The news is by your side.

نیا سال، خدشات اور توقعات (سروے رپورٹ)

ریل گاڑی میں مسافر کی نظر سے جیسے

رات کے وقت کوئی شہر گزر جاتا ہے

اس طرح وقت کے دریائے رواں سے اک سال

جیسے گزری ہے کوئی لہر گزر جاتا ہے

وقت برق رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جانے والا سال جاتے جاتے انمٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ ہم نئے سال کا استقبال انہی کی ہمراہی میں کرتے ہیں۔ 2024ء سے وابستہ خدشات و توقعات کم و بیش وہی ہیں جو گزشتہ چند برسوں سے ہمارے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔ تب خیال آتا ہے کہ

آسماں بدلا ہے افسوس نہ بدلی ہے زمین

ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں

اگر 2023 کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس نئے سال میں خدشات کا پلڑا خاصا بھاری دکھائی دیتا ہے۔ ملک میں پچھلے چند برسوں اور بالخصوص پچھلے سال سے جو سیاسی افراتفری، عدم برداشت، بے یقینی اور معاشی بحران نظر آرہا ہے، اس کے بعد ملک میں کسی شعبے سے امید افزا خبر نہیں سنائی دے رہی۔ سب ہی یاسیت میں مبتلا نظر آرہے ہیں۔ جسے دیکھو خدشات میں گھرا ہوا ہے۔ ہاں پاکستان کی مجموعی صورتحال میں چند نئے خدشات اور توقعات ہیں تو وہ فروری 2024ء میں عام الیکشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ ملک میں خوشحالی یا مزید ابتری اور بدحالی کا انحصار اگلی منتخب حکومت اور اس کی کارکردگی پر ہے لیکن انتخابات کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ انتخابات بروقت ہو بھی گئے تو اس کے حتمی نتائج اور نئی حکومت کا قیام اور اس حواللے سے غیر یقینی صورت حال ایک مرتبہ پھر ہمیں خدشات کی جانب دھکیل دیتی ہے لیکن سالِ نو سے وابستہ یہ خدشات اگر ستاتے ہیں تو امیدیں اور توقعات بھی اپنے حصار میں لے لیتی ہیں۔ اُمید وبیم کی اسی کیفیت سے گزرتے ہوئے ہم نے چند مشہور اور اپنے شعبے کی ماہر شخصیات سے سوال کیا کہ 2023ء کے تناظر میں 2024ء سے آپ کے کیا خدشات اور توقعات ہیں؟

محمود شام (صحافی، شاعر اور ادیب) 

ہر آنے والا سال گزرے برس کا ہی تسلسل ہوتا ہے۔ پچھلے سال ہم نے گزشتہ کئی برس کا بویا کاٹا۔ اب 2023 میں جو کچھ بویا ہے وہ اس نئے سال میں کاٹنا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ اکیسویں صدی میں ہم اٹھارویں صدی والی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارا روپیہ ہماری تاریخ میں ڈالر کے مقابلے میں سب سے کم حیثیت میں ہے۔ نوجوان آبادی جو ہماری طاقت ہے وہ ہماری سب سے بڑی کمزوری بن گئے ہیں۔ جو ذہین ہیں، کارآمد شہری ہیں وہ دوسرے ملکوں میں جا کر اپنی ذہانت بروئے کار لا رہے ہیں۔ 2024 میں الیکشن اگر تھوڑے بہت شفاف بھی ہو جاتے ہیں تو ایک اچھے مستقبل کی بنیاد بھی بن سکتے ہیں۔ الیکشن ملتوی ہوئے یا مرضی کے نتائج لائے گئے تو ہماری اقتصادی بدحالی، علمی پستی، اخلاقی تنزلی اور بے مقصدیت مزید تیز ہو جائے گی۔ میں واقعات کے منطقی اور تاریخی نتائج پر نظر رکھتا ہوں۔ اب معجزوں کا زمانہ نہیں ہے۔ لیس الانسان الا ما سعی انسان کے لیے وہی ہے جس کے لیے کوشش کرے۔

 مہناز رحمٰن (سماجی کارکن، قلم کار)

سب سے بڑا خدشہ تو الیکشن کے حوالے سے ہے کہ وقت پر ہو جائیں اور free and fair ہوں۔ فیصلے جمہوری انداز میں ہوں۔ پیچھے سے کوئی نہ ڈوریاں ہلائے۔ میں توقع کرتی ہوں گو ایسا ہوتا نظر نہیں آتاکہ جو بھی حکومت آئے عوام دوست ہو، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ناجائز مراعات دینے کے بجائے غریب عوام کو سہولتیں فراہم کرے۔ عورتوں کو برابر کا انسان سمجھا جائے trans gender کے مسائل حل کیے جائیں۔ سیاسی قیدیوں کے مقدمات civilian عدالتوں میں چلائے جائیں اور توقعات تو بہت سی ہیں لیکن زمینی حقائق کسی خوش گمانی میں مبتلانہیں ہونے دیتے۔

شہناز احد (قلم کار)

روشنی ہو یا اچھائی تعلیمی اداروں اور دوسرے اداروں سے پھوٹتی ہے۔ تعلیمی اداروں کی روشنی باہر نکل کر جگمگاتی ہے۔ روشنی کوئی بتی یا موم بتی نہیں ہے کہ کہیں سے خرید کر اس کی خوشبو پھیلا دیں یا روشنی کر دیں اور کہہ دیں کہ لوگوں کو شعور آگیا، ملک اچھا ہو گیا، حالات اچھے ہو گئے۔ ساری چیزیں ایک نظام ہے۔ آپ کا کوئی نظام صحیح نہیں ہے، کوئی چیز کیسے اچھی ہو گی؟ آپ کے حالات کیسے اچھے ہوں گے؟ کوئی جادو کی چھڑی کو لہرائے گا اور سب کچھ ہرا ہرا ہو جائے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہے یہاں کا کوئی سرکاری ادارہ صحیح کام کرتا ہے کیا؟ عدالتیں وہ کر رہی ہیں جو کرنا چاہیے؟ کیا تعلیمی ادارے وہ علم اور وہ روشنی بچوں کو دے رہے ہیں جو انھیں دینا چاہیے؟ جس علم اور روشنی کو لے کر وہ آگے بڑھیں گے اوپر جائیں گے اور پھر اسی روشنی کو لے کر باہر نکلیں گے، اسی کو جگمگائیں گے۔ چاروں طرف اندھیرا ہے، ہر طرف پھپھوندی لگی ہے۔ سارے روزن بند ہیں، لوگوں کے کان اور آنکھیں بند ہیں معاشرے کی آنکھیں بند ہیں۔ ہم لوگ اندھیرے میں الل ٹپ چلے جارہے ہیں۔ہمیں نہیں پتہ آگے کھائی ہے، سمندر ہے، گڑھا ہے۔ ہمیں یہ پتہ ہے کہ آج پھر صبح ہوگئی ہے، کھانا کھالو، سو جاؤ۔ صبح کی صبح دیکھیں گے۔ ریاست کے چار ستونوں میں سے کون سا ستون سیدھا کھڑا ہے اور صحیح کام کر رہا ہے۔ کون سا نیا سال؟ ایک دن سورج ڈوب کر دوسرے دن طلوع ہو گیا تو نیا سال ہو جائے گا۔ نیا سال ان قوموں کی زندگی میں آتا ہے جن کے پاس اگلے دس، تیس، پچاس سال کے منصوبے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس اندھی، لنگڑی، لولی قوم کے لیے کون سا نیا سال آئے گا؟ کون سی امیدیں ہیں آپ کو؟ آپ یکم جنوری کو سو کر اٹھیں گے تو بڑے گلِ لالہ کھلے ہوں گے؟ کچھ نہیں ہوگا۔ یہاں پر ہم اسی طرح سے لڑتے مرتے رہیں گے جس کو جہاں موقع ملے گا اس کو مارے گا اس کو کُوٹے گا۔ جس کے پاس دو روٹی ہو گی اس سے چھین کر اس کو ایک نوالہ دے گا۔ صرف ایک طبقے میں نہیں اوپر سے لے کر نیچے تک سب کرپٹ ہیں نہ ان کا ایمان درست ہے نہ ان کا قبلہ اور سمت صحیح ہے۔ میری باتیں آپ کو مایوسی اور ناامیدی کی باتیں لگیں گی لیکن حقیقت یہی ہے، میں خوش فہم نہیں ہوں۔ اصل میں انسان خوش فہم اس وقت ہوتا ہے جہاں اسے نظر آرہا ہوتا ہے کہ آج میں نے گلاب لگایا ہے، کل اس میں کلیاں آئیں گی، پرسوں اس میں پھول کھلیں گے پھر اس کی خوشبو ہر طرف پھیلے گی۔ہم تو گلاب لگا ہی نہیں رہے ہیں نا، زہر بو رہے ہیں، زہر کاٹ رہے ہیں، زہر پی رہے ہیں۔

 عقیل عباس جعفری (محقق، شاعر)

2024 پورے خطے میں نئے انتخابات کا سال ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت جسے ہم برِ صغیر کہتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے یہ تین بڑے اور اہم ممالک ہیں۔ پاکستان میں 8 فروری کی تاریخ طے ہوئی ہے۔ میری حمایت کس پارٹی کو ہے۔ میں کس کو پسند کرتا ہوں، ناپسند کرتا ہوں اس سے قطع نظر مجھے توقع یہی ہے کہ اب جو حکومت آئے گی وہ جمہوریت کو ایک نئی راہ پر چلائے گی اور ماضی میں ان تینوں بڑی پارٹیوں کو حکومت مل چکی ہے۔ ماضی میں ان تینوں سے کچھ نہ کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو اب امید ہے کہ وہ ان غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔ جو بھی پارٹی آئے گی ماضی کی تلخیوں کو بھول کر آگے مستقبل میں اس ملک کو تعمیر کریں گے۔ سب سے بڑا جو اس ملک میں اس وقت چیلنج ہے وہ معیشت کا ہے اور معیشت میں تھوڑی بہتری ہوئی ہے۔ نگراں حکومت کے دور میں ڈالر کی قیمت بھی نیچے آئی، پیٹرول کی قیمت بھی کم ہوئی ہے، تھوڑی سی مہنگائی بھی قابو میں آئی ہے۔ توقع کرنی چاہیے ہمیں ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے کہ ان شاء اللہ یہ نیا سال پاکستان کے لیے ایک اچھا سال ثابت ہوگا اور نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ بنگلہ دیش اور بھارت میں جو انتخابات ہوں گے اس میں جو حکومتیں آئیں گی وہ کچھ ایسی پالیسیاں اور حکمت عملی اختیار کریں گی کہ پہلے جس طرح پر امن ہمسائیوں کی طرح رہا کرتے تھے اسی طرح دوبارہ سلسلہ شروع ہو اور امید ہے کہ ایک اچھا مستقبل ہمارا منتظر ہے۔

خواجہ رضی حیدر (شاعر، محقق، تذکرہ نگار)

سالِ نو خدشات کے نرغے میں آرہا ہے لہٰذا توقعات کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ ہم برزخ کے مکیں ہیں توقعات وہاں کی جاتی ہیں جہاں مثبت امکانات ہوں۔ ہم have not have and کی صورتحال میں محرومی کے نمائندہ ہو گئے ہیں۔ اب کوئی غیر معمولی تبدیلی ہی ہمیں کسی بہتر سمت کی جانب لے جا سکتی ہے۔ فی الحال تو ہم ہیں اور ہماری محرومیاں۔ ان ہی محرومیوں سے شاید توقعات جنم لے لیں۔

 مصطفیٰ ہاشمی (ادیب، ڈرامہ رائٹر)

جس ملک میں آئین، جمہوری نظام اور اس کو جاری و ساری رکھنے کے ذمہ دار اداروں کی موجودگی میں عام انتخابات اور اس کے نتائج کے بارے میں بے یقینی، تذبذب کی فضا ہو، ابہام اور شکوک و شبہات ہوں اور عوام کی امنگوں اور توقع کے برخلاف اقدامات اور فیصلے کیے جارہے ہوں، وہاں کیسے اور کس سے امیدیں اور توقعات کی جاسکتی ہیں؟ خدشات ہیں اور خدشات کا ایک انبوہ۔ عدم اعتماد اور بے یقینی ہے ہر طرف جس میں غریب و متوسط طبقہ جو کہ اس ملک کی اکثریت ہے، وہ پریشان اور صرف پریشان ہے۔ نیا سال ہمارے گزرے ہوئے انہی سال کی طرح ہوگا جن میں عوام نے جمہوریت کا قتل، معیشت کی بربادی دیکھی۔ ماضی کے غلط فیصلے، اداروں کا آئینی حدود سے تجاوز کرنا اور صرف اور صرف اقتدار کے لیے سیاست دانوں کی یہ اچھل پھاند ہمیں اس سال بھی بدحالی ہی دے گی۔ آپ بتائیے کہ اس نظام میں کیا ایسی تبدیلی آئی ہے یا لائی گئی ہے جس کی بنیاد پر ہم یہ توقع کریں یا آس لگا بیٹھیں کہ یہ سال ملک اور عوام کے لیے کچھ اچھا ثابت ہو گا؟

 راشد نور (صحافی، شاعر)

خدشات تو ہمیشہ رہتے ہیں، مگر ہم نئے سال خیر مقدم کرتے ہیں لیکن ہمارے حالات واقعات اسی ڈگر پر چل نکلتے ہیں۔ ہر نئے سال سے نئی توقعات ہوتی ہیں۔ اس سالِ نو سے بھی نئی توقعات ہیں۔ میرا شعر ہے

عجب خیال ہے دل میں ملال ہوتے ہوئے

کہ سالِ نو پہ نئے کچھ سوال ہوتے ہوئے

اللہ کرے آنے والے سال میں ہمارے لیے بہتر مستقبل کی نوید ہو نئے سال میں ہمیں اپنی روش بدلنی ہوگی۔

غزالہ فصیح (صحافی)

ہمارا عقیدہ ہے کہ مایوسی گناہ ہے لیکن یہ بہرحال میں ضرور کہوں گی کہ حالات چاہے وہ تعلیم کا شعبہ ہو صحت ہو یا روزگار ہو اور جو سیاسی اور سماجی مسائل ہیں اس میں ہر سطح پر ہمیں ابتری نظر آتی ہے اور لگتا ہے کہ معاملات انتہائی نچلے درجے تک بگڑتے جا رہے ہیں تو کوئی شعبہ لے لیں ان ساری چیزوں کو دیکھتے ہوئے بحیثیت ایک پاکستانی بہت دل دکھتا ہے۔ دعا بھی کرتے ہیں اور اپنی طرف سے کوشش بھی کرتے ہیں جو ہمارے حصے کا کام ہے وہ ہم اپنی صحافت اور قلم کے ذریعے کرتے رہیں، باقی جہاں تک یہ ہے کہ کیا ہم ان ساری چیزوں سے نکل جائیں گے؟ تو ان شاء اللہ نکلیں گے ضرور۔ پاکستانی قوم میں، ہمارے نوجوانوں میں بہت صلاحیتیں ہیں اور شعور ہے، لیکن جو معاملات خراب ہو چکے ہیں ان کو سنبھالنے میں وقت لگے گا اور مجھے لگتا ہے کہ بہتری کی جانب بھی ہم ان شاء اللہ بڑھیں گے ضرور لیکن یہ ایک محنت طلب اور بہت سست روی سے ہوگا۔ تاہم یہ نیا سال چونکہ انتخابات کا سال ہے تو میری دعا بھی ہے اور اُمید بھی ہے کہ اللہ کرے یہ انتخابات حقیقی معنوں میں پاکستان کی تقدیر بدل دینے والے ہوں۔ اس میں نئی قیادت سامنے آئے اور جو لوگ ہیں وہ خلوصِ دل سے پاکستان کے مسائل کے حل کریں تو قوم بھی ان کا ساتھ دے گی۔

 خرم سہیل (براڈ کاسٹر، فلمی نقاد، صحافی)

ہر سال نئے سال کی آمد پر، ہم بطور پاکستانی کچھ نئی آرزوؤں کو دل میں جنم دیتے ہیں۔کچھ نئے خواب سجاتے ہیں لیکن پھر وہ سال بھی گزر جاتا ہے نہ ہی کوئی آرزو پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے اور نہ کسی خواب کو تعبیر کی منزل ملتی ہے۔ اس منظر نامے کے پیچھے کچھ ناگزیر پہلو ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔ پر امید ہونا تو کوئی بری بات نہیں لیکن امیدوں اور خوابوں کے ساتھ ساتھ عملی جدو جہد اور سرگرمی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں اور عوام کے ایک بڑے طبقہ نے جھوٹی تسلیوں کے سہارے رہنے کی عادت ڈال دی ہے، دنیا میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ بطور قوم کوئی اتنے بڑے پیمانے پر جھوٹ بولے، جس طرح ہمارے یہاں بولا جاتا ہے۔ موسمی پھل بیچنے والے سے لے کر جن ہاتھوں میں پاکستان کا عملی انتظام ہے، ان سب کی اکثریت جھوٹ بولتی ہے، اس لیے ہر نیا سال پرانے سال کی طرح گزر جاتا ہے۔ اس میں جب تک تبدیلی نہیں آسکتی، جب تک کہ عملی طور پر اقدامات نہیں کیے جائیں گے اور سنجیدگی سے ایک قوم بن کر سوچا نہیں جائے کہ ہم خود کو کیسے ان تہذیبی، سماجی اور معاشرتی و معاشی بحرانوں سے نکالیں۔ میرا تعلق چونکہ فنونِ لطیفہ سے ہے جن میں بالخصوص فلم، موسیقی اور ادب کو غور سے دیکھتا ہوں تو فلم کے شعبے میں مندی دکھائی دی، کچھ خاص فلمیں ریلیز نہیں ہوئیں جو ریلیز ہوئیں ان میں سے کسی کو بھی مقبولیت نہیں ملی۔ سب باکس آفس پر ڈھیر ہو گئیں، البتہ پچھلے سال کی کامیاب فلم، اس سال بھی نمائش پذیر ہے اور فلم بین اس فلم کو مسلسل دیکھ رہے ہیں یہ بات ثابت کرتی ہے کہ معیاری کام کو معاشرہ اور سماج بھی اہمیت دے گا، لیکن چونکہ ہمارے یہاں معیار کے پیمانے ختم کر دیے گئے ہیں تو فلم ساز اپنی مرضی سے کچھ بھی بنا رہا ہے، اس لیے فلموں اور معیاری فلم سے عوام لا تعلق نظر آتے ہیں۔ موسیقی اور ادب کے شعبوں میں بھی کچھ حال اچھا نہیں ہے، میلوں ٹھیلوں اور گروہ بندی کے ذریعے ادب کو پروان چڑھایا جا رہا ہے، انفرادی حیثیت میں بھی لوگ کام کر رہے ہیں، مگر وہ نمایاں نہیں ہیں، ان تمام معاملات کے باوجود میں یہی کہوں گا کہ اگر آپ کو یہ سب نظام سمجھ آگیا ہے تو اپنے حصے کی شمع روشن کیجیے تاکہ اس بے حس سماج اور بے بہرہ حاکموں کی پیدا کردہ تاریکی میں کچھ روشنی ہو سکے۔ یہی بہترین انتقام ہے جہاں فنونِ لطیفہ کی کوئی قدر نہیں وہاں آپ اپنے ذوق سے تخلیق کی شمع روشن کریں اور اپنے حصے کا کام کرتے رہیں۔ لمبی ہے تاریکی کی رات، مگر چھٹے گی اور اس دھند میں سے ایک سویرا طلوع ہوگا جو ہمیں ضرور بدل دے گا۔

شمع زیدی (صحافی)

2023 کے تناظر میں سالِ نو سے کیا خدشات ہیں؟ کچھ بھی نہیں۔ سب گزشتہ سال کی طرح ہوگا۔ بس کیلنڈر پر تبدیلی آجائے گی۔ ہمارے اختیار میں اب کچھ بھی نہیں رہا۔ حد یہ ہے کہ رسم و روایات اور وضع داری تک ہم گنوا بیٹھے ہیں۔ اگر اہل قیادت کو اقتدار مل گیا تو ضرور حالات میں تبدیلی آئے گی۔ ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔ امید کی کرن جگنو کی چمک کی صورت ہی تو ہیں ہمارے نوجوان۔ یہ اگر کھڑے ہو گئے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ترقی یافتہ ہونے سے نہیں روک سکتی۔ہمارے اختیار میں کچھ نہیں، ہم صرف دعا کر سکتے ہیں۔ فیض احمد فیض ؔنے کہا تھا:

آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی

زہرِ امروز میں شیرینیِ فردا بھر دے

وہ جنھیں تابِ گراں باریٔ ایام نہیں

ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے

جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں

اُن کی راتوں میں کوئی شمع منور کردے

جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں

اُن کی پلکوں پہ کوئی راہ اُجاگر کر دے

اللہ ہم پر اور ہمارے وطن پر رحم فر مائے آمین

شازیہ انوار (صحافی)

2023ء آیا بھی اور چلا بھی گیا۔ افراتفری کی دھول میں لپٹے اس سال کے دامن میں بہت سے خوشگوار اور ناخوشگوار واقعات سمٹے ہوئے ہیں۔ اس سال ہم نے ملک میں سیاسی بد امنی اور ہلچل دیکھی۔ اس ضمن میں وہ کچھ بھی منظرِ عام پر آیا جنھیں دیکھنے کی نہ عادت تھی اور نہ ہی کوئی خواہش۔ اس سے صرفِ نظر کریں اور اپنے اطراف کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ مسائل کے طوفان کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ ”مہنگائی“ ایک عفریت کا رخ اختیار کر چکی ہے۔ سفید پوش بدحال اور بدحال فاقہ کشی کی نوبت تک پہنچے ہوئے ہیں۔ ایک جانب کھانے پینے کے لالے پڑے ہیں تو دوسری جانب پیٹرول، بجلی، گیس، اور پانی کے بلوں کی اُفتاد ہے۔ یعنی مسائل ہیں کہ ختم تو کیا کم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ اس لیے پچھلے سال کو کم از کم میں تو آفت زدہ قرار دیتی ہوں۔ اور یہ آفت اس نئے سال میں بھی ٹلتی نظر نہیں آرہی۔ فروری میں انتخابات کی توقع ہے لیکن اس کے بعد بھی بہتری کے کوئی آثار نہیں۔ پرانے چہروں سے نئے رویوں کی امید عبث ہے۔ جانے اور آنے والے سب ایک جیسے ہیں۔ اس لیے اپنا پرسانِ حال خود بننا پڑے گا تو نئے سال کے لیے سوچ یہی رکھنی ہے کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے ارد گرد والوں کا بھی بھلا ہو، اچھی امید کے ساتھ نئے سال کا استقبال کریں کہ اچھا برا وقت تو آتا جاتا ہے”وہ بھی نہیں رہا“ تو”یہ بھی کون سا رہے گا۔

فوزیہ ستار (مراسلہ نگار)

2023ء کے تناظر میں سالِ نو پر بہت سے خدشات ہیں۔ پچھلا سال بہت ہی خراب رہا۔سیاست دانوں کی کردار کشی کی گئی۔ عدالتوں میں بغیر کسی ثبوت کے کیس دائر کیے گئے، بغیر جرم کے سزائیں دی گئیں۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوگیا مگر بڑے بڑے لیڈر جیلوں میں بند ہیں۔ ایسے میں سیاستدانوں کے اختلافات شروع ہو گئے ہیں۔2024 میں بھی یہی حال رہا اور اختلاف بڑھتے گئے، الیکشن کے نتائج کو قبول نہیں کیا گیا تو 1977ء والی صورتحال ہو گی۔ حکومت بن بھی گئی، مخلوط حکومت ہو گی جو زیادہ عرصہ چل نہیں سکے گی۔ گیس، بجلی، پانی، صحت، تعلیم جیسے بنیادی اور اہم مسائل پر اگر آنے والی حکومت قابو پالے گی تو بہتری کی توقع ہے۔ ورنہ خدشات ہی خدشات ہیں۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے آمین۔

شکیل الدین (براڈ کاسٹر، سماجی کارکن)

جیسے جیسے دن آگے بڑھ رہے ہیں لگتا ہے کہ 2024 کے لیے بھی یہ خوف منڈلارہا ہے کہ مہنگائی عروج پر ہوگی۔ غریب کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ مزید کیا ہوگا؟ سوچ کر ڈر لگتا ہے کہ علاج مہنگا، دودھ، دہی، سبزی سب کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتیں۔ پَر لگ رہے ہیں قیمتوں کو۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ نئے سال میں بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔ معیشت کا اب بھی برا حال ہے۔ دیکھتے ہیں انتخابات کے بعد اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ بس امید ہی لگا سکتے ہیں کہ تنخواہیں مہنگائی کے حساب سے بڑھ جائیں۔ خواہش ہے کہ انتخابات میں ایسے نمائندے منتخب ہوں جو ملک کو صحیح سمت لے کر چلیں، جیسا قائدِ اعظم چاہتے تھے۔ مضبوط پاکستان، قرض دینے والا، لینے والا نہیں۔

آصفہ زہرا (براڈ کاسٹر، نیوز اینکر)

نیا سال بھی گزرے بہت سے سالوں کی طرح ہی معلوم ہوتا ہے، جس میں ہم توقعات تو باندھتے ہیں لیکن خدشات ہی توقعات پر حاوی ہوتے ہیں۔ اگر ہم ترتیب سے پیچھے جائیں ہر آنے والا سال یہ بتاتا ہے کہ گزرا ہوا سال زیادہ بہتر تھا۔ ابتری کے حوالے سے تو خدشات ہی خدشات ہیں۔ یہی ہے کہ کسی بھی چیز کی بنیاد اگر مضبوط ہو تو اس پر ایک بہتر عمارت قائم ہوتی ہے۔ پاکستان کی جو بنیاد ہے، جو سیاسی مسائل ہیں اس کی وجہ سے ہمارا جو سماجی ڈھانچا یا نظام ہے وہ نہ صرف برباد اور ختم ہو کر رہ گیا ہے بلکہ اصلاح کی صورت دکھائی ہی نہیں دیتی۔ کہتے تو یہی ہیں کہ ہمیں مثبت سوچنا چاہیے، مثبت رہنا چاہیے، پُر امید ہونا چاہیے لیکن جب میں تمام حالات کو بغور اور واقعات کو ترتیب وار دیکھتی ہوں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ در اصل وہ جو گزشتہ سے پیوستہ والی بات ہے وہی ہے۔ خرابی اتنی ہوچکی ہے پاکستان میں کہ معاشی طور پر تو نئے سال میں بھی آئی ایم ایف سے مزید پیکج چاہیے ہوگا۔ اس کا ہم پر مزید بوجھ ڈالا جائے گا ٹیکسز کی صورت میں۔ سیاسی طور پر تو میں سمجھتی ہوں کہ 8 فروری کو اگر انتخابات ہوئے تو کسی ایک بھی جماعت کو اکثریت نہیں دی جائے گی اور  اسی قسم کا سیاسی نظام رہے گا جو ہم نے ابھی دیکھا یا اس سے پہلے ہم نے دیکھا، وہی سب کچھ رہے گا۔ تو اس میں آپ کسی بہتری کی توقع نہیں کر سکتے اور اگر الیکشن نہیں ہوتے، آگے چلے جاتے ہیں تو حالات مزید ابتر ہوں گے اور بہتری نہیں آسکتی۔

قارئین!

نئے سال کا پہلا سورج طلوع ہوتا ہے تو شعوری یا لاشعوری طور پر دل میں یہی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ یہ وطنِ عزیز میں خوشگوار تبدیلی کا سال ہو، حالات بدل جائیں، عوام کی تکلیف دہ زندگی میں اچانک آسودگی اور راحت آجائے، کوئی معجزہ ہو جائے۔

شاید اس سال شکستہ ہوں مصائب کی سلیں

شاید اس سال ہی صحرا میں کچھ پھول کھلیں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں