طالبان اور امریکا کے مذاکرات مثبت نہج پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوگئے ہیں، امریکا کی جانب سے آئندہ اٹھارہ ماہ میں انخلا کا عندیہ دیا گیا ہے جبکہ طالبان کی جانب سے داعش اور القائدہ کو افغانستان کی زمین استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے، لیکن ابھی بھی بہت سے نکات پر بات ہونا باقی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں افغانستان میں کس طرح کا منظر نامہ تشکیل پارہا ہے اور اس کے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
امریکا اور افغانستان، قطر کے شہر دوحا میں بیٹھ کر براہ راست مذاکرات کررہے ہیں اور یہ مذاکرات کی پاکستان کی مدد کے سبب ممکن ہوئے ہیں۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امریکا اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھا کر پاکستان نے اپنے حصے کا کام کردیا ہے ، اور آگےفریقین کا کام ہے کہ اس سارے عمل کے ذریعے وہ کس طرح خطے کو امن فراہم کرتے ہیں۔
یہاں سے معاملے کو سمجھنے کے لیے ہمیں ذرا ماضی میں جانا ہوگا۔ سنہ 1996 سے لے کر 2001 تک افغانستان پر طالبان کی حکومت رہی ، کابل ان کا پایہ تخت تھا اور ان کے سفارت خانے بھی کئی ممالک میں موجود تھے ، پھر نائن الیون کا واقعہ ہوتا ہے جس کے بعد امریکا افغانستان میں مقیم جہادی قوتوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا فیصلہ کرتا ہے۔ سنہ 2001 کی آخری سہہ ماہی میں امریکی، افغانستان کا رخ کرتے ہیں اور یہاں شروع ہوتی ہے ایک ایسی جنگ جسے اب سترہ برس بیت چکے ہیں۔
جنگ شروع ہوئی تو یہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور پھر اگلے مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے یہاں کے گلیوں اور بازاروں میں در آئی ۔ اس موقع پر بھارت کا تذکرہ بے محل نہیں ہوگا کہ جس نے پاکستان سے اپنی روایتی مخالفت کے سبب اپنے پیسے کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں سفارت خانوں کی شکل میں اپنا پورا نیٹ ورک ترتیب دیا اور بقول پاکستانی فوج کی ہائی کمان کے، پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے وہاں سے بیٹھ کر بھرپور وسائل استعمال کیے۔
موسمِ سرما اورافغانستان میں امیدِ بہار
بالاخرمنظرنامہ تبدیل ہوا، اور سوات میں صوفی محمد کے ساتھ معاہدے کی ناکامی کے بعد پاک فوج نے ایکشن کے ذریعے ایک ایک کرکے پاکستان میں موجود تحریکِ طالبان کے ٹھکانے ختم کرنا شروع کیے اورسرحد پرباڑھ لگانے کا کام بھی شروع کیا، جس کے اثرات بھی نظرآئے اور پاکستان جو کہ روز بم دھماکوں کا نشانہ بنتا تھا ، اب یہ واقعات پہلے کی نسبت انتہائی کم ہوچکے ہیں۔
اس ساری صورتحال سے افغانستان میں ایک ڈرامائی تبدیلی آئی اورامریکا جو ابتدا میں وہاں فتح یاب دکھائی دے رہا تھا ،بالاخر اسی دلدل میں پھنس گیا جس میں اس سے قبل سفید ریچھ یعنی روس پھنس چکا تھا۔
بالاخر امریکا نے طے کیا کہ اب اسے ان پہاڑوں سے اپنی افواج نکالنی ہیں لیکن یہ اتنا آسان کام نہیں ہے ، امریکا کے پاس دو ہی آپشن ہیں ، یا تو وہ اپنا سارا سامانِ حرب یہیں پھینک کر بالکل ایسے ہی نکل جائے جیسا کہ روس نکلا تھا ۔ دوسرا یہ کہ وہ طالبان کے ساتھ ایک باقاعدہ معاہدے کے تحت انخلا ء کرے ۔پہلے آپشن میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکی قیادت میں عالمی دنیا، افغانستان میں سینکڑوں ارب ڈالر جھونک چکی ہے ۔ اب اگر امریکا دم دبا کر راہِ فرار اختیار کرتا ہے توسینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے جو نیا افغانستان تعمیر کیا گیا ہےا ور ایک آئین کے تحت حکومت قائم کی گئی ہے ، یہ حکومت اور یہ سارا نظام طالبان کے بے رحم نشانے پر ہوں گے ،جسے وہ چند ہی مہینوں میں اڑا کر خاک کردیں گے ۔
اس سارے منظر نامے میں ابھی تک افغان صدر اشرف غنی اور ان کی حکومتی انتظامیہ کہیں نہیں ہے ، اور کیوں نہیں ہے اس کی وجہ طالبان کی ضد ہے کہ وہ انہیں حکومت تسلیم نہیں کرتے اور ان کی حیثیت امریکا کی ایک کٹھ پتلی سے زیادہ کی نہیں ہے۔ حالیہ مذاکرات میں بھی افغان طالبان نے تاحال کابل حکومت سے مذاکرات سے متعلق حامی نہیں بھری ہے اور اسے امریکی فوجوں کے انخلا کی ٹائم لائن سے مشروط کردیا ہے۔
دوسری جانب کابل کے صدارتی محل میں موجود اشرف غنی جو کہ مذاکرات کے پہلے دورپر بے حد چراغ پا ہوئے تھے ، اب کی بار انہوں نے بھی تحمل سے کام لیا ہے ، لیکن اپنے بیان میں واضح بھی کیا ہے کہ قطر مذاکرات کا مقصد طالبان کو کابل کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھانا ہے۔
ایک بات تو واضح ہے اور وہ یہ کہ امریکا اور عالمی حکومت ہرگز نہیں چا ہتے کہ ان کے یہاں سے نکالتے ہی سترہ سال کی محنت سے بنایا ہوا یہ نظام ریت کے محل کی طرح زمیں بوس ہوجائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ طالبان اسی نظام میں شامل ہوکر حکومت سازی کا حصہ بنیں اور ایک جمہوری طریقے سے افغانستان میں سیاسی عمل کو آگے بڑھائیں لیکن اس معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ طالبان کا جمہوریت کو شریعت سے متصادم سمجھنا ہے ۔
صدارتی محل میں بیٹھے اشرف غنی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اب ان کے پاس وقت بہت کم ہے، رواں برس جولائی میں افغانستان میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ وقت صرف اشرف غنی کے پاس کم نہیں ہے بلکہ افغانستان میں تمام جمہوری قوتیں وقت کی قلت کا شکا ر ہیں۔ امریکا سمجھ رہا ہےکہ طالبان یہ جنگ مزید ایک لمبے عرصے تک لڑ سکتے ہیں اور خصوصاً جنگ بندی سے انکار کے باوجود امریکا کی جانب سے مذاکرات کو مثبت پیش رفت قرار دینا بتارہا ہے کہ امریکا اب جلدی میں ہے ۔ شاید اس کی وجہ نومبر 2020 میں امریکی انتخابات ہیں، جس میں افغانستان سے باعزت انخلا ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی قوم کی نظروں میں سرخرو کرسکتا ہے۔
اگر افغانستان کی جمہوری قوتیں ماضی کی نسبت اس موقع پر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا بند کرکے اپنے نظام کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ہوجاتی ہیں تو پھر یقیناً افغان طالبان کو بھی انہیں معاملے کا ایک فریق سمجھتے ہوئے مذاکرات تک آنا ہوگا۔ افغان طالبا ن بھی اس سارے معاملے میں وقت کی اہمیت کو سمجھ رہے ہیں۔ انہوں معلوم ہے کہ کابل کی حکومت چند مہینوں بعد انتخابی عمل میں جانے والی ہے اور اگر اس یہی صورتیں ایک بار پھر برسرِ اقتدار نہیں آتی ہیں تو حکومت سازی کے لیے نئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا ایک نیا دور شروع کرنا ہوگا۔ امریکی بھی اس صورتحال کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں اور عین ممکن ہے کہ مذاکرات کے دوران افغان طالبان کی جانب سے یہ مدعا اٹھایا بھی گیا ہو کہ وہ اس حکومت کے بجائے آئندہ حکومت سے مذاکرات کو ترجیح دیں گے۔
افغان طالبا ن کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے واضح کیا جاچکا ہے کہ جب تک امریکی انخلا کا معاملہ طے نہیں ہوجاتا ، تب تک دیگر معاملات میں پیش رفت نا ممکن ہے۔ طالبان کے لیے ماضی میں خدمات انجام دینے والے سید اکبر آغا جو کہ ابھی بھی طالبان کی اعلیٰ قیادت سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سےمذاکرات کو حوصلہ افزا قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دونوں قوتیں امن معاہدے کے انتہائی قریب ہیں۔
کابل کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ انہوں نے جن پتوں پر تکیہ کیا تھا ، اب وہ ہوا دے رہے ہیں۔ امریکی افواج کی مدد کے بغیر افغان فورسز کے لیے طالبان کا مقابلہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔ کابل حکومت نے ماضی میں بھارت نوا ز رویہ اپنائے رکھا ہے اور اسلام آباد سے ان کے تعلقات خاص خوشگوار نہیں رہے ، جس کے سبب پاکستان جو کہ اس سارے معاملے کا سب سے اہم فریق ہے ، شاید کابل حکومت کی مدد کرنے کے بجائے خطے میں قیام امن کے لیے افغان طالبان کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور دیکھنا زیادہ پسند کرے۔ بھارت افغان طالبان کے معاملے میں کابل کی کسی بھی صورت مدد کرنے سے قاصر ہے کہ نہ تو وہ ان پر سفارتی اثر ورسوخ کرتا ہے اور نہ ہی زمینی راستے سے کسی طور کابل حکومت کی مدد کو آسکتا ہے۔
یقیناً اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ خطرہ کابل کی حکومت کو درپیش ہے، اور ان کی اولین خواہش ہے کہ طالبان امریکا کی خطے میں موجودگی میں ہی ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آکر بیٹھ جائیں اور ملک پر حکومت سازی کے لیے ایک متفقہ عمرانی معاہدہ تشکیل پاجائے۔ لیکن یہ سارے معاملات ابھی ابتدائی اسٹیج پر ہیں اور آنے والے موسمِ بہار میں بھی شاید افغانستان امن کی بہار نہ دیکھ سکے ، لیکن ایک امید ضرور ہوچلی ہے کہ سترہ سال سے جاری یہ جنگ اب اپنے آخری اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔