The news is by your side.

”اربابِ اختیار کے مزے ہیں“

پورے ملک میں بجٹ کے نام پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگ اپنی رائے دے رہے ہیں، ادھر سیاست دانوں نے جو اپوزیشن سے ہیں، عوامی پذیرائی کا خلوص بھرا جھنڈا اٹھا رکھا ہے اور خود کو کولہو کا بیل ثابت کرنے کی کوشش میں سر دھڑ کی بازی لگادی ہے۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس کالم کا آغاز کیسے کیا جائے، بنیادی نقطہ تو اس مفلوک الحال قوم کا ہے جب تک قوم کو بنیادی سہولتیں نہیں دی جاتیں اور متوسط طبقے کے بارے میں حکومت سنجیدگی سے نہیں سوچے گی، جب تک اپوزیشن بے مقصد تصادم سے وابستہ رہے گی۔

دالیں، سبزیاں، دودھ، چینی، مرغی کا گوشت اور چائے پر بھی ٹیکس لگادیا گیا ہے، اگر حکومت ٹیکس لگا کر ملک کی معیشت کو بحال کرنا چاہتی ہے تو ریسٹورنٹ جو اعلیٰ درجے کے ہیں، ان پر ٹیکس کا بوجھ ڈالے جبکہ وہ ٹیکس بھی گاہک ہی دیں گے مگر وہاں آنے والوں میں یہ افراد نہیں ہیں جنہیں ہم مستری، پلمبر، ٹھیلے والے معمولی کلرک کہتے ہیں، یہ بے چارے تو ایسے ہوٹل کے سامنے سے گزرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ اگر آپ کو ٹیکس لگانا ہے، بے شک وہ دوسو فیصد ہو تو ان اشیاء پر لگائیں، سگریٹ، پان، چھالیہ، کتھا، میک اپ کا سامان، موبائل، امپورٹڈ پرفیوم، گاڑیاں، منرل واٹر یہ ترجیحات ہیں امیروں کی، غریبوں کا اس سے کیا تعلق۔

ایک سال قبل میں نے کالم میں لکھا تھا کہ اگر مرغی کے ریٹوں پر توجہ نہ دی گئی تو یہ گائے کے گوشت کا مقابلہ کرے گی، پچھلے دنوں مرغی320 روپے میں فروخت ہورہی تھی جبکہ گائے کا گوشت475 روپے کلو فروخت ہورہا تھا۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ مرغی کھاﺅ، زبان کا ذائقہ کہتا ہے کہ گائے کا گوشت کھایا جائے۔

بھلا بتائیے اربابِ اختیار تو دونوں کے مزے لوٹ رہے ہیں جبکہ غریب افراتفری کا شکار ہے، اس قوم کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ اتنی سختیاں جھیلے گی۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ آ بیل مجھے مار والی کہاوت نہ کرے، جبھی تو اپوزیشن زبردستی گفتگو کے دریا میں اترگئی ہے۔

اس وقت اپوزیشن مصلحتوں سے کام لے کر حکومت کے لئے تمام راستے معدوم کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہے، اگر حکومت توجہ دے تو بجٹ خسارے کو کم کیا جاسکتا ہے،20 کروڑ عوام میں8 کروڑ عوم تو وہ ہے جو روٹی کی بھی محتاج ہے، اس وقت اپوزیشن اعداد و شمار کا کھیل کھیل رہی ہے، وزیراعظم اور ان کی کابینہ اس پر توجہ دیں۔

ادھر وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آﺅں گا، حکومت کیا میری جان بھی چلی جائے، چوروں اور ڈاکوﺅں کو نہیں چھوڑوں گا۔ مانا کہ عمران خان بحیثیت وزیراعظم اس پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنا چاہتے ہیں اور یہ بات حقیقت ہے کہ وہ جس منصب پر فائز ہیں، اپنا کام بہت ایمانداری سے کرنے کی کوششیں کررہے ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔ رب ذوالجلال انہیں ہمت دے کہ وہ اس بے سرو ساماں قوم کی خدمت بہتر انداز میں کریں۔20سال میں اس ملک کو کیسے لوٹا گیا.

اب وزیراعظم کہتے ہیں کہSECP,FIA,FBR,ISIاورIBپر مشتمل کمیشن تحقیقات کرے گا۔ 20 سال سے تیری باری اور میری باری نے قواعد وضوابط کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک جن سیاست دانوں، بیورو کریٹ نے تشویش ناک حد تک بینکوں سے قرضے لے کر معاف کرائے ہیں، ان کے کھاتے کھولے جائیں اور یہ معاف کرائے گئے قرضے واپس لئے جائیں تو شاید ہمIMFْسے50 فیصد قرضوں سے جان چھڑالیں اور اس قوم کو یقین ہے کہ یہ کام صرف اور صرفISIکرسکتی ہے کیونکہ یہ گمنام سپرہٹ ہیرو ہوتے ہیں۔

قوم کے تعلیم یافتہ، مکتبہ فکر کے لوگ بھی دل وجان سے یہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی صوبے میں جہاں جہاں ہاﺅس بلڈنگ کام کررہی ہے، وہاں اگر کوئی غریب صرف دو بیڈ روم کی ایک قسط اداکرنے میں غربت کی وجہ سے ناکام ہوجائے تو اس غربت کے مارے کی توہین وتذلیل کی جاتی ہے۔

واجب الاحترام وہ غریب جو پیٹ کاٹ کر باقاعدگی سے ہاﺅس بلڈنگ کی قسطیں مکرو فریب سے بالاتر ہو کر ادا کرتا ہے، لہٰذا کمیشن کو چاہیے کہ20 سال میں جو صاحبِ حیثیت لوگ اور سیاسی حضرات نے بینکوں سے قرضے لے کر معاف کرائے، ان سے پائی پائی وصول کی جائے۔ آخر اس مملکتِ خداداد میں غربت کے مارے لوگوں کو کیوں کچلا جارہا ہے، جنہوں نے اختیاراتی دستانے پہن رکھے ہیں، وہ قرضے معاف کراکر بھی شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں، لہٰذا وزیراعظم پہلی فرصت میں اس کمیشن پر توجہ دیں اور انہیں کھل کر مکمل آزادی کے ساتھ کام کرنے دیں۔

قوم مہنگائی اور مشکلات کے باوجود خان صاحب آپ کا ساتھ دے رہی ہے، لہٰذا بینکوں سے لئے گئےتمام قرضوں کو جو معاف کرائے گئے ہیں، ان سے یہ کمیشن پائی پائی وصول کرے اور اس کمیشن میں ایسے لوگوں کو شامل کیا جائے جو معاشرتی اقدار، ضابطہ اخلاق کے امین ہوں۔
خان صاحب آپ نے لاقانونیت پر عمل پیرا ہونے والوں کے لئے دروازہ کھٹکھٹایا ہے تو پھر ہمارے آئی ایس آئی کے ہیرو اس دروازے کو اعزاز واکرام کے ساتھ کھولیں گے، چاروں صوبوں کا کوئی پرسان حال نہیں، لوٹا ماری اور کرپشن نے قانونی تقاضوں کو کچل کر رکھ دیا ہے۔

قرضے کسی منصوبہ بندی کے لئے نہیں بلکہ اپنے مفادات کے لئے لئے گئے، جنہوں نے قرضے لئے وہ محلوں میں رہتے ہیں، غربت کا مارا دو کمرے کے فلیٹ کے لئے کئی دہائیوں تک لمحہ فکریہ کی گردش میں رہ کر اپنے تحفظات کی بھیک مانگتا رہتا ہے، یہ کیسا انصاف ہے؟ اب ان بگڑے نوابوں کا بھی مکافاتِ عمل ہونا چاہیے، خان صاحب شکوک وشبہات سے برملا ہوکر سب کو کھڑا کریں، محمود و ایاز کی طرح آئین اور جمہوریت کا راگ الاپنے والوں نے اس قوم
کی زندگی کی مانگ اجاڑ کر رکھ دی ہے۔ 20 سال سے یہ قوم معاشی طور پر بانجھ ہوچکی ہے، بحرانی کیفیت کی وجہ سے عوام غلیظ اور بدبودار نظام کی وجہ سے ہیجانی کیفیت کا شکار ہے، لہٰذا یہ کمیشن اب اس اکتاہٹ کے سفر کا اختتام کرے تاکہ اس ملک کو ملیامیٹ کرنے والوں کا سیاسی درجہ حرارت اپنے انجام کو پہنچے۔

ان حالات کی وجہ سے غربت کی ماری اس قوم کی آنکھیں تو ہیں مگر بینائی کام نہیں کرتی۔ رب کریم اس کمیشن کو کامیابی سے ہمکنار کرے اور وزیراعظم عمران خان اس بحرانی کیفیت کو کامیابی سےالوداع کہہ سکیں۔ قومی اسمبلی روز مچھلی بازار کا منظر پیش کررہی ہوتی ہے، MNA اورMPA اپنی پارٹیوں کو بچانے کے لئے مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں، مسائل کا حل نکالنے کے بجائے اس پر خوشنودی کے چراغ جلائے جاتے ہیں۔

پنجاب کی طرف دیکھیں تو لاہور کی آبادی کینال روڈ سے گزرتی ہے،30 ہزار چنگچی رکشے بند کردیئے گئے، اب کیوں بند کئے اس کا جواب تو ان کے پاس بھی نہیں، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ چاروں صوبوں کے وزیراعلیٰ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کو دعوت دیں کہ وہ کثیر تعداد میں بس روڈ پر لائیں، انہیں ہر قسم کا تحفظ دیا جائے گا مگر چونکہ یہ عوام کے مسائل حل کرنے کا معاملہ ہے، لہٰذا اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔ ہم جیسے کم عقل صحافی کا ذہن تو کام کرتا ہے مگر یہ اسمبلی کے بادشاہ جو وزیراعلیٰ کہلاتے ہیں تو کیا ان کے ذہن میں نئی تجاویز نہیں آتی ہیں۔

دعوے سے کہتا ہوں کہ کسی بھی صوبے کے وزیراعلیٰ بھیس تبدیل کرکے چنگچی رکشہ میں سفر کریں۔ اگر عوامی رحم دل ہوں گے میرا دعویٰ ہے کہ وہ شاید وزارت سے استعفیٰ دے کر قدرت کے سامنے سرخرو ہوں گے مگر یہاں تو گدی نشین نسل در نسل چل رہی مگر ان کے باہمی اختلافات
نے قوم کو مٹی کی پازیب پہنادی ہیں، یہ ہزار سی سی گاڑی میں سفر نہیں کرسکتے پھر چنگچی تو ان کی پہنچ سے لاکھوں میل دور ہے۔ کیا اسے آپ جمہوریت کہتے ہیں، پاکستان میں تو جمہوریت کو ان سیاست دانوں نے بچے کا کھلونا بناکر رکھ دیا ہے۔

بس ان کی سوچ ہے کہ جمہوریت کا دیا جلتا رہے اور اس جمہوریت کے سایہ تلے رشوت ستانی، قتل وغارت گری، انسانیت ناپید، غرض اب قانون افادیت کھوتا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر آنکھوں دیکھا حال دکھایا جارہا ہے، مجال ہے کہ دکھایا جانے والا واقعے پر اس سے وابستہ کسی وزیر نے دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہو، سب اپنی مستی میں مست ہیں اور ہمارے کچھ سیاست دان اس سوشل میڈیا کو بہت برا سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ کسی کی ذاتی زندگی پر روشنی ڈالنا ہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے اس سوشل میڈیا نے قوم کی آنکھیں کھول دی ہیں، جس کی وجہ سے کچھ سیاسی حضرات بہت پریشان ہیں مگر مسائل کو حل نہ کرنے کی انہوں نے قسم کھا رکھی ہے۔

غور وفکر، عمل پیرا جیسے جملے تو ان سیاست دانوں کی نگاہ میں لفاظی جملے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بے شک ایسے واقعات دیکھنے کے بعد قوم کا وقار مجروح ہوتا رہے تو اس بات کو ہم یقینی طور پر مان لیں کہ مسائل کی کھڑکیاں بند ہوں گی تو سیاست بھی زندہ رہے گی۔

صوبوں میں صحت، ٹریفک، بدعنوانی، رئیس زادوں کے منہ زور گھوڑے، پانی، الیکٹرک، قتل وغارت گری، ٹرانسپورٹ۔۔۔ غرض ہر شعبے کے وزراءموجود ہونے کے باوجود ضابطہ اخلاق کی تدفین ہوچکی ہے،آئین سیاست دانوں کی بلند وبالا عمارتوں کی شکل اختیار کرچکا ہے جبکہ قوم یہ چاہتی ہے کہ آئینی ذمے داریوں کو والہانہ انداز میں پورا کیا جائے لیکن سیاست دانوں نے آئینی دکانیں جو ان کی نگاہ میں روحانی ہیں، کھولیں یا نہیں مگر اظہار مذمت کا نقطہ ان کی نگاہ میں چھوٹا ہے، جبھی یہ اسے استعمال نہیں کرتے۔ آخر میں غریب کے پاس ایک ہی نقطہ رہ جاتا ہے کہ

۔۔۔رہے وطن سلامت۔۔۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں