The news is by your side.

سب اچھا ہے: پاکستان اب بوڑھا ہورہا ہے

ملک کے اربابِ اختیار یہ بھی بھول چکے ہیں کہ یہ71 سالہ بوڑھا پاکستان کب تک صدمے برداشت کرتا رہے گا، جب اس کا وجود عمل میں آیا تو جناب قائدِ اعظم محمدعلی جناح (مرحوم) نے اس کی سرپرستی کی مگر افسوس کہ ان کی زندگی نے وفا نہ کی۔ اس وقت پاکستان معصوم بچے کی طرح تھا پھر وقت کے ساتھ یہ جوان ہوگیا مگر اس کی جیبیں خالی تھیں پھر کچھ سیاسی چالبازوں نے اسے گھیرلیا اور اپنے مفادات کے لئے مایوسی کی گرد اس پر ڈالتے رہے۔ عوام، عدلیہ اور فوج قومی سلامتی اور استحکام کے دروازے کو خلوصِ دل سے پکڑے کھڑی رہی اور پھر 1972ءکے بعد تاریخ اور ثقافت کو کچلنے کی مشقیں جاری ہوگئیں۔

اب پاکستان 25 سال کا نوجوان تھا پھر 1992ءمیں یہ 45 سال کا ہوگیا، یہاں سے جوانی کا زور ٹوٹنا شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد عوامی پذیرائی کا سلسلہ ختم ہونا شروع ہوا اور آج 2018ءہے اور یہ بوڑھا پاکستان جس کی جیبیں ایمانداری سے بھری تھیں، اب یہ جیبیں ہمارے سیاست دانوں نے کرپشن، لوٹ مار، دادا گیری، قتل و بربریت سے بھردی ہیں اور یہ بے چارہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، جبکہ اس کی جیبیں عوامی مسائل سے خالی ہیں۔ ان سیاست دانوں نے گفتگو کے دریا سے انتظامی ڈھانچے کو تباہ کردیا، ہر ادارے کے گلے میں کرپشن کے ہار پڑے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ ای او بی آئی جیسے بزرگ پرور ادارے کو بھی اسکینڈلز سے نواز دیا جس سے بزرگوں کا عدم تحفظ بڑھ گیا ہے۔

اس سے قبل عمر رسیدہ افراد کے لئے میں ایک آرٹیکل تحریر کرچکا ہوں کہ قومی بچت میں بھی اچھے معاوضے پر اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجراءکیا جائے، خاص طور پر وزیر خزانہ محترم شمشاد اختر اس پر توجہ دیں۔ گزشتہ دنوں قومی بچت کے حوالے سے ایک کلر اشتہار صبح کے اخبارات میں دیکھا کہ قومی بچت نے شہداءفیملی ویلفیئر اکاؤنٹ کا آغاز کیا جو سالانہ شرح منافع آٹھ ، دس کے حساب سے دے گا۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ پچھلے آرٹیکل پر جو اسلامی سرٹیفکیٹ کے حوالے سے تھا، علماءحضرات خاموش رہے، کسی نے بھی اس پر آواز نہیں اٹھائی اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اس تحریر کو دیکھنے کے بعد بھی ہمارے علماءاکرام خاموشی اختیار کرلیں گے۔

بھلا بتائیے کہ ہمارا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے وہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کہ شہداءفیملی ویلفیئر اکاؤنٹ میں شہداءکے حق دار لواحقین کو سود کھلایا جائے۔ خدارا اس کو اسلامی سرٹیفکیٹ میں تبدیل کیجئے کہ کم از کم شہداءکا تو خیال کریں، ویسے اسے ٹیکس اور زکوة سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکس کی بات تو سمجھ آتی ہے مگر سود پر زکوة کہاں سے آگئی، اسے لیے کہا ہے راقم نے کہ پاکستان اب بوڑھا ہوگیا ہے۔ ہمیں اس کے بڑھاپے کا احترام کرنا ہوگا، اگر آپ کو شہداءفیملی ویلفیئر اکاؤنٹ کا اجراءکرکے شہداءکو خراجِ عقیدت دینا ہی ہے تو اسے اسلامی سرٹیفکیٹ میں تبدیل کیجئے اور ریٹائرڈ (عمر رسیدہ افراد) کے لئے بھی اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجراءکیجئے، جب پرائیویٹ بینک معمولی سے معاوضے پر اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجراءکرسکتے ہیں تو کیا یہ ادارہ مکمل ادارہ نہیں ہے۔

راقم کی نگراں حکومت کی وزیر خزانہ محترمہ شمشاد بیگم سے التماس ہے کہ وہ شہداءاور بزرگوں کے لئے اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجراءکریں کیونکہ وہ ماضی میں ایک بڑے ادارے اسٹیٹ بینک کی گورنر رہ چکی ہیں، اگر وہ اس پر عمل کرکے اسلامی سرٹیفکیٹ بزرگوں کے لئے اچھے معاوضے پر اعلان کرتی ہیں تو ان کا نام تاریخ کے سنہرے لفظوں میں لکھا جائے گا، یہ میرا ایمان ہے کیونکہ ماضی میں جمہوریت کو تزئین و آرائش کا نام دیا گیا مگر عہد ساز فیصلے نہیں کئے گئے، نگراں حکومت یہ کام کرکے دکھائے اور کروڑوں بزرگوں کی دعا لیں، وزیر خزانہ صاحب بصیرت افروز باتیں اب تو صرف دو اداروں میں دیکھی اور سنی جارہی ہیں، ایک افواج پاکستان اور دوسری سپریم کورٹ۔

راقم کی مودبانہ گزارش ہے قابلِ احترام جناب چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب سے کہ وہ ان معاملات پر از خود نوٹس لیں اور ان بزرگوں کو خدارا سود کی ٹرین سے اتاریں اور اچھے معاوضے پر عمر رسیدہ افراد کے لئے قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا آغاز کرکے ان بزرگوں کو سود کی لعنت سے نکالنے میں بھرپور کردار ادا کریں۔

راقم نے آرٹیکل میں نواز شریف اور اسحاق ڈار جو وزیر خزانہ تھے کو بھی باور کرایا تھا مگر جمہوریت عوام کے لئے ہے اور آئین ان سیاست دانوں کے لئے اور پھر دونوں زمینی طاقت کے باوجود مکافاتِ عمل سے نہ بچ سکے اور آج کہتے ہیں ”ووٹ کو عزت دو“ ارے اسلامی اقتدار کو ”عزت دو“ تو رب تمہیں عزت دے گا اور آج بیشتر سیاست دان عزت کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ”سب سے اچھی کتاب اللہ کی ہے اور سب سے اچھا طریقہ حضور اکرمﷺ٬ کا ہے اور سب سے بڑی بات بدعت (دین میں نئی بات پیدا کرنا) ہے اور بلاشبہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ آکر رہے گا اور تم پروردگار سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتے۔۔۔ (بخاری شریف، صفحہ نمبر 316، حدیث نمبر974)۔

اور آج آپ دیکھ لیں کہ جس نے اسلامی روایات کو طاقتور ہونے کے باوجود نظر انداز کیا وہ دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔ عمر رسیدہ حضرات کو تو اسحاق ڈار نے بے سرو ساماں کردیا مگر آج وہ اس ملک میں آنے سے ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صحت اجازت نہیں دیتی، ڈاکٹروں کا مشورہ ہے، اگر یہ ان عمر رسیدہ افراد کا خیال کرلیتے اور انہیں سود کے عذاب سے بچالیتے جن کی تعداد کروڑوں میں ہے تو آنے والے الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر وہ (ن) لیگ کو ووٹ کی عزت دیتے۔

ووٹ کو تو تباہ و برباد آپ سیاست دانوں نے کیا ہے، اب شہروں میں رہنے والا پڑھا لکھا طبقہ نہ آپ کو ووٹ دیتا ہے اور نہ آپ کی سنتا ہے، اُسے معلوم ہے کہ یہ سب اوچھے ہتھکنڈوں کی کہانیاں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست دان پڑھے لکھے طبقے سے بہت خوف زدہ ہیں، انہیں معلوم ہے کہ دیہاتوں میں رہنے والے تو ہمیں ہی ووٹ دیں گے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ شہروں میں بڑے جلسے کرتے ہیں۔آپ نے کبھی دیکھا کہ انہوں نے سندھ میں رانی پور، گھوٹکی، کوٹری، بدین، خیرپور، ٹنڈو آدم میں جلسے کئے ہوں، آپ نے کبھی سنا یا دیکھا کہ انہوں نے کبھی پنجاب صادق آباد، احمد پور شرقیہ، خان پور، کوٹ ادو، کمالیہ، میاں چنوں، راجن پور میں بڑے بڑے جلسے کئے ہوں۔ انہیں معلوم ہے کہ انہیں سمجھانے کی ضرورت نہیں، یہ غیر تعلیم یافتہ لوگ ہیں، انہوں نے ووٹ ہمیں ہی دینا ہے۔

انہیں خوف ہے کہ کراچی، حیدرآباد، نواب شاہ، سکھر سے۔ انہیں خوف ہے ملتان، لاہور، فیصل آباد، گجرات، راولپنڈی، اسلام آباد سے، اسی لئے یہ یہاں جلسے کرتے ہیں۔ روز صبح کے اخبارات میں نئی پارٹیوں کے حوالے سے دیکھتا ہوں کہ وہ ملک کو مسائل سے نکال کر وسائل میں ڈھالنا چاہتے ہیں، ایم پی اے اور ایم این اے کے لئے درخواستیں طلب کررہے ہیں مگر کسی نئی سیاسی پارٹی نے اپنے اشتہار میں یہ نہیں لکھا کہ ضرورت ہے، ایم این اے، ایم پی ایز کی جو تعلیمی لحاظ سے ایل ایل بی، ایم بی اے، پی ایچ ڈی، سی اے، ڈاکٹر ایف آر سی ایس، ایف سی پی ایس ڈاکٹر، سابق سی ایس ایس ہوں۔ مسائل تو ایسے ہی لوگ حل کریں گے کہ اس بوڑھے پاکستان کو تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ضرورت ہے۔

آپ راقم کی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ فوج اور عدلیہ میں تعلیم یافتہ لوگ فیصلے کرتے ہیں اور کیا خوب کرتے ہیں۔ ان دونوں اداروں کو قوم تعمیری اور مثبت حوالے سے دیکھتی ہے، سیاست دانوں کو چاہیے اور یہ بالغ نظری کا تقاضا بھی ہے کہ خدارا تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ٹکٹ دیں تاکہ وہ دیانت اور تند دہی سے اس بوڑھے پاکستان کے اداروں کی خدمت کریں کہ عوام تو اب اس وطن کی اولادوں کی طرح ہے۔

نسل در نسل مراعات کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے، کوئی سندھی ہے، کوئی مہاجر ہے، کوئی پنجابی، پٹھان ہے اور بلوچی ہے۔ ختم کیجئے اس سلسلے کو اس نے اس ملک کو تباہی کے کنارے لگادیا ہے۔ ہم سب رب کے بندے اپنے نبی اکرمﷺ کے امتی اور ایک پاکستانی ہیں، اور ان کی اولادیں ہیں جنہوں نے 27 ویں شب رمضان المبارک کو ایک اسلامی ملک ’پاکستان زندہ باد ‘ کا نعرہ لگایا تھا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں