The news is by your side.

مائیک پومپیو، عمران خان اور پاکستان

آپ کو یقینا ًوہ تاریخی الفاظ یاد ہوں گے جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس وقت خاص ٹیلی فون کرکے کہے ، جب وہ متنازع انتخابات میں صدر بنے ، اور سب کام باتیں چھوڑ کر جھٹ اپنی سب سے فیورٹ پرسنلٹی کو فون کیا ، اور ایسی تعریفیں کیں کہ بس آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔
وہ فیورٹ پرسنلٹی کوئی اور نہیں، وہ ہیں ۔۔ دا ون اینڈ اونلی ’ میاں نواز شریف‘
ہاں ! یہ اور بات ہے کہ امریکا یا اس وقت کے نومنتخب صدر کی جانب سے اس بیان اور تعریفی کلمات کی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی ۔ارےیاد نہیں آرہا، یا کچھ مسنگ ہے تو بتائے دیتے ہیں۔
٭ ٭ ٭ ٭
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کاصدر منتخب ہونے کے فوراًبعد وزیراعظم پاکستان کو ٹیلی فون کیا، اورکہا
’’تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لیے آپ جو بھی کردار چاہتے ہیں وہ ادا کرنے پر تیار ہوں۔ وزیراعظم نوازشریف بہترین ساکھ رکھتے ہیں اور زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جس کے اثرات ہر شعبہ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔میں شاندار ملک (پاکستان) کے بہترین لوگوں سے ملنا اور خوبصورت مقامات کا دورہ کرنا پسند کروں گا۔‘‘
وزیراعظم نوازشریف آپ سے بات کرتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ ایک ایسے شخص سے بات کر رہا ہوں ،جسے کافی عرصے سے جانتا ہوں۔ آپ کا ملک (پاکستان) بہت حیران کن ہے اور پاکستانی ذہین ترین لوگوں میں سے ہیں۔20جنوری کومیرے عہدہ صدارت سنبھالنے سے پہلے بھی جب چاہیں آپ فون کر سکتے ہیں۔‘‘
ٹرمپ نے وزیراعظم نواز شریف سے بات چیت میں ان سے جلد ملاقات کی خواہش کا اظہاربھی کیا۔
٭ ٭ ٭ ٭
چشمِ بددور ۔۔ کیا بات تھی سابق وزیراعظم پاکستان نوازشریف کی۔ جو حکومت پاکستان میں کرتے تھے اور نوکری دبئی کی ۔اور جائیدادیں تو پوچھیں مت پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھیں ۔ ہر کوئی آگے پیچھے پھرتا تھا کیا شاہانہ انداز تھے ، مودی ہو یا ٹرمپ ہر اک ملنے کا خواہش مند ۔ ملنے کی خواہش بھی ایسی کہ دنیا سے چھپ چھپا کرراتوں کے اندھیروں میں ملاقاتیں ہوتیں ،معاہدے ہوتے ، اور کیا کیا باتیں ہوتیں یہ تو خود ان کی بیگمات کو بھی نہیں پتہ ، سیکیورٹی انچارج اور وزارت خارجہ و داخلہ تودرکنار۔ اک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی ہوا ۔ ساتھ کھانےبھی کھائے گئے ، اور عوام کو دکھانے کے لیے یہ سب اک دوسرے کے دشمن اور قرض دار ۔۔ سوچیں ذرا! سپر پاور امریکا کا صدر خود فون کرکے کہہ رہا ہے کہ مجھے آپ سے ملنے کی چاہ ہے ۔

بس صاحب افسوس تو اس بات کا ہے کہ قواعد و ضوابط آڑے نہ آتے تو نوازشریف کے ہوتے سمے پاکستان بھی سپر پاور بن چکا ہوتا ۔ بلکہ پاکستان ، چاند یا مریخ پر نہیں امریکا پہنچ چکا ہوتا، اتنے اونچے خیال تھے جناب قائدن لیگ کے۔

ویسے اک سیدھی سی بات ہے ، جذبہ بین الاقوامی تعلقات سے لبریز اس وقت کےوزیراعظم کی ٹیم نے سفارتی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی تھی ، قانون کے تحت ٹیلی فون پر ہونے والی بات کا صرف لب لباب پیش کیا جاتا ہے، تفصیلی بیان نہیں دیاجاتا۔ پریس ریلیز میں کہیں بھی دوسرے رہنما کی بات کو من وعن بیان نہیں کیا جاتا، نہ ہی اس کے نام کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ مگر اس وقت پرائم منسٹر ہاؤس کے کرتا دھرتاؤں نے آنکھ بند کرکے بس جی حضوری کی او ر اپنےپاؤں پر خود کلہاڑی مار لی۔

اب سوچیں ذرا!امریکا، پاکستان کو امداد اور قرض دیتا ہے، سود میں اضافہ کرتا ہے ، سخت سے سخت شرائط عائد کرتا ہے ،تو وہ کیونکر پاکستان کی تعریف کرے گا؟امریکا ،انتظامیہ اور اس کا صدر تو ہر وقت پاکستان کوڈومور کہتا ہے ، اب تو امداد میں کٹوتی بھی کردی ہے ۔ اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان میں وہ کون سی خوبیاں تھیں جو صرف ٹرمپ کو ہی نظر آرہی تھیں ۔کسی اور کو نہیں؟ نواز حکومت نے ملک میں ایسی کون سی دودھ کی نہریں بہا دیں جو صرف امریکا کوہی سیراب کررہی تھیں ؟ پاکستان کو نہیں۔

سابق وزیراعظم نوازشریف کا امریکی صدر ٹرمپ سے کوئی پرانایارانہ تونہیں تھا ،مودی اور جندال کی طرح؟

امریکی سیاسی تجزیہ کار وں کے مطابق امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات انتہائی اہم، سنجیدہ، پیچیدہ اور حساس نوعیت کے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستا ن کے وزیراعظم ہاؤس سے ایسا بیان جاری ہونا حیران کن تھا۔ اسی طرح جب سفارتی سطح پر ٹیلی فونک گفتگو کی جاتی ہے تو 3 سے 4 نکات کو جامع الفاظ میں بیان کرکے گفتگو ختم کردی جاتی ہے۔ کوئی ایسا نکتہ نہیں چھوڑا جاتا جس کے باعث دوسرے ملک سے سفارتی تعلقات میں دراڑ آئے۔سب باتوں میں اہم بات یہ بھی تھی کہ سابق وزیراعظم صاحب نے اس وقت کےنو منتخب امریکی صدر کو خود فون کیا تھا۔ باقی تو آپ سمجھ گئے ہوں گے۔

ہم نےتوجب سے ہوش سنبھالا،اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے قبل یا بعد میں کسی پاکستانی وزیراعظم کو امریکی صدر کے ساتھ ون آن ون ملاقات کرتے دیکھا نہ سنا ۔۔ اس کے برعکس من موہن ہوں ، واجپائی یامودی ناشتے کی چائے پر امریکی صدر سے ملاقات پکی ،جھپیاں اور پپیاں الگ ۔

اب تک تو وزیراعظم پاکستان کو سیکرٹری خارجہ یا خالی پیلی کے اہم عہدیداروں سے ملاقات پر ہی ٹرخایا جاتا رہا ہے۔

تبدیلی کی ہواچلی ۔ نئے وزیراعظم آئے ۔ غیرملکی امور کودیکھنے پرکھنے اور جوابدہی کے لیے شاہ محمود قریشی وزیرخارجہ لگادئیےگئے۔ وزیراعظم نے جھٹ پٹ کابینہ کے معاملات طے کیے اور کفایت شعاری پر لگ گئے ۔اب جن کے کھاتوں میں کمی آئی ان کو تیلی لگی ہے ، شورمچانا شروع، ابھی کچھ دن ہی ہوئے ہیں اور سال بھر کا حساب مانگ رہےہیں ۔

صاحب!تبدیلی پلک جھپکتے نہیں آتی ،مسلسل کوشش کرنی پڑتی ہے ، ہاں نئی نئی وزارتیں سنبھالنے والے بچگانہ حرکات ضرورکررہے ہیں اور پرانےسیاسی کھلاڑی بڑے معاملات میں اچھی تبدیلی دیکھنے کے بجائے ان کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اور کچھ وزارت نہ ملنے پر’ میراجی‘ بن گئے ہیں ۔ الٹی سیدھی باتوں سے میڈیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔

نومنتخب وزیراعظم کو مبارکبادوں کے فون آئےتوان میں اک کال امریکی وزیرخارجہ پومپیو کی بھی تھی ۔تہینتی پیغام وصول کرتے ہوئے پاکستانی سیکرٹری خارجہ بھی درمیان میں تھیں ، جنھوں نے وزیراعظم پاکستان اور امریکی وزیرخارجہ کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونگ گفتگو کے پوائنٹس بھی نوٹ کیے ،تاکہ ٹرانسکرپٹ جاری کیا جاسکے ۔ اس سے قبل ہی امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کچھ ایسے جملے بھی شامل کیے گئے جن میں کوئی صداقت نہیں تھی ، پاکستان کے دفترخارجہ نےاس بیان کا نوٹس لیااور تردید کرتےہوئے اسے حقائق کے منافی قراردیا۔

لیکن یہاں حق سچ کا ساتھ دینے کے بجائے حکومت نہ ملنےوالوں کی پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے ، اور اپنوں پر طعن تشنیع شروع کردی ، اپنی باری میں سُن بٹا سناٹا لوگوں نے بھی تبدیلی کے علمبرداروں کومشورے دئیے ، جن کے مشورے میاں صیب کو لے ڈوبے وہ اب دوسروں کو مشورے دے رہے ہیں ، اللہ خیر ہی کرے !۔

کہتے ہیں۔’’ وزیراعظم عمران خان کو پومپیو کی ٹیلیفون کال نہیں لینی چاہیے تھی۔ عمران خان کو نائب صدر پینس یا صدر ٹرمپ سے بات کرنی چاہیے تھی، یہ قومی وقار اور غیرت کا معاملہ ہے ۔نئے پاکستان میں وزیراعظم کو مبارک بادکافون وزیرخارجہ پومپیوکاآتاہے جبکہ پرانے پاکستان میں وزیراعظم کو مبارکباد کا فون امریکی صدر کرتا تھا۔‘‘

سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نےاپنی سیاسی بالیدگی کا ثبوت دیا اور کہا کہ’ امریکی وزیرخارجہ کا بیان ناقابل قبول ہے، وزیر اعظم کے ساتھ اختلاف ضرور ہے مگر امریکی وزیرخارجہ کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ وزیراعظم کو ڈومور کہے۔‘

خیر اب بات کا بتنگڑ نہ بنے اس لیےدفتر خارجہ سے بیان آیا ہے کہ اس تنازعے پر مزید بات نہیں ہوگی ، اب ہمیں سیاسی طور پر آگے بڑھنا ہے ،کام کرنا ہے ۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اورچیئرمین جوائنٹس چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈن فورڈ آج پا کستان کا دورہ کررہے ہیں اور نئی قیادت سے ملاقات کریں گے۔

اہم بات یہ کہ 73ویں جنرل اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم شرکت نہیں کریں گے۔ بلکہ 27 ستمبر سے شروع ہونے والے اجلاس میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان کی نمائندگی کریں گے ، گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے اپنامؤقف پیش کریں گے ،حکومت کی خارجہ پالیسی ، خطے کی صورتحال اور ملکی سیکیورٹی کے علاوہ کشمیر کا مسئلہ بھی اٹھائیں گے۔

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں