The news is by your side.

”میں ہمت ہوں ،میں قوت ہوں…“

کسی مفکر کا قول ہے کہ ”عورت کا نازک ہاتھ جو بچے کے پنگھوڑے کو حرکت دیتا ہے وہی اس کرّۂ ارض کو بھی چلا رہا ہے۔“

بلاشبہ یہ ہمت، طاقت اور اہلیت آہنی حوصلے والی صنفِ نازک میں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے جو قدرت کی جانب سے اس کے لیے انعام بھی ہے اور سوغات بھی۔ بالخصوص وہ خواتین جو کہنے کو تو گھر کی چار دیواری تک محدود ہیں‌ اور بعض داناؤں کی نظر میں ناقصُ العقل ہیں، گھر میں‌ رہتے ہوئے گھر کو بنانے کے لیے بیک وقت کئی محاذوں پر فتح کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔ ان کی پل بھر کی کوتاہی یا معمولی غلطی پر ان کو ناکارہ قرار دے کر سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔ یہ چھوٹا سا جملہ کہ ”تم تو سارا دن گھر میں رہتی ہو، کرتی ہی کیا ہو“ دن بھر مشقت کی چکی میں پسنے والی خاتونِ خانہ اور گھر میں‌ کام کرنے والی ہر عورت کے لیے کسی تازیانے سے کم نہیں ہوتے۔

یوں تو صبح سے رات تک خواتین تمام ہی لازمی گھریلو اُمور انجام دینے میں مصروف رہتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک کام ایسا ضرور ہوتا ہے جس میں خاتونِ خانہ کو مہارت حاصل ہوتی ہے اور اس کا انحصاراُن کی ذاتی دل چسپی، ذوق و شوق پر ہوتا ہے۔ مثلاً میری دادی اور نانی سگی بہنیں تھیں۔ ایک ہی گھریلو ماحول اور ماں کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے والی دونوں بہنوں کو گھر داری کا سلیقہ تھا لیکن دادی کو کھانا پکانے میں مہارت تھی اور نانی سلائی کڑھائی میں طاق تھیں۔ اسی خیال کے تحت ہم نے یہ سروے کیا اور خواتین سے دو سوال کیے:

سوال۱: جب یہ سُننے کو ملتا ہے کہ ”تم تو سارا دن گھر میں رہتی ہو، کرتی ہی کیا ہو۔“ تب دل پر کیا گزرتی ہے؟

سوال۲: آپ کس ہنر میں طاق ہیں؟

شاہینہ یاور
۱: جب صبح سے لے کر رات گئے تک کام کرتے رہو اور یہ سُنو کہ دن بھر کرتی ہی کیا ہو تو جو دل کا حال ہوتا ہے وہ آپ جان سکتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے میں نے ایک آئیڈیل زندگی گزاری ہے، کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا اور ہر کام وقت پر کیا۔

۲: اللہ کی عطا ہے کہ ہر کام بخوبی انجام دے لیتی ہوں۔ سلائی ہمیشہ میں نے خود کی ہے۔ پوتے پوتیوں کو کپڑے خود سی کر پہناتی ہوں۔ لڑکوں کی پتلونیں خراب ہو جاتی ہیں تو اُن کو ضائع کرنے کے بجائے کاٹ کر چھوٹی کر کے سی کر بنا دیتی ہوں۔ میری ساس غرارے پہنتی تھیں شادی کے دو تین سال بعد اتفاق سے میں کپڑا لائی، شلوار قمیص کا، اُن کو سی کر پہنا دیا، مجھے بہت دعائیں دیں، یہ تو بہت ہلکا پھلکا لباس ہے، اس کے بعد سے انہوں نے صرف آنے جانے میں غرارے پہنے، گھر میں ہمیشہ میرے ہاتھ کی سلی قمیص شلوار پہنی۔ گھر میں ہم دو دیورانی جٹھانی تھے، میں نے اپنی ساس سے کہا کہ ہم دونوں ہی مصروف رہتے ہیں اماں، بچوں کو پڑھانے کا موقع ہی نہیں ملتا تو ایسا کرتے ہیں ایک دن بھابھی کام کریں ایک دن میں۔ اس سے یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو دیکھ سکیں گے، ایک دن بھابھی کھانا پکاتی تھیں میں صفائی کرتی تھی ایک دن میں کھانا پکاتی تھی وہ صفائی کرتی تھیں۔ اس طرح ہمیں بچوں کے ساتھ وقت مل جاتا تھا اپنے بچوں کو قرآنِ پاک کی تعلیم سے لے کر میٹرک تک خود پڑھایا، کبھی ٹیوشن نہیں لگائی۔ میں نے ہمیشہ گھر کے سب کام ہنسی خوشی یہ سوچ کر کیے کہ جب بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا گھر کے سارے کام خود کرتی تھیں تو ہم کیوں‌ نہ کریں۔ شادی سے پہلے اسلام آباد میں بہت بہترین زندگی گزاری تھی میں نے۔ سسرال جب آئی تو گیس نہیں آئی تھی لکڑی پر کھانا اور روٹیاں تک پکائیں۔ میں نے اپنی ساس کی بہت دعائیں لیں، ابھی تک اُن کی دعائیں میرے ساتھ ہیں جب ہی میرے بچے اتنے قابل ہیں۔ الحمدُللہ مجھے خاندان کو جوڑ کر رکھنے کا ہنر آتا ہے، سب میرا بہت دم بھرتے ہیں۔ مجھے خاندان کے بچّے ماں کا درجہ دیتے ہیں۔ میری بڑی نند ہمیشہ کہتی تھیں اللہ کرے میری چھے بہوئیں میری چھوٹی بھاوج جیسی آئیں۔ اللہ کا شکر کہ اس نے مجھے اس قابل بنایا۔

ادیب فاطمہ رضوی
۱: جب گھر میں شوہر داخل ہوتا ہے تو وہ معاشرے کو فیس کر کے آتا ہے، اس لیے سرپرست کے آنے سے پہلے عورت گھر کا سارا نظام درست رکھے اور یہ سوچے کہ گھر میں جس کی وجہ سے آمدنی آرہی ہے اسے سکون دے۔ گھر کے ماحول کو پرسکون رکھنا عورت کا کام ہے۔ جب مرد گھر میں داخل ہو تو اسے غصہ کے بجائے سکون محسوس ہو، پھر یہ کبھی سننے کو نہیں ملے گا۔ میرے شوہر نے گھر میں داخل ہو کر کبھی بیزاری کا اظہار نہیں کیا۔

۲: میں کپڑے سینے میں مہارت رکھتی ہوں۔ آج بھی اپنے ہاتھ سے سلے کپڑے نواسہ نواسی اور بیٹیوں کو پہناتی ہوں۔ میرے گھر کے انتظامی اُمور میں میرے شوہر نے کبھی دخل نہیں دیا۔ میکہ ہو یا سسرال میں نے مہمان داری نہایت محبت اور محنت سے کی کبھی کھانا کھائے بغیر گھر سے جانے نہ دیا۔ زبان کا خاص خیال رکھا کہ قطع رحمی کی نوبت نہ آنے پائے۔ کسی بھی شعبے میں عورت اس وقت مہارت حاصل کر سکتی ہے جب اس کا شوہر ساتھ دے۔ گھر کی آمدنی بڑھانے کے لیے اپنے شوہر کا صحیح طور سے ساتھ دیا۔ سرف بنایا اور سرف کے پاؤڈر کا پیسٹ بنا کر ہم نے مارکیٹ میں متعارف کروایا اور اس کام کو بڑے پیمانے نے تک پہنچا دیا۔ میں نے عالمہ کورسز کیے ہیں۔ میرے گھر میں مدرسہ ہے اور میں تدریس سے منسلک ہوں۔ میں frozen food کا کام بھی کرتی ہوں۔ اللہ کا شکر ہے چھوٹی موٹی آمدنی کے کام ہم گھر میں ایسے ہی کرتے ہیں تاکہ ہم کسی کے محتاج نہ رہیں۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ میرے پاس کوئی نوکر نہیں تھا،گھرداری اور مہمان داری کے ساتھ ساتھ میں پچیس کلو کے شامی کباب بھی بنایا کرتی تھی۔ میرے شوہر میرا ساتھ دیتے تھے، سارے کاموں کے بعد میرے ساتھ پیکنگ کرتے تھے اور آج ہماری وہ فیکٹری تیار ہے اور بہت بہترین طریقے سے پوری کراچی میں مال سپلائی ہوتا ہے۔

ہما احمد تاجدار
۱: الحمدُللہ مجھے کبھی یہ سننے کو نہیں ملا۔

۲: دیگر گھریلو ذمہ دایوں کے علاوہ سلائی کڑھائی اور بچوں کو ہمیشہ شوق اور لگن سے پڑھایا۔بچپن کے رجحان مصوری اور خطّاطی پر طبع آزمائی کرتی رہی ہوں۔ میرے والدین نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ جب بچّے چھوٹے تھے تو گھر اور بچوں کی ذمہ داریوں کے باعث کچھ عرصہ اس سے دور رہی، اب دوبارہ میں نے اس جانب توجہ دی ہے، گھر سے ہی ڈیزائننگ اور اسٹیچنگ کا کام کر رہی ہوں۔ اب جبکہ بہت ساری پینٹنگ جمع ہو چکی ہیں تو میں نے ہمت کر کے ان میں سے چند پینٹنگز کو کیلنڈر کی شکل دی اور سالِ نو کا ایک کیلنڈر شائع کروایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق کی تسکین کے لیے ہائیکو، افسانچے اور کالم نگاری کا سفر بھی جاری ہے۔

ڈاکٹر فرزانہ اخلاق
۱: وہ کہتے ہیں نا کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے تو کبھی موقع بھی نہیں دیا۔ سارے کام ہمیشہ وقت پر کرنے کی کوشش کی جو الحمدُللہ ہمیشہ کامیاب بھی ہوتی تھی اور ساتھ ساتھ یہ حقیقت ہے کہ بندہ بشر ہوں کبھی طبیعت کی خرابی یا کسی وجہ سے کمی رہ بھی گئی ہو پھر بھی اُن کی جانب سے کبھی یہ نہیں سُنا۔

۲: انسان سیکھ سیکھ کر ہی آگے بڑھتا ہے۔ ہر گھر کا ماحول مختلف ہوتا ہے۔ ہم جوائنٹ فیملی میں رہے۔ میری ساس کو اللہ جنت نصیب فرمائے بے انتہا معاون و مددگار رہیں، بہت سی چیزیں اُن سے سیکھیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں کھانا پکانے کے علاوہ انتظامی اُمور میں بھی ماہر ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ گھر کی سجاوٹ، بچوں کی تعلیم و تربیت اور رشتہ داریاں نباہنے کا ہنر بھی آتا ہو اور یہ باتیں میں نے اپنی جنت نشیں ساس سے سیکھیں۔ اُن کے انتقال کے بعد دو دیوروں اور ایک نند کی شادیاں کیں۔ الحمدُللہ اُس ذات نے ہر معاملے میں سُرخرو کیا اور آج تک تمام رشتوں کو جوڑ کر رکھنے کی کوشش کی اور اچھی بہو ہونے کا فریضہ اچھے سے نبھایا۔ یقیناً یہ کام ایثار اور قربانی مانگتا ہے۔ مشکلیں آتی ہیں، اُن کا سامنا خندہ پیشانی سے کرنا پڑتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ کہتے ہیں نا کہ نیت صاف منزل آسان۔

شاہانہ جاوید
۱: امیں نے یہ بہت سنا ہے اب تو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی ہوں۔ کیونکہ گھریلو عورت کے کام سب کو بہت عام لگتے ہیں۔ یہی خواتین ہیں جو پورا گھر بلکہ پورا سسرال بھی سنبھال لیتی ہیں۔ میری نظر میں ہر انسان اپنی جگہ کارآمد ہے۔ اس جملے کو سن سن کر بہت تکلیف ہوئی لیکن اپنی ذمہ داروں سے کبھی منہ نہیں موڑا۔

۲: میں گھر کے کاموں کے علاوہ سلائی کڑھائی بُنائی میں ماہر تھی، کہانیاں لکھتی تھی۔ جب میں شادی کے بعد بیرونِ ملک گئی تو سلائی میرے بہت کام آئی خاص طور پر عید پر اپنے اور اپنی نند کے کپڑے سیے۔ پھر پاکستان سیٹ ہونے کے بعد بچیوں کے کپڑے، نت نئے فراک سیے۔ اب تو گھر کے کام نہیں کرتی لیکن اپنا پرانا شو ق لکھنے پڑھنے کا شروع کر دیا ہے۔ کافی عرصے بعد بنائی کی اور نواسی کے لیے سوئیٹر بُنا۔

درِ شہوار تنویر
۱: گھر میں رہنے والی خواتین کا المیہ یہی ہے کہ سارا دن کام کرنے اور ذمہ داریو ں کو اُٹھانے کے باوجود ان سے یہی کہا جاتا ہے۔ سارا دن کرتی ہی کیا ہو؟ یہ الفاظ تمام خواتین کے لیے انتہائی تضحیک آمیز اور تکلیف دہ ہیں۔ یہ الفاظ دل دکھانے اور توڑنے والے ہیں سو دل شکنی تو ہو گی نا؟ اور اگر یہی خاتون بیمار ہو جائے تو سارے گھر کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے خاتونِ خانہ کو کبھی کبھی یہ کہنا چاہیے ”آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمارے گھر کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے اُٹھا رکھی ہیں۔“ یہ الفاظ اس کا حوصلہ بڑھاتے ہیں اور ایک نئی اُمنگ پیدا کرتے ہیں۔

۲: میرے خیال میں تو ہر خاتون میں یہ تمام خوبیاں تھوڑی تھوڑی پائی جاتی ہیں اور میں بھی وقت پر سارے کام کر لیتی ہوں۔ ہر پڑھی لکھی خاتون ایک محاذ پر کام کر رہی ہے اور یہ سارے کام ہی میں بھی کرتی ہوں۔ گھر کو سجانے کا مجھے خاص شوق ہے اور اسی میں طاق ہوں۔

راحیلہ رحمٰن
۱: اب جو دل پہ گزرنی تھی وہ تو گزر گئی بلکہ گزر بھی رہی ہے، لیکن اس کا ایک آسان اور منفرد جواب یہی ہے کہ ”بھئی ہم کچھ نہیں کرتے بس کمال کرتے ہیں۔“

۲: گھر کی سجاوٹ کا مجھے بچپن ہی سے شوق تھا اور کچھ یہ کہ بچے گھر کے بڑوں کو دیکھتے ہیں تو اس سے شوق بڑھتا ہے۔ میری سہیلیاں اور رشتہ دار خواتین بھی اپنے گھر کی سجاوٹ کے لیے مجھ سے مشورے لیتی ہیں اور اس کے لیے اپنے گھر مدعو کرتی ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ بیرونی ذمہ داریاں نبھانے میں بھی مجھے بڑی مہارت ہے مثلاً گروسری، بلنگ اور گھر کے باہر کے دیگر کام کرنے کا مجھے بہت شوق ہے۔ دوسرے یہ کہ میں وزیٹنگ فیکلٹی کے حوالے سے بھی کلاسز لیتی ہوں۔ آن لائن ٹیوشن پڑھاتی ہوں سوشیالوجی میں۔

فوزیہ امداد
۱: اللہ کا شکر ہے ایسا کچھ سننے کو نہیں ملتا کبھی موقع ہی نہیں دیا۔

۲: کھانا شوق سے پکاتی ہوں تو ہمیشہ تعریف ہی ہوتی ہے۔ خاص طور پر دعوتوں وغیرہ میں۔ باقی اب تو بچے بڑے ہو گئے لیکن اُن کو پڑھانا، اسکول سے متعلق مسائل حل کرنا سب اچھے سے کیا۔ خاص طور پر چھوٹی بیٹی کو یونیورسٹی لیول تک نہ صرف پڑھنے میں مدد دی بلکہ کہانیاں لکھنا ڈراموں کے اسکرپٹ وغیرہ تک لکھ کر دیے۔ کتابیں پڑھنے کا شوق ہے تو تھوڑی بہت طبع آزمائی لکھنے پر بھی ہو جاتی ہے جس پر کافی تعریفی جملے سننے کو بھی ملتے ہیں۔

نجمہ شکیل
۱: گھر میں سارا دن رہتی ہو کرتی ہی کیا ہو؟ یہ سوال اُن پر تیر کا سا کام کرتا ہے جو گھر میں ایک وقت یا دو وقت کا کام کرتی ہیں۔ پھر سوچیے اُن کا کیا حال ہوگا جو سب کچھ کر رہی ہیں۔ بچوں کو اسکول بھیجنا لانا، ناشتے سے کھانا بنانے کا سفر، مدرسے سے ٹیوشن اور پھر گھر پر پڑھانا، وقت پر سلانا جگانا، میاں کی پسند نا پسند، جوائنٹ فیملی سسٹم میں گھر کے دیگر افراد کا بھی خیال رکھنا۔ یہ سب کام گھر میں رہ کر ہی کیے جاتے ہیں جس کے لیے جان مارنی پڑتی ہے پھر یہ بات کہی جائے تو دل کیا دماغ پر بھی چھریاں چل جاتی ہیں۔

۲: آج کل مہارت تو شاز و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ انتظامی امور، کھانا پکانا، سلائی کڑھائی، گھر کی سجاوٹ، رشتہ داریاں نباہنا، خاندان کو جوڑ کر رکھنا، ان سب میں ماہر ہونے کا مطلب ہے آپ کے پاس اچھی بچت ہے پیسے کی تو آپ اس کام میں طاق بھی ہیں، کیونکہ پیسہ سب کچھ کرا دیتا ہے، تو یہ بات بڑھتی ہوئی مہنگائی میں ناممکن ہے۔ باقی رہی بات بچے پڑھنا، بیرونی ذمہ داریاں اور گھر بیٹھے روزی کمانا تو یہ اب ہر گھر کی مجبوری بن گئی ہے، سو ہر کوئی اس کام میں طاق ہونا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ گھر بھر میں جس کام کی تعریف ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ آپ اس کام میں طاق ہیں، ویسے عموماً کبھی کسی وقت کھانے کی کسی وقت کپڑوں کی، کسی وقت پڑھانے کی اور کہیں رشتہ داریاں نبھانے کی تعریف ہو جاتی ہے تمام امور میں وقت کے ساتھ ساتھ ماہر ہونا پڑتا ہے۔

سمیرا عفاف
۱: میرے خیال میں تمام عورتوں کے لیے یہ سوال بہت ہی کوئی ناخوشگوار ہوتا ہے کہ سارا دن کرتی ہی کیا ہو؟ تو جو مرد حضرات یہ کہتے ہیں اُن کے لیے یہی کہوں گی کہ جس طرح مرد دفتر جا کے کام کرتا ہے، پیسے کماتا ہے اسی طرح عورت گھر کو صاف ستھرا رکھنے، بچوں کی تربیت کرنے میں۔ گھر کا ماحول اچھا بنانے میں مصروف رہتی ہے، دفتر سے واپسی پر الماری میں کپڑے ملتے ہیں، کھانا پکا ہوا ملتا ہے، بچے تیار ملتے ہیں۔ سارے کام ایسے ہی تو نہیں ہو جاتے؟ پھر بھی شکوہ کہ سارا دن کرتی ہی کیا ہو؟ یہ جملہ دل جلاتا ہی نہیں دکھاتا بھی ہے۔

۲: اپنی گھریلو ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھانے کے ساتھ ساتھ میں گزشتہ آٹھ سال سے ماشاء اللہ کپڑوں کا کاروبار کر رہی ہوں۔ ہر عورت کو کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے شوہر کا ہاتھ بٹا سکے اور میرے شوہر نے مجھے بہت سپورٹ کیا جس کی وجہ سے آج میں اس مقام پر ہوں کہ الحمدُللہ۔ کپڑوں کی فروخت کے ساتھ ساتھ اور کافی چیزیں بھی سائیڈ پر رکھتی ہوں اور لوگوں کے مانگنے پر باآسانی انھیں مہیا کر دیتی ہوں۔ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ روزانہ ایک دو گھنٹے اپنے لیے عورتوں کو ضرور نکالنا چاہیے اس سے بہتر ایکٹیوٹی اور کوئی نہیں۔ میں یہی کرتی ہوں اس طرح ذہنی طور پر بھی پُرسکون رہتی ہوں اور معاشی طور پر بھی بہتری ہوتی ہے۔

قارئین! گھر کی چار دیواری میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھانے والی یہ ہنر مند، باہمت اور لائق ستائش عورتیں جب دن بھر کی ریاضت کے بعد دل میں ترازو ہونے والا یہ جملہ سنتی ہیں کہ ”تم تو سارا دن گھر میں رہتی ہو۔ کرتی ہی کیا ہو۔“ تب دل لہو ہو جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ اپنی ذمہ دایوں سے ہاتھ نہیں کھینچتیں۔ اس کمر توڑ مہنگائی کے زمانے میں آج عورتوں نے بھی کمر کس لی ہے اور گھر کے کام انجام دینے کے ساتھ کوئی نہ کوئی کام کر کے اور کسی ہنر کی بدولت روزی کما رہی ہیں اور جو خواتین یہ نہیں کر رہیں‌ ، وہ اپنے سلیقے سے گھر کو جنت نظیر بنانے میں مصروف ہیں۔ ان کی قدر کرنی چاہیے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں