The news is by your side.

زبان سے دشمنی دہشت گردی ہے

گزشتہ دنوں یہ معاملہ سامنے آیا کہ اب اندرون سندھ جامعات میں اردو پر کسی طرح کی کوئی پابندی لگا دی گئی ہے ۔ گوکہ وضاحتیں آچکی ہیں لیکن دونوں جانب سے ہار نہ ماننے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اردو کی حامی اسے اردو دشمنی سے تعبیر دے رہے ہیں ، اور فیصلہ کرنے والے اسے دوستی کا نیا سفر قرار دے رہے ہیں ۔ مجھے دونوں سے اظہارِ ہمدردی ہے ۔اور یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے ۔

اردو سے دوستی کے دعوے داروں کو کیا یہ لگ رہا ہے کہ اس سے اردو کے فروغ کو نقصان پہنچے گا ، تو جان لیجئے کہ نہیں کیونکہ اردو کے محبان نے گزشتہ ستر سال میں اگر اردو کی سندھ میں ترویج کے لئے کچھ کیا ہوتا تو یہ نوبت ہی نہ آتی ۔ اور خاص طور پر گزشتہ بیس سالوں میں تو صورت حال تو کچھ گیم اوور کی سی ہے ۔ آج جن کو بہت تکلیف ہو رہی ہے تو ان سے ایک سوال ہے کہ آرٹس کونسل کی تقاریب اور اردو کانفرنس کے علاوہ کراچی میں گزشتہ بیس سالوں میں اردو کی ترویج کے لیے کام کیا ہوا ہے۔حضور زبان کی ترویج آٹو میٹک پلانٹ پر نہیں ہوتی اس کے لیے دانشور، محقق اور ماہر لسانیات چاہئے ہوتے ہیں ،جن کی فکری نشستوں میں سیاستدانوں کی شریک ہونا پڑتا ہے۔ افسوس کہ کراچی میں اس کے بر عکس ہوا۔ یہ امر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک اردو زبان کی سب سے زیادہ خدمت پنجاب میں ہوئی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ اور اب تو حالت یہ ہے کہ اردو میں چھپنے والی اسی فیصد کتابیں بھی پنجاب میں چھپتی ہیں۔جب سیاست اور شخصیت ہر امر پر غالب ہو جائے تو اس کا کہیں نہ کہیں یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے ۔

اب دوسرے رخ پر بات کر لیتے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چار کروڑ لوگ روزانہ شراب پیتے ہیں حالانکہ شراب پر پابندی ہے اور اور اگر قبضے سے برآمد جائے تو سزا بھی ہو سکتی ہے ۔ دستور کے مطابق پاکستان میں رشوت لینا جرم ہے ، چور بازاری ، حرام خوری اور ان جیسی تمام حرکتوں پر پابندی ہے اور ۔ بھارت میں گائے کا گوشت کھانے پر پابندی ہے لیکن کمال بات ہے نہ کہ ماتا جی کا گوشت سپلائی کرنے والا خطے کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ ارے ہاں بدعنوانی کو بھول گیا اگر پاکستان میں سچا آپریشن ہو جائے تو آدھا ملک کہہ رہا ہو گا ،،،کیوں نکالا مجھے۔

حضور والا زبان دلوں میں بستی ہے اس پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی انہی پابندی لگانے والوں میں سے اکثر کے بچے اردو جانتے ہیں ۔ یہ سندھی مہاجر مسئلہ نہیں آخر میں معلوم ہوگا کہ یہ بھی کسی بابو صاب کی شخصی پر کاری جس کو میں حرام سے لکھنا چاہتا ہوں ثابت ہوگی۔ زبان پر پابندی ذہن پر پابندی ہے کیونکہ ذہن اسی زبان مین سوچتا ہے جو اسے اچھی لگتی ہے ۔ یہ خوابوں پر پابندی ہے کیونکہ انسان اسی زبان میں خواب دیکھتا ہے جو اسے اچھی آتی ہو۔چلیں مان لیں کہ یہ ایک احسن فیصلہ ہے لیکن اس سے زبان کو نہیں اس خطے کی آنے والی نسلوں کو نقصان ہوگا ، جو ایک زبان سیکھنے سے محروم ہوجائے گی۔

کسی بھی زبان سے دشمنی دہشت گردی ہے جس کے اثرات کسی طور نہیں مٹتے ۔ کیا کمال ہے کہ یہودیوں نے ہزاروں سال پہلے دفن کی ہوئی عبرانی کو کھود کر نکالا اور زندہ کر دیا ۔ اور ہم ہیں کہ زندہ زبانوں کو دفن کرنا چاہتے ہیں۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں