The news is by your side.

نظریاتی دہشت گردی۔جنگ سے بڑا چیلنج

آزادی رائے دہی اورافکار کی آزادی پرکسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ انسانی حقوق کا بنیادی جزو ہیں۔ مگر مادر پدر آزادی بھی ممکن نہیں کیونکہ افراد سے ہی معاشرے تشکیل پاتے ہیں اور انفرادی سوچ سے کسی بھی معاشرے کی اجتماعی سوچ جنم لیتی ہے۔ اس لئےانفرادی سوچ کا مثبت ہونا ہی کسی معاشرے کی تعمیر و ترقی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔

بعد ازاں، یہی سوچیں نظریات میں ڈھلتی ہیں اور اگر یہ سوچیں منفی نوعیت کی ہوں تو معاشرے کے نظریات بھی آلودہ ہو جاتے ہیں۔ اور یہ آلودہ نظریات ‘انتہاپسندی’ کا رُخ اختیار کرلیتے ہیں جب انہیں جبراً کسی معاشرے یا گروہ پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے۔ ‘انتہا پسند نظریات ‘ میں جب تشدد کا عنصر شامل ہو جائے تو وہ ‘نظریاتی دہشت گردی’ کہلاتی ہے۔

مثلاً کسی کے خلاف قتل کے فتوے جاری کرنا یا اسے دائرے اسلام سے خارج قرار دینا، جس کا رواج ہمارے ہاں کافی عام ہے۔ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں نظریاتی دہشت گردی کے لئے جو فورم غیر ریاستی عناصر کی جانب سے سب سے زیادہ بروئے کار لایا جارہا ہے وہ سماجی میڈیاہے۔ ان میں سے بھی فیس بک درجہ اول کی حیثیت رکھتا ہے اور ٹویٹر درجہ دوم پر فائز ہے۔ چونکہ سماجی میڈیا کا دائرہ کار بہت وسیع ہے اس لئے غیر ریاستی عناصر اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے پوری دنیا میں بلا امتیاز اور بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ جن میں فنڈنگ، ریکروٹنگ، نوجوانوں کی ذہن سازی، فرقہ ورانہ تشدد کا فروغ سرِ فہرست ہے۔ نیز سماجی میڈیا کے ذریعے انتہاپسندی کو بھی فروغ دیا جارہا ہے۔

انتہا پسندی ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے جس میں تنگ نظری حد سے تجاوز کر جاتی ہے اور آپ کسی دوسرے کی سوچ اور اس کی رائے دہی کی آزادی کو جبراً(بعدازاں مذہب کے لبادے میں) سلب کر دینا چاہتے ہیں۔ آج کل کے اس گوبل ویلج کے دور میں نظریات بہت کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ کیونکہ نظریات کسی معاشرے کی شناخت ہوتے ہیں اور یہی

بین الاقوامی سطح پر کسی ملک کی امیج بلڈنگ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کی پہرے داری کی اشد ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ فریضہ کس کا ہے؟ ریاست کا؟ یا پھر کسی اور کا؟۔

مہذب معاشروں میں ساری ذمہ داریاں ریاست پر نہیں ڈالی جاتی۔ کچھ ذمہ داریاں تعلیمی اداروں اور اہلخانہ پر بھی عائد ہوتی ہیں کہ وہ آگے بڑھیں اور معاشرے کی اعتدال پسند سوچ کیافزائش میں اپنا مثبت کردار ادا کریں تاکہ معاشرے سے ُپر تشدد سوچ کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

بڑھتی نظریاتی دہشت گردی کے مکمل تدراک کے لئےایک اقدام حکومت کی جانب سے بھی لیا جاسکتا ہے جس پر ہمارے ملک میں سالہا سال سے بحث و مباحثے ہو رہے ہیں مگرعملاًنتیجہ تاحال صفر ہے۔ وہ ہے تعلیمی نصاب کا از سر نو جائزہ لینا اور اسے اسلام کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں مرتب کرنا۔ چونکہ تعلیمی ادارے نوجوانوں کی شخصیت سازی کرتے ہیں اس لئے اساتذہ کے انتخاب کے لئے بھی کڑا معیار رائج ہونا چاہئیے۔ اورایسا تو ہرگز نہیں ہونا چاہئیے جیسا ابھی ہو رہا ہے کہ جو کچھ نہ بن سکے وہ استاد بن جائے۔

علاوہ ازیں، نظریاتی دہشت گردی کے وار سے بچاؤ کے متعدد راستے اپنائے جا سکتے ہیں۔ جن میں ایک تو سماجی میڈیا کی کڑی نگرانی ہے جو کہ دنیا بھر میں رائج ہے اور دوسرا مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام متعارف کروانا ہے۔ یقین مانئیے اس سے اسلام کسی خطرے میں نہیں پڑے گا بلکہ متعدد اسلامی ممالک میں تو ایسا ہو بھی رہا ہے۔ مثلاً متحدہ عرب امارات میں مساجد صرف اذان اور نماز کے وقت کھلتی ہیں۔

پاکستان عالم اسلام کی اکلوتی ایٹمی قوت ہے جس کے پاس پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے لیس ایک منظم فوج ہے۔ جس کے باعث پاکستان اسلام دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ اس پر مہرے بدل بدل کر وار کررہے ہیں، نیز یہ طاقتیں پہلے جو کام بلوچ جذبات بھڑکا کر بگٹی سے، قبائلی جذبات بھڑکا کر ملا فضل اللہ سے، قوم پرست جذبات بھڑکا کر اچکزئی سے اور مہاجر

جذبات بھڑکا کر الطاف حسین سے نہیں لے سکیں وہ اب مذہبی جذبات بھڑکا کر چند نام نہاد علماء سے لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ طاقتیں کامیاب ہوتی رہیں گی جب تک ہم اپنے لوگوں کواس قدر باشعور نہ کر دیں کہ وہ دشمن کی چالوں کو بروقت پہچان سکیں اور ان پر ہرگز کان نہ دھریں۔ نظریاتی دہشت گردی کے وار سے مغرب بھی ہرگز محفوظ نہیں۔ جس کی مثال مغرب میں اسلام مخالف بڑھتے جذبات ہیں جنہیں باقاعدہ منصوبہ سازی کے ساتھ پروان چڑھایا جارہاہے۔ مگراس نظریاتی دہشت گردی سے مسلمان نسبتاً زیادہ متاثر نظر آتے ہیں اس کی وجوہات چاہے ناخواندگی ہو یا پھر جہالت ہر صورت میں عالم اسلام کو اس پر مکمل قابو پانے کے لئے جامع حکمت عملی فی الفور ترتیب دینی ہوگی۔

الغرض، اس سارے منظرنامے میں قابل تشویش امر یہ ہے کہ ایک نظریاتی دہشت گرد ایک خود کش بمبارسےنسبتاً زیادہ مہلک ہوتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی جگہ خود کش بمبار کی موجودگی کی پیشگی اطلاع کم از کم حساس ادارے تو حاصل کر سکتے ہیں مگر نظریاتی دہشت گرد کا پتہ چلانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ اس کے وجود کا صحیح اندازہ تب ہوتا ہے جب یہ اپنے مذموم مقاصد کے تعاقب میں لانچ ہو جاتا ہے۔ اس لئے حکومت کو نظریاتی دہشت گردوں اور ان کی نرسریوں پر سخت ہاتھ ڈالنے کی اشد ضرورت ہے اور یہی ہائیبرڈوارفیئر وار سے متعلق حکومت کااگلا چیلنج ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں