The news is by your side.

نوجوان بالخصوص طالبِ علموں کی کتب بینی سے دوری میں انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز کا دخل

مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ شخصیات کا شائستہ زرؔیں سے اظہار خیال

سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر

کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر (پیرزادہ عاشق کیرانوی)

بلاشبہ اچھی کتاب کسی چراغ اور پھول کی مانند ہوتی ہے جس کی روشنی اور مہک کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ کتاب کی اہمیت اور کتب بینی کی افادیت اجاگر کرنے کے لیے ہر سال 23 اپریل کو کتاب کا دن دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس سلسلے کا آغاز 1995 ء سے ہوا۔

ربع صدی گزر گئی، اس عرصے میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں کئی تبدیلیاں آئیں اور اس کا دائرہ نہ صرف تعلیمی اداروں اور دفاتر تک وسیع ہو گیا بلکہ عوام النّاس کی ان تک پہنچ مشکل نہ رہی۔ جدید ذرایع ابلاغ اور سوشل میڈیا وہ کارآمد اختراع اور ایجادات ہیں جن کے بے محل اور غیر ضروری استعمال نے ہمیں کتابوں سے دور کر دیا۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ مغرب میں ایسی ایجاد ات کا فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ کتب بینی کی عادت کو بھی فروغ دیا گیا اور کتاب پڑھنے کا رجحان برقرار رہا۔ مغربی دانش ور کارلائل نے کہا تھا کہ ’دُنیا پر صرف کتابیں ہی حکم رانی کر رہی ہیں۔“ بلا شبہ عرصۂ دراز تک کتابوں کی بدولت ہی مسلمانوں نے دنیا کو اپنے علم و فضل اور ایجادات سے مرعوب کیا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب مسلمانوں کی میراث اُن سے چھن گئی۔ مگر دوسری طرف جب اسلامی تہذیب کی اس درخشاں روایت کو غیر مسلموں نے اپنایا تو حیرت انگیز اور برق رفتاری سے ترقی کی۔ بقول علامہ اقبال

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی

جو دیکھیں اُن کو یورپ میں تودل ہوتا ہے سی پارہ

ہماری نوجوان نسل میں کتب بینی کا وہ ذوق و شوق نہ رہا جو اُن کے بڑوں میں تھا۔اس کا سبب؟ اب کتاب کلچر ہماری بے اعتنائی کا شکار ہو کر رفتہ رفتہ ہمارے درمیان سے اٹھتا جا رہا ہے۔ اس کی جگہ اب موبائل اور انٹر نیٹ پراکثر غیرمفید اور سراسر تفریحی سرگرمیوں نے لے لی ہے۔ کتاب پڑھنا آج کے نوجوان کو اب وقت کا زیاں محسوس ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا موبائل اور انٹرنیٹ نے ہی کتاب کی جگہ لے لی ہے یا کتاب اور مطالعے سے ہمارے نوجوانوں اور طالب علموں کی دوری کے اور بھی اسباب ہیں؟ اس پر قابو پانے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اس پر اے آر وائی نے چند اہلِ علم اور مختلف شعبوں سے وابستہ شخصیات سے بات چیت کی۔ کتابوں کے عالمی دن کی مناسبت سے یہ سروے رپورٹ پیش خدمت ہے۔

لبنیٰ غزل (قلم کار، لائبریرین)

کتاب علم کا منبع اور معلومات کا خزانہ ہے۔ زمانے کی تیز رفتار ترقّی نے علم حاصل کرنے کے تیز ترین ذرائع بھی حاصل کر لیے جن میں انٹرنیٹ کی بدولت معلومات کے حصول نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ اب ایک ذرا سی جنبش سے معلومات آپ کی ہتھیلی پر آجاتی ہے۔ اور کتاب تک رسائی کے لیے لائبریری جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ تیز ترین ذرائع وقت کی بچت تو کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود میرے نزدیک کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔انٹرنیٹ کے علاوہ اور بھی عوامل ہیں جنھوں نے کتاب کو اپنے قاری سے دور کیا ہے۔ انٹرنیٹ پر کسی کتاب کا مطالعہ کرنے سے وہ ذہنی آسودگی یا تسکین حاصل نہیں ہوتی جو ایک شائق کو کتاب کو چُھو کر اور اس کی خوشبو محسوس کر کے ہوتی ہے، ”ای بک“ سے موبائل کی اسکرین پر لفظ تو ہوتے ہیں مگر وہ ذہن میں محفوظ نہیں رہتے، میرے خیال میں یہ ای بک کا ایک نقصان ہے۔ کتاب سے فاصلہ کم کرنے کے لیے بچے کو ابتدا ہی سے کتاب سے رغبت دلائی جائے۔ بحیثیت لائبریرین میں اپنے اسکول میں بچّوں کو کتاب سے محبت کرنا اور کتاب کا احترام کرنے کا درس دیتی ہوں۔ دوسری جماعت سے لے کر میٹرک تک کی بچیاں شوق سے کتابیں پڑھتی ہیں۔ ہر اسکول میں کتب خانہ ہونا چاہیے۔ ناشرین اپنی کتابوں کی قیمت پر توجہ دیں تاکہ کتاب اپنے قاری تک آسانی سے پہنچے۔ حکومتی سطح پر ہر علاقے میں کتب خانے قائم کیے جائیں، جہاں اچھی اور معیاری کتابیں عام قاری کے لیے رکھی جائیں۔ کتاب سے فاصلہ کم کرنے کے لیے ہر سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ نہ کہنا پڑے کہ ”یہ کتابوں سے عشق کی آخری صدی ہے۔

سیما لیاقت (ماہرِ‌ نفسیات)

سوشل میڈیا کی دنیا میں بہت زیادہ گلیمر پایا جاتا ہے۔ نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ یہ کشش کئی دوسری جگہ دوری کا سبب بن گئی ہے۔ مثلاً طلباء نے ورق گردانی کو ایک عادت جانا، وہ کتاب کے صفحات پلٹنے کے بجائے سرچ انجن کے ذریعے براہِ راست وہاں جانا چاہتے ہیں جہاں سے ان کا تحقیقی اسائنمنٹ باآسانی اور کم وقت میں تیار ہو جاتا ہے جسے دورِ جدید میں Copy Paste کہا جاتا ہے۔ اس طرح نوجوانوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو زنگ لگا۔ وہ اب کچھ بھی کھوجنے کے قابل نہ رہا، بس صرف کردینا ہے، سیکھنا کیا ہے؟ اس سے کوئی مطلب نہیں۔ سرچ انجن کے علاوہ soft copy میں بھی کتاب کا مواد موجود ہوتا ہے۔ اس میں براہِ راست مطلوبہ معلومات پر چھلانگ لگائی اور جو حاصل کرنا تھا کر لیا۔ کتب بینی کے وقت فرد کئی معاملات کو سمجھ رہا ہوتا ہے اسے اپنے موضوع کے ساتھ دل چسپ مواد مل جاتا ہے۔ جس سے اس کی تمہید مضبوط ہوتی ہے۔ کچھ چیزوں کی اپنی افادیت ہوتی ہے، کوئی کسی کی جگہ نہیں لے سکتا۔ سوشل میڈیا سے ہماری سانسیں نہیں چلتیں۔ ہمیں یہ اپنے آپ کو باور کرانا ہو گا۔ ہمارے ملک کی کئی ہستیاں اپنے علم اور کتاب دوستی کی بدولت ہی محترم کہلاتی ہیں۔ کچھ غلطی ہماری بھی ہے کہ ہم نے چھوٹے چھوٹے بچّوں کے ہاتھوں میں موبائل فون پکڑا دیے۔ ترقّی یافتہ ممالک میں بچّے کو اس کی ذہنی سطح اور عمر دیکھتے ہوئے موبائل دینے نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مگر ہم نے ہر چیز پسِ پشت ڈال دی ہے۔ اگر اس کو روکا نہ گیا تو کچھ بعید نہیں کہ ہمارے پاس سوچنے سمجھنے والے دماغ کم ہو جائیں۔

فرحان سعید(سینئر فیکلٹی میمبر، مینجمنٹ اکاؤنٹینسی)

پچھلے پچاس سال حیاتِ انسانی کے ارتقا کے وہ سال گزرے ہیں جس میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جدید دنیا کی سب سے بڑی ایجادات رہی ہیں اور ان کی بدولت معاشرے کے تقریباً تمام ہی شعبوں میں انقلابی صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔ کل اور آج کی زندگی میں بھی نمایاں فرق اسی کی وجہ سے ہے۔ کتب بینی اور لائبریری کے استعمال سے پہلے قدیم دور میں‌ قصہ خواں لوگوں کو داستانیں سنا کر محظوظ کرتے تھے۔ بعد میں ترقی کر کے تحریری شکل میں یہ سب کتابوں کی صورت میں انسان تک پہنچا۔ وقت بدلا اور کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے کتابوں کو سوفٹ ویئر کی مدد سے ایک نئی شکل میں مہیا کر دیا۔ آج کا طالب علم اب ڈیجیٹل لائبریری سے مستفید ہو رہا ہے۔ یوں وہ کتابوں سے تو نہیں البتہ یہ کہہ لیں‌ کہ اُردو زبان و ادب سے دور ضرور ہو گیا ہے۔ شاید اس میں والدین کی طرف سے بھی کوتاہی کی گئی ہے۔

انیلہ ارشد (معلّمہ)

انسان کو شعور کی بلندی تک پہنچنے کے لیے علم کا اور علم کی منازل طے کرنے کے لیے کتاب کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ بچپن سے سنتے چلے آئے ہیں کتاب انسان کی بہترین دوست ہے مگر افسوس آج ٹیکنالوجی کی شکل میں کتاب کی جگہ موبائل نے لے لی ہے۔ یوں ہم کتاب سے دور ہوتے جا رہے ہیں جو ہمارے علم میں اضافہ کرنے کے ساتھ ہماری اخلاقی اور معاشرتی تربیت بھی کرتی ہے۔ موبائل کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ موبائل فائدے سے زیادہ ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے کیونکہ اس نے ہماری اخلاقیات کو تباہ کر دیا ہے اور ساتھ ساتھ ہمارے وقت پر بھی قابض ہے۔

اگر آج کا طالبِ علم واقعی باشعور ہے تو اسے کتاب کا انتخاب کرنا چاہیے، اگرچہ ضرورت کے تحت موبائل کے استعمال میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ یہ دورِ حاضر کی ضرورت ہے، لیکن اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے اور ہر پل اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے تاکہ نہ صرف بہترین طالب علم بن سکیں بلکہ حقیقی معنوں میں انسان کے وجود میں آنے کے مقصد کو بھی حاصل کر سکیں۔

آصف الیاس (اسسٹنٹ لائبریرین)

بحیثیت لائبریرین یا جدید دور کا لائبریرین کہہ لیجیے میرا خیال ہے ٹیکنالوجی نے کتاب سے دور نہیں کیا، جو پڑھنے والا ہے وہ مخطوطات بھی پڑھے گا اور نئی کتاب بھی پڑھے گا۔ سی ڈی، موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعے بھی پڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتابیات کو اب Bibliography کا نام بھی دیا گیا ہے اور ڈیجیٹل لائبریری کا رجحان عمل میں آرہا ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے جدت ہر چیز میں آرہی ہے۔ پہلے سل بٹے پر مسالے پیسے جاتے تھے، اب گرائنڈر میں یہ کام ہو رہا ہے، اسی طرح لائبریری میں بھی تمام کام ڈیجیٹل ہو رہے ہیں اور اب اور زیادہ سہل اور آسان ہو گیا ہے کہ لوگ سافٹ کاپی ڈاؤن لوڈ کر لیتے ہیں اور اپنی پسند کی کتابیں ن نہ صرف حاصل کر لیتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے شیئر بھی کرتے ہیں۔ ورنہ پہلے یہ ہوتا تھا کہ کتاب چوری ہو جائے گی، کسی کو کتاب دی تو پھٹ جائے گی یا کتاب واپس نہیں ملے گی۔ اس کا احتمال بھی نہیں رہتا بلکہ بیک وقت اس جدید سہولت کی وجہ سے بہت سے لوگ استفادہ کر لیتے ہیں۔

ذیشان عارف (مدرس)

یہ درست ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل نے لوگوں کو کتاب سے دور کر دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ متعلقہ مواد باآسانی آن لائن موجود ہے اور کسی بھی حوالے سے کوئی بھی معلومات سرچ کرنے سے مل جاتی ہے۔ مفت یا پا پھر تھوڑے معاوضہ کے عوض۔ جب تقریباً ہر قسم کی معلومات آن لائن موجود ہے تو اس صورت میں کتاب کے مطالعہ کی طرف رجحان کم ہو جانا بنتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میڈیم کا تبدیل ہونا مسئلہ نہیں ہے، موجودہ دور کی ضرورت کے لحاظ سے ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھنا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مختصر یا سرسری معلومات کی فراہمی کے سلسلے کو روکا جائے اور حالات یا تفصیلی معلومات سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔

اسماء ناصر (خاتونِ خانہ)

یہ جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ موبائل اور انٹر نیٹ کا استعمال ناگزیر ہوچکا ہے۔ انٹرنیٹ پر معلومات کا آسان اور جلد حصول اہم سبب ہے۔ پہلے جو معلومات حاصل کرنے کے لیے کئی کتابیں پڑھنی پڑتی تھیں وہ آج چند کلکس پر مل جاتی ہیں۔ آج کل والدین اور اساتذہ بہت چھوٹی عمر سے ہی بچّوں کو انٹرنیٹ کی عادت ڈال دیتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر بے حد دل چسپ مواد اور گیمز بچّوں کی تو کیا بڑوں کی بھی توجہ اپنی طرف مائل رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ انٹرنیٹ پر کتابیں بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ مطالعے کے شوقین افراد وہاں سے استفادہ کرتے ہیں، لیکن ساری بات دل چسپی کی ہے۔ کتاب سے دوری کی بڑی وجہ لائبریری کلچر کا عام نہ ہونا بھی ہے۔ اگر کتابوں تک رسائی بچّوں کے لیے آسان ہوتی تو یقیناً صورت حال مختلف ہوتی۔ حکومتی سطح پر یہ کام نہیں ہو رہا۔ مطالعہ ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ والدین کے لیے ضروریاتِ زندگی اور درسی کتب لینا ہی مشکل ہوجاتا ہے غیر نصابی کتابیں تو اس فہرست میں شامل ہی نہیں ہوتیں۔ اس صورت حال میں اسکولوں میں لائبریری کا قیام ممکن بنانا چاہیے، وہاں بچّوں کی دل چسپی سے لے کر ہر طرح کی معلوماتی کتابیں موجود ہوں۔ اساتذہ بنیادی سطح پر بچّوں میں مطالعے کا رجحان پیدا کریں۔ اور والدین بچّوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ تھوڑا وقت ان کے ساتھ کوئی کتاب پڑھنے میں گزاریں۔ یہ والدین کی ذہنی صحت میں بھی خوش گوار تبدیلی لاسکتا ہے۔

علی حسین (صحافی)

آج کے نوجوانوں اور طلباء میں موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں جو ممکنہ طور پر کتابوں اور مطالعے سے دور ہونے کا سبب بن رہی ہیں۔ موبائل اور انٹرنیٹ تک رسائی آسان ہے جو بالخصوص طلباء کے تفریحی اور مواصلاتی مقاصد کے لیے استعمال کو پورا کرتی ہے۔ انٹرنیٹ مختلف قسم کے دل چسپ مواد پیش کرتا ہے جیسے کہ سوشل میڈیا پر سرگرمیاں، آن لائن گیمز، وڈیوز جو نوجوانوں کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں اور اُن کی پڑھائی سے توجہ ہٹا سکتے ہیں۔ موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال فوری فیڈ بیک فراہم کرتا ہے جو پڑھائی کے تاخیر سے ملنے والے انعامات سے زیادہ دل کش ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا اور میسجنگ ایپس طلباء کو اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ جڑنے اور بات چیت کرنے کے قابل بناتی ہیں جو موبائل اور انٹرنیٹ کے مسلسل استعمال کے لیے طاقتور محرک ہو سکتی ہیں، ڈیجیٹل لرننگ ٹولز اور آن لائن کلاسز سے طلباء تعلیمی مقاصد کے لیے موبائل، آلات اور انٹرنیٹ استعمال کرنے کی طرف زیادہ مائل ہوسکتے ہیں۔ تاہم یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ تعلیمی کارکردگی پر موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال کے اثرات انفرادی اور سیاق و سباق کے لحاظ سے وسیع پیمانے پر مختلف ہو سکتے ہیں۔

اُمّ البنین (طالبہ ایم فل، ڈینٹسٹ)

یہ صرف خیال نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں جدید ٹیکنالوجی جہاں آسانیاں لائی ہے وہیں اس کے کچھ مضر اثرات بھی ہیں۔ آج کل موبائل اور انٹرنیٹ پر ہی باآسانی کتابیں دستیاب ہو جاتی ہیں اس لیے کتب بینی کا شوق بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ معاشی حالات میں تبدیلی بھی ہے۔ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی میں لوگ اپنی ضروریاتِ زندگی کو ہی پورا کر لیں تو بہت ہے۔ پھر ان حالات میں لوگ ”اضافی اخراجات“ کو ترک کرنا ہی بہتر سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ایک فائدہ مند مشغلہ ہے۔ اہلِ علم اور لکھاری اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کتاب کی اہمیت اور افادیت سے متعلق کوئی پوسٹ کرکے کتاب کلچر کو پروموٹ کریں اور قارئین کو کتب بینی کی ترغیب دیں تو بھی فرق پڑے گا۔ بچّوں اور خاص عمر کے طلباء کے لیے کتابوں کے کور اور صفحات کو رنگین رکھا جائے تاکہ ان کی توجہ برقرار رہے، اس کے ساتھ ساتھ کتب میلے منعقد کیے جائیں۔ بچّوں اور نوجوانوں کی دل چسپی اور ذہنی سطح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کتابوں کے عنوان رکھے جائیں جو ان کو اپنی طرف متوجہ کریں گے اور دوست احباب بالخصوص

بچّوں کو مختلف مواقع پر کتاب کا تحفہ دینا چاہیے۔

فضہ اطہر (طالبہ شعبۂ جرمیات، جامعہ کراچی)

وقت کے ساتھ ٹیکنالوجی بھی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ آج کا طالب علم یہ سمجھتا ہے کہ جب انٹرنیٹ پر دنیا بھر کی معلومات موجود ہے تو پھر کتاب کا مطالعہ کر کے وقت کیوں ضائع کیا جائے۔ دو منٹ میں سرچ انجن کے ذریعے مطلوبہ معلومات حاصل کرو اور وقت بچاؤ۔ اسے مختلف مصنّفین کی کتابیں پڑھنا اب بوجھ لگتا ہے۔ بات صرف نصابی کتب تک محدود نہیں ہے، مطالعے کی عام عادت اب عنقا ہوتی جارہی ہے۔ پہلے لوگ دل چسپی کے موضوعات پر مشتمل کتب، اور انسائیکلوپیڈیا پڑھ کر اپنی قابلیت اور صلاحیت کو جِلا بخشتے تھے۔ وسیع مطالعہ، ذخیرۂ الفاظ اور مضامین پر دلائل کے ساتھ گفتگو کرنے والی شخصیت بارعب اور ہردل عزیز ہوا کرتی تھی۔ صد افسوس کہ اب مطالعے کا رجحان بتدریج گھٹ رہا ہے۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں بھی کئی گھرانوں نے اپنے بچوں میں مطالعے کا ایسا شوق پروان چڑھایا کہ یہ اُن کی عادت ہی بن گیا۔ میں اپنے والدین کی شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے ہماری زندگی میں کتابوں کو شامل کیے رکھا اور آج ہم انٹرنیٹ کے ہوتے ہوئے نصابی کتب کے ساتھ دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں بھی آج سامان سے زیادہ کتابیں ہیں۔انٹرنیٹ کے زمانے میں بھی تعلیمی اداروں میں، گھروں میں مطالعے کی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہیے۔ کتب خانوں میں بیٹھ کر کچھ دیر مطالعے کی سرگرمی اپنانا چاہیے۔ اسکولوں میں لائبریری کا پریڈ لازمی ہونا چاہیے جس میں روایتی کتاب کا مطالعہ کیا جائے اور پھر جس نے جو کتاب پڑھی ہو اس سے متعلق چند سوالات کیے جائیں۔ اس طرح کے اقدامات سے ہر زمانے میں کتاب کو اور مطالعے کی عادت کو زندہ رکھا جاسکتا ہے۔

قمر احمد صدیقی (طالب علم میکینکل انجینئرنگ)

موبائل فون ساتھیوں، دوستوں اور کنبے کے افراد کے درمیان رابطے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ ایسی تمام ٹیکنالوجیز جو اس طرح کے فائدے فراہم کرتی ہیں ان میں خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ بعض طالب علم کثرت سے موبائل فون کا غیر ضروری استعمال کرتے ہیں اتنا کہ پڑھائی کو بالکل نظر انداز کرنے لگتے ہیں۔ وہ اپنے قیمتی وقت کا ایک بڑا حصہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ، دوستوں کے ساتھ گپ شپ، فلمیں دیکھنے، گانے سننے اور فضول کاموں یا غیرافادی سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں۔ ان کو کتاب پڑھنے اور مطالعہ کرنے کا وقت نہیں ملتا۔ طلباء اپنے فون کا بہتر استعمال بھی کر سکتے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ رات کو موبائل فون چھوڑ کر سونے سے قبل کسی دل چسپ اور من پسند موضوع پر کتاب کے چند صفحات پڑھنے کا خود کو عادی بنا لیں اور موبائل اور انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ کتاب سے بھی دوستی کریں۔

قارئین!

اچھی کتاب کا مطالعہ انسان کی شخصیت بھی نکھار دیتا ہے۔ جب تک اساتذہ اور والدین اس ضمن میں اپنا کردار دیانت داری، اور اخلاص سے ادا نہیں کریں گے بچّوں میں کتب بینی کا ذوق و شوق پیدا نہیں ہوسکتا۔ انٹرنیٹ اور موبائل معلومات کا مؤثر ذریعہ سہی لیکن یہ کتاب کا بدل نہیں‌ ہوسکتے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کتاب دوستی ہی نے ہمیں اس قابل بنایا ہے کہ آج ہم اس اہم مسئلے کے حل کے لیے قلم اٹھا سکے ہیں۔

بقول شاعر

ہم نے لکھنا کتاب سے سیکھا

اس کی توقیر ہم سے پوچھے کوئی

کتاب سے دوستی کر لیجیے، کل یہ افتخار اور اعزاز آپ کے حصّے میں بھی آجائے گا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں