے والی خاتون ، پرائمری جماعتوں کو پڑھانےوالی استانیاں اس مہم کا حصہ بنیں؟نہیں ناں۔
تو آُپ یہ کیوں تسلیم نہیں کر لیتے کہ آج کی عام عورت اس می ٹو مہم کا حصہ نہیں بنی ،ان کے مسائل حل نہیں ہوئے ۔ وہ تو ابھی تک جنسی ہراسگی کا سامنا کر رہی ہیں ، انھیں لوگ گھور بھی رہے ہیں ، ان پر جملے بھی کس رہے ہیں اور ان کی بے توقیری بھی کر رہے ہیں ۔
می ٹو مہم کا حصہ صرف اور صرف اعلٰی طبقے کی خواتین ہیں جنہوں نے زیادہ تر اس کو مردوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پراستعمال کیا ہے ، میں میشا شفیع اور علی ظفر کا حوالہ ضرور دوں گی۔ چلیں بالفرض ایک منٹ کو مان بھی لیا کہ میشا کے ساتھ زیادتی ہوئی تو بقول علی ظفر کے وہ اس کی والدہ کو، اس کی بیوی کو شکایت لگا سکتی تھیں ۔یہ بات درست بھی نظر آتی ہے کیونکہ علی ظفر کے ساتھ ان کے خاندانی مراسم بھی رہے ہیں ۔۔جنسی ہراسگی کا شکار ہونے والی یہ خواتین کیا صرف ایک ہیش ٹیگ کی منتظر تھیں ؟ اس سے پہلے وہ کہاں تھیں اور بڑے طبقے کی خواتین تو ایک منٹ میں ٹوئٹر پر طوفان کھڑا کر دیتی ہیں ایسا کیوں نہیں ہوا کہ شروع سے ہی جنسی ہراسگی اور جنسی زیادتی کے خلاف قدم اٹھایا جاتا جبکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کے لئے این جی اوز کام کر رہی ہیں ۔
کتنی ہی ایسی شریف لڑکیوں کو میں جانتی ہوں جنہوں نے اپنی شرافت کا بھرم رکھتے ہوئے کم پیسوں پر نوکری قبول کی اور اب تک کر رہی ہیں کیونکہ انھیں یہ معلوم ہے کہ بڑے پیکج کے لئے انھیں بڑی ’خدمت گذاری ‘ بھی کرنا ہو گی ۔
کتنی خواتین ایسی ہیں جو اپنے باس سے جائز مطالبات منوانے کی تگ و دو میں زندگی گذار دیتی ہیں ، کتنی ہی مائیں ،بہنیں، بیٹیاں ایسی ہیں جن کے پاس گناہ کی قدرت ہے لیکن وہ خدا خوفی کی وجہ سے اس گھناؤنے کھیل کا حصہ نہیں بنتیں ان لڑکیوں کا ساتھ نہیں دیتیں جو کام نہیں کرتیں اور یس باس یس باس کرتی رہتی ہیں ۔
کیا ان خواتین کی آواز کوئی سنتا ہے ؟ ہم ان خواتین باسز کو بھول کیوں گئے ہیں جو نوجوان لڑکوں کو اپنے پاس ملازمت خاص مقصد کے لئے دیتی ہیں اور بند کمروں میں انھیں بھی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے انھیں بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔ اب چاہے یہ خواتین اپنےکھڑوس بڈھے خاوندوں سے عاجز آچکی ہوں یا نئی دنیا کی تلاش میں ہوں ۔ ہوتا بہرحال یہ بھی ہے ۔
ہمیں ان خواتین کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جو باس کے ساتھ تعلقات استوار کر کے ان کے گھر تک پہنچ جاتی ہیں اور اسی طرح بلیک میلنگ کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ ان خاتون کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جو ریستوران میں ہمارے پڑوسی ملک میں نامناسب لباس پہننے پر لڑکیوں کو آرام سے سمجھانے کی بجائے مردوں کو ان کے خلاف عمل پر اکسا رہی ہیں ۔ ڈراموں میں روتی دھوتی عورت دکھائی جا رہی ہے جبکہ آج کی عورت بہادر ہے ، وہ اپنی طرف اٹھنے والی ہر غلط آنکھ کو نوچ کر نکال سکتی ہے یاد رہے کہ میں نے معاشرے کے ایک خاص اور بیدار طبقے کی بات کی ہے ، میں نے عورت مارچ کے بے ہودہ اور لایعنی نظریات کا پرچار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی ۔
می ٹو کا سہارا لے کر اٹھیں ، اپنے مسائل بیان کیجیے لیکن میڈیا سے بھی پہلے اپنی والدہ بہن یا استاد سے ڈسکس کریں ۔ اپنے جذبات کے انعکاس کے لئے درست راستہ اختیار کیجیے اور خیال رہے کہ الزام تراشی کا سلسلہ صرف ان مردوں تک ہی محدودرہے جن کے عزائم خراب ہوتے ہیں ، ورنہ مردوں کے پاکیزہ رشتوں میں آپ کے والد ، بھائی ، شوہر اور اساتذہ بھی شامل ہیں ۔