The news is by your side.

میدان بھی وہی ، گھوڑا بھی وہی ۔۔ پھر بھی سب اچھا ہے

ملک میں عام انتخابات کی تیاری زور و شور سے جاری ہے، تمام جماعتیں جو اقتدار کے مزے کئی بار لوٹ چکی ہیں اور قوم بھی لٹ چکی ہے، وہ نئے برانڈ کے ساتھ مختلف چورن اور حربے سے لے کر عوام کے سامنے آئے ہیں۔ ہر سیاسی فرد اپنے انداز میں چورن بیچ رہا ہے، کسی کے چورن میں مظلومیت کا نسخہ ہے تو کسی کے چورن کا نام ہے ”مجھے کیوں نکالا“۔۔۔ ”روٹی کپڑا اور مکان“ کا چورن بھی اب پراناہوا۔

ایک نوجوان نے نیا چورن کراچی میں متعارف کرایا اور کہا کہ انٹرنیشنل سٹی بناکر دم لیں گے اور کراچی کے بیٹے ہونے کا دعویٰ بھی کیا، کچھ مذہبی جماعتیں بھی نئی شکل میں وجود میں آئی ہیں اور دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ اس ملک کو اسلام کا گہوارہ بنائیں گی جبکہ بیس سال سے اقتدار کے منصب پر عوامی پذیرائی کے دعوے کرتی رہیں، ملک کو چھوڑیں خیبر پختونخواہ میں اسلام نہ نافذ کرسکیں۔ غرض عوام نے سنیما دیکھنے، سرکس دیکھنے چھوڑ دئیے ہیں کہ یہ دعوے ہی کافی ہیں۔

ووٹ کو عزت دینے والے اسمبلیوں کے شہزادے ایک دوسرے کو تھپڑوں سے نواز رہے ہیں۔غرض ایک طوفانِ بدتمیزی کے ساتھ بلند و بانگ دعوے کئے جارہے ہیں کہ یہ عوام جو چکی میں پس گئی ہے، ہم چکی کے پاٹ اٹھا کر انہیں نکالیں گے، عوام جانتی ہے کہ ماضی کے دعوے ریت کی دیواریں ثابت ہوئے، برسرِ اقتدار حضرات رہنے والے سیاست دان اپنے دورِ حکومت میں جعلی اعدادو شمار کا سہارا لے کر قوم کو لولی پاپ دیتے رہے۔ اب ان کی جان پر بن آئی ہے کہ کیا کریں سوشل میڈیا نے آنکھوں دیکھا حال دکھا کر ان سیاست دانوں کے ہوش و حواس اڑادئیے ہیں۔

اب یہ بھول بھلیوں کی گلیوں میں بھٹک رہے ہیں اور مزے کی بات دیکھیں فوج کے بارے میں معمولی سے اطلاعات نہ رکھنے والا فوج پر نئے نئے انکشافات کرتا نظر آتا ہے۔ یہ کسی المیہ سے کم نہیں اور یہ سیاسی لوگ اپنے سیاسی رہبر کی خوشنودی کے لئے اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ عوامی عقل ان کے قول و فعل پر ماتم کرتی نظر آتی ہے اور یہی لوگ اپنے بہتر مستقبل کو ہمیشہ کے لئے پنجرے میں بند رکھتے ہیں۔ اب الیکشن قریب ہونے کی وجہ سے یہ حواس باختہ ہوگئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی صورت سے اقتدار کی مالا ان کے گلے کی زینت بنے پھر وہی نئے ٹی وی سوپ ”کرپشن اور دادا گیری“ پھر کام ہوگا اور پھر ووٹ کی عزت کا سوال ہوگا، سیاست دان الیکشن قریب ہونے کی وجہ سے ترازو تول رہے ہیں۔

نیا پاکستان بنانے والوں میں پرانے مستری بھی شامل ہورہے ہیں، اب تک تقریباً 30 ایسے افراد جو دوسری پارٹیوں میں ایم این اے ،ایم پی اے ، وزیر، مشیر تھے، وہ نیا پاکستان بنانے کے لئے لنگوٹ کس کر پارٹیاں بدل رہے ہیں، یہ لوگ ہر لحاظ سے اعلیٰ و ارفع رہنا چاہتے ہیں، اصل ڈکٹیٹر تو یہ ہیں، انہیں پروٹوکول عزت و تکریم، میڈیکل، سیاسی فہم و فرست کے بغیر چاہیے ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ دارالحکومت میں بادشاہوں کی طرح رہتے ہیں۔

سوشل میڈیا نے ان سیاسی حضرات کو جو اپنے آپ کو واجب الاحترام کہتے ہیں، اضطرابی کیفیت میں ڈال دیا ہے، دانشمندانہ فیصلے یہ صرف خوابوں میں دیکھتے ہیں۔ توبہ استغفار کا جملہ یہ صرف جلسوں میں استعمال کرتے ہیں، بعد از مرگ کا انہیں کوئی خیال نہیں جو ارب پتی ہیں کہ وہ یہ بھول گئے ہیں (جو سیاست سے وابستہ ہیں) کہ انسان جب مرتا ہے تو اس کا نام گھنٹوں میں مٹ جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں مرنے والے کی ڈیڈ باڈی کہاں ہے اور جب نماز جنازہ کا وقت ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے میت لے آؤ اور جب دفنانے کا وقت آئے گا تو لوگ کہتے نظر آئیں گے جنازہ کہاں ہے۔

وہ منصب اور شہرت خاک کی طرح مٹی میں نظر آئے گی اور پھر جب اعمال کا سلسلہ شروع ہوگا تو ترازو خالی ہوگا، پھر یہ امراءکہتے پھریں گے کہ کاش دوبارہ زندگی مل جائے تو نیکیوں کے پہاڑ کھڑے کردوں گا (سورة المنافقون)۔
پی ٹی آئی کے عمران خان نے کہا ہے کہ اگر ہماری حکومت آئی تو 100 دن کے اندر ہم وہ تبدیلیاں لائیں گے کہ عوام سوچ بھی نہیں سکتے۔ مانا کہ عمران خان نے 100 دن میں بہت کچھ کرنے کا اعلان کیا، ان میں بے شمار کام اور شرائط ہیں، جن کا تذکرہ کافی طویل ہوگا اور اوراق اس بات کی اجازت نہیں دے رہے مگر عمران خان اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ آپ نیا پاکستان تو بنانے کے لئے تیار ہیں مگر یاد رکھیے گا میدان بھی وہی ہے گھوڑا بھی وہی ہے، ہاں سوار کی تبدیلی بہت ضروری ہے مگر آپ کے ساتھ جو شہہ سوار شامل ہوئے ہیں انہیں وسائل اور مسائل کو حل کرنے کا تجربہ نہیں۔ یہ حضرات وہی لوگ ہیں جو 1990ءسے لے کر2013ءتک ناتجربے کاری کے گھوڑے دوڑاتے نظر آرہے ہیں مگر آپ کو انہیں بحیثیت ایماندار ریفری کے کولہو کے بیل کی طرح ایمانداری اور ذہانت سے چلانا ہوگا۔

نواز شریف2013ءکے الیکشن میں ہر جلسے میں کہتے تھے کہ ہم 3 ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کردیں گے، ریلوے اور پی آئی اے کے نظام کو بدل دیں گے، محکمہ پولیس کو غیر سیاسی بنایا جائے گا، تعلیمی اصلاحات پر عمل پیرا ہو کر دکھائیں گے، کہا تھا کہ عدالتوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کرکے دکھائیں گے اور مزے کی بات دیکھیں کہ اب یہ کام سپریم کورٹ اور نیب کررہی ہے، اس وقت قوم کے سامنے گفتگو کے دریا بہادئیے گئے اور اب قوم مفلسی، غربت، بدحالی، لاقانونیت میں غوطے کھارہی ہے۔

عمران خان کو چاہیے کہ جلسوں میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے وہ باتیں کریں جنہیں پورا کرسکیں کہ ان کی پارٹی میں اب جو لوگ شامل ہورہے ہیں، کیا وہ باضابطہ ذمے داری نبھاسکیں گے کہ ان میں بیشتر وہی لوگ ہیں جو ماضی میں وزیر، مشیر اور سینیٹرز رہے ہیں۔ یاد رکھیں خان صاحب، میدان میں بگڑے ہوئے گھوڑے پر بالادستی بہت مشکل ہوتی ہے کیونکہ راقم غیر جانبدار ہو کر عوامی مسائل پر صرف روشنی ڈال سکتا ہے۔

خزانہ خالی ہے یہ برسرِ اقتدار آنے والی پارٹیاں ضرور کہتی ہیں اور یہ حربہ استعمال کرکے تین برس بہت آسانی سے گزار لیتی ہیں اور اس کے بعد جو دو سال ہوتے ہیں وہ بھونڈے دلائل میں گزار دیتے ہیں اور پھر اس کے بعد عوام مفلسی کا کشکول لئے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ماضی میں ہمارے ہاں برسرِ اقتدار رہنے والی سیاسی جماعتوں نے اپنی بقاءاور سلامتی کے لئے وزیر داخلہ جیسی وزارت ایسے لوگوں کے سپرد کی، جنہوں نے کبھی قانون کی کتابوں کا مطالعہ ہی نہیں کیا، اس کے ثمرات جو ظاہر ہوئے وہ بہت ہولناک تھے، جس سے پولیس اپنا قبلے کا تعین نہ کرسکی اور صوبوں میں آئی جی ہونے کے باوجود روز بے شمار بے قصور لوگ مارے گئے، جن کا کوئی قصور نہیں تھا لہذا ایسے شخص کو وہاں تعینات کیا جائے جو قانون کی پوری سمجھ بوجھ رکھتا ہو۔

یہی المیہ ہے وزارت صحت کا بھی، ایسے فرد کو وزیر صحت لگایا جاتا ہے جس نے کبھی ڈسپنسری نہیں دیکھی جبکہ اس وزارت کے لئے MBBS، FCPS، FRCS ڈاکٹر کا ہونا بہت ضروری ہے، جبھی تو اسپتالوں کی حالت زار یہ ہے۔ وزیر دفاع کے لئے اس شخص کو نامزد کیا جاتا رہا ہے جس نے کبھی چھرے والی بندوق نہیں چلائی جبکہ اس سیٹ کے لئے کم از کم میجر جنرل رینک (ریٹائرڈ) شخص کو نامزد کیا جائے۔

وزارتِ تعلیم کے لئے ”انٹر یا بی اے پاس“ کو نامزد کیا جاتا رہا اور پھر تعلیم کا کیا حال ہوا اس ملک میں، وہ سب پر عیاں ہے جبکہ کم از کم پی ایچ ڈی فرد کو اس وزارت کے لئے منتخب کیا جانا چاہیے، چاروں صوبوں کے آئی جی، کے عہدے پر سینئر ترین لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو نامزد کیا جائے۔ ملک میں ٹریفک کا کیا نظام ہے، وہ آپ کے سامنے ہے، خاص طور پر کراچی میں ٹریفک کا نظام تباہ ہوگیا ہے۔

غرض یہ سیاسی پارٹیاں وزارتیں اس طرح دیتی ہیں کہ عوام کے مسائل ہیجانی کیفیت کے تلے دب کے رہ گئے ہیں، وزیر اطلاعات کا شعبہ ایسے فرد کو دیا جائے جو پی ٹی وی کو اپنے سسرال کی طرح اہمیت نہ دے۔ وزارتوں کی غلط بندر بانٹ نے اس ملک کو بے راہ روی کا شکار کردیا ہے۔

گزشتہ پندرہ سال سے وزیر اطلاعات و نشریات کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے فحاشی و عریانیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں کی ذہنی تخلیقی صلاحیتیں زنگ آلود ہوتی جارہی ہیں، ان چند سیاست دانوں نے اپنی اور اپنی اولادوں کی بقاءکے لئے اس ملک کے نوجوانوں کے خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیئے۔

1990ءسے لے کر آج تک یہ قوم اکتاہٹ کا سفر طے کررہی ہے، جمہوریت کے نام پر ملت کو پارہ پارہ کیا جارہا ہے، لہٰذا عمران خان جو کہہ رہے ہیں کہ 100 دن میں تبدیلی لاکر دکھائیں گے، اس کے لئے انہیں اس تحریر کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں