یوسف ابوالخیر
مولانا کا مارچ اور دھرنا اس وقت حالات حاضرہ کا اہم موضوع اور شہہ سُرخیوں میں ہے۔ خاکسار کے ذہن میں اس بابت چند سوالات کلبلا رہے ہیں جو تسلی بخش جواب چاہتے ہیں اور اس حوالے سے راہ نمائی کی غرض سے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
سب سے پہلے اگر ہم مارچ کا نقطۂ آغاز دیکھیں تو جے یو آئی کی جانب سے مذہبی کارڈ کا استعمال دکھائی دے گا لیکن پھر ان مذہبی نعروں اور مطالبات پر خالص سیاسی اور حریفانہ کشاکش غالب آگئی جسے بعض صاحبانِ بصیرت نے مولانا کی تحریک کا اصل محرک بھی قرار دیا ہے۔
ملک کی بڑی اپوزیشن جماعتوں نے اصول پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مولانا کی اُس پِچ پر کھیلنے سے انکار کردیا جس پر بہرحال بلاول کو کریڈٹ دینا بنتا ہے۔ مگر مولانا نے اپنے سیاسی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے سڑک پر آنا ضروری جانا اور مذہبی کارڈ سے یوٹرن لیتے ہوئے دھرنے کا رُخ پھیر دیا وزیراعظم کے استعفے کی جانب۔
اگر حکومت کی موجودہ حالت کا جائزہ لیا جائے تو بادی النظر میں وزیراعظم کی نظریاتی سمت تو کم از کم درست دکھائی دیتی ہے، کیونکہ اب تک کوئی ایسی قانون سازی یا حکومتی اقدامات سامنے نہیں آئے جس سے آئین کی اسلامی دفعات کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔ بلکہ اقوام متحدہ میں وزیراعظم پاکستان نے جس مدلل اور بے باکانہ انداز سے اسلام اور پیغمبر اسلام کی شان کا مقدمہ لڑا، اس پر خود مذہبی حلقے وزیراعظم کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ ہاں البتہ معیشت اور گورننس کا جائزہ لیا جائے تو اس پر مزید توجہ دینے کی ضرورت بہرحال ہے، مگر اسے ناکامی تو نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت نے معیشت کی بہتری کے لیے مشکل فیصلے کیے ہیں جس سے ٹیکس چوروں کی چیخیں بھی سنائی دیں اور بڑے لٹیروں پر بھی ہاتھ ڈالا گیا۔ لہٰذا دونوں معاملات کا جائزہ لینے کے بعد بہرحال کسی بھی حکومت کی کامیابی یا ناکامی محض چودہ پندرہ ماہ میں تو ٹٹولی نہیں جاسکتی۔ برسوں کے بدترین بگڑے ہوئے حالات و معاملات کی درستی کے لیے وقت تو درکار ہوتا ہی ہے، ساتھ میں اقدامات بھی لازم ہیں۔
اب واپس آتے ہیں دھرنے کی جانب۔ مولانا کے کنٹینر پر تمام چھوٹے بڑے سیاسی اداکاروں کی تصویریں، حتیٰ کہ قوم پرست اور خاتون رہنما تک کی تصویر موجود ہے، اگر کسی کی نہیں ہے تو سپریم کورٹ سے سرٹیفائیڈ صادق اور امین سینیٹر سراج الحق کی نہیں۔ جماعت اسلامی دینی فکر اور اپوزیشن میں ہونے کے باوجود دھرنا اسٹیج پر موجود نہیں ہے، مگر حکومت کی خاموش تائید بھی نہیں کررہی، بلکہ اپنے کارکنان اور حامیوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ میدانِ عمل میں موجود ہے۔
اسی طرح کرپشن کی بات کی جائے تو پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان کی مانند جے آئی چیف سراج الحق ایسے سیاست داں ہیں جن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ اور وہ دھرنا اسٹیج پر موجود نہیں ہیں، جب کہ وہ لوگ اسٹیج پر ہیں جن پر الزامات ہیں۔
اب آتے ہیں سب سے اہم سوال کی جانب کہ عمران خان نااہل ہیں اور ان کو ہٹایا جانا ضروری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پھر کون ہو گا اگلا وزیراعظم؟ سیاسی پنڈتوں کے مطابق مولانا کے ہاتھ میں تو وزارت عظمیٰ کی لکیر ہی نہیں، تو پھر اقتدار کسے سونپا جائے گا؟ ان کو جو ملک کو اس حالت تک پہنچانے کے جرم میں شریک رہے ہیں؟ وہ جو کل تک ایک دوسرے پر کرپشن کے کیسز بناتے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹا گیا قومی خزانہ نکالنے کے اعلان کرتے رہے ہیں؟ یا وہ جو ان لوٹ کھسوٹ کرنے والی پارٹیوں اور انھیں این آر او دینے والے سے اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرتے رہے ہیں؟
اگر دھرنے کا انجام انھی چوروں لٹیروں کو پھر سے مسلط کرنا ہے تو کوئی صاحبِ عقل کیسے اس دھرنے کی حمایت کر سکتا ہے؟ دوسرا اگر دھرنے سے ہونے والے انتشار کی صورت میں مارشل لا کو جواز ملتا ہے تو بھی کوئی محب وطن ایسے دھرنے کی حمایت پر آمادہ نہیں ہوگا۔
اب آپ خود بتائیے کہ دھرنے کی کن اخلاقی و اصولی بنیادوں اور کس نتیجے کے امکان پر حمایت کی جائے؟؟