The news is by your side.

دہشت گرد کو گولی کہاں مارنی ہے؟

آج تیسرا دن ہورہا ہے۔ راولپنڈی میں ناکے پر موجود سپاہی محمد زعفران شہید ہو گیا ، اس کے ساتھ موجود دیگر اہلکار گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے لیکن مجھے سوشل میڈیا پر کوئی ہلچل نظر نہیں آئی ۔ مجھے کسی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کا بلاگ نہیں ملا، مجھے کسی دانشور کالم نگار کا قلم ہلتا نظر نہیں آیا ، مجھے انسانی حقوق کے علم برداروں کا دل دھڑکتا محسوس نہیں ہوا ، کہیں شمع جلی نہ کہیں کتبے اٹھا کر اظہار یکجہتی ہوا ۔ بس راولپنڈی پولیس لائن میں آئی جی پولیس امجد جاوید سلیمی ، آر پی او ، سی پی سمیت کچھ پولیس آفیسر اور اہلکار اکٹھے ہوئے اور شہید کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ،شہید کے دوستوں نے آنسو بہائے ، زخمی ساتھی ہسپتال کے بیڈ سے سر ٹکراتے روتے رہے اور داستان ختم ہو گئی ۔

اس شخص کی داستان جس کی شادی کو سات سال ہوئے تھے ، جس کی پولیس سروس صرف چھ سال تھی اور جس کے دو چھوٹے بچے تھے ، جس کی بیوی اب شہید کی بیوہ ہے ۔ جس کے بچے یتیم ہیں ۔ یہ سوال مجھے سماج کے دانشوروں سے پوچھنا ہے ۔ کیا واقعی شہید سپاہی کی داستان یہیں تک تھی ؟ کیا داستان ختم ہو گئی؟۔

ایک اور سوال بھی ذہن میں آتا ہے ۔ اگر سپاہی زعفران شہید نہ ہوتا ، اگر وہ مدمقابل دہشت گرد کو گولیاں مار دیتا ۔ اگر پولیس اہلکار بھی بچ جاتے اور حملہ آور مارا جاتا تو داستان کہاں تک جاتی؟۔ سوشل میڈیا کے دانشور اس دہشت گرد کے حق میں پوسٹ لگاتے ، بلاگر بلاگ لکھتے ، دانشور کالم لکھتے ، دو چار پروگرام ہوتے ۔ تاویلیں گھڑی جاتیں کہ زعفران نے گولی کیوں چلائی ، چلائی ہی تھی تو ٹانگ پر کیوں نہ ماری ، زخمی کیوں نہ کر دیا ، میدان عمل کی صورت حال سے نا بلد دانشوروں کی تاویلوں اور دلیلوں کی بدولت زعفران کے خلاف انکوائری ہوتی اور ممکن ہے وہ معطل بھی ہو جاتا ۔

صاحبو ! خبر ہو کہ راولپنڈی میں پنجاب پولیس کا سپاہی زعفران حملہ آور کی ٹانگ تلاش کرتا رہا لیکن کمبخت حملہ آور نے ٹانگ آگے نہیں کی ۔ دشمن کی ٹانگ دیکھ کر گولی مارنے کے چکر میں سپاہی زعفران شہید ہوگیا۔ آئی جی پنجاب اور راولپنڈی کے آر پی او ، ڈی پی او سمیت اس کے دیگر افسران اور ساتھیوں نے جمعہ کی صبح شہید سپاہی کو سیلوٹ کیا، اس کی نماز جنازہ ادا کی ، ایک دوسرے کو گلے لگا کر زعفران کا پرسہ دیا اور یوں ہماری بے حسی کی یہ داستان ختم ہو گئی۔

شاید کبھی ہم ایسا کوئی سر پھرا سوال پوچھ لے کہ سوشل میڈیا جتنا کسی دہشت گرد کی موت پر روتا ہے اس سے آدھے آنسو اپنے شہیدوں پر کیوں نہیں بہاتا؟۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں