The news is by your side.

”روزہ رکھوں تو کیسے رکھوں؟“

بعض لوگ اپنی آسانی، سہولت و آرام اور مفاد میں خوب بہانے بناتے ہیں . اس وقت تو یہ حیلہ جوئی اور بہانے بہت ہی کھلتے ہیں جب ان کو ارکانِ دین کی ادائیگی سے بچنے کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے.

رانیہ کے گھر میں رمضان بھر بیماریوں کا خصوصی بلیٹن نشر ہونے کا رواج ہے. اس کا ہر لفظ رشو خالہ کے دل میں خاربن کر چبھتا ہے اور کیوں نہ کھٹکے کہ ایک نہ دو تمام کی تمام بیماریاں نام نہاد اور سالانہ ہوتی ہیں. یہ ہر سال ماہ رمضان ہی میں وارد ہوتی ہیں ورنہ سال کے دیگر گیارہ مہینوں میں ان بیماریوں کا سایہ تک رانیہ کے گھر کے کسی فرد پر نہیں پڑتا۔ رشو خالہ رانیہ کے بلاوے پر اُس کے گھر گئیں تھیں.واپس لوٹیں تو غصہ سوانیزے پر تھا۔اور وہ کہ رہی تھیں ”اللہ میری توبہ جو میں رمضان بھر رانیہ کے گھر قدم بھی رکھوں۔ دل جلا ڈالا میرا“۔

رشو خالہ کے بھانجے ایوب کا یہ کہنا ہی غضب ہو گیا کہ ”خالہ! غصہ کر کے کیوں روزہ خراب کر رہی ہیں اپنا۔“رشو خالہ نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑ ے۔رشو خالہ اور اُن کے بھانجے ایوب اور ایوب کی دلہن شازیہ کے مابین ہونے والے مکالمہ کی ایک جھلک نذرِ قارئین ہے۔

رشو خالہ : رانیہ نے بلایا تھا،ذرا سی دیر میں دل خراب ہوگیامیرا۔گھر کا ہر فرد بے بہرہ ہے۔ کیا مجال جو کسی ایک نے بھی روزہ رکھا ہو۔

ایوب: ارشد بھائی تو صوم وصلوٰۃ کے بڑے پابند ہیں،بخارکی حالت میں بھی روزہ ترک نہیں کرتے۔

رشو خالہ : وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اُڑایا کرتے تھے۔ اب تو چھینک بھی آجائے تو ارشد میاں روزہ نہیں رکھتے۔

ایوب:گویا ”زوجہ کو دیکھ کر شوہر رنگ بدلتا ہے.“ رانیہ باجی کوبھی تو روزے نہ رکھنے کے ایسے ہی نامعقول بہانے سوجھتے ہیں۔

رشو خالہ : واہ یہ”نامعقول بہانے“ کی اصطلاح بھی خوب ہے۔جو رانیہ کے گھر کے ہر فرد پر سو فیصدصادق آتی ہے۔بعض اوقات تو اُن کے بہانے سُن کے میرا منہ حیرت کدہ بن جاتا ہے۔ جانے اُن کی سوچ کی پرواز کتنی بلند ہے؟کس مکتبۂ فکر سے اُن کا تعلق ہے جہاں سے نت نئے بہانوں کی بارش ہوتی رہتی ہے۔ہر بہانے کی ڈور روزہ نہ رکھنے کی سوچ سے بندھی ہوتی ہے۔ تف ہے۔

شازیہ :آپ کیوں ہلکان ہورہی ہیں خالہ! یہ اُن کا اور خدا کا معاملہ ہے۔یوں بھی روزے کی جزا دینے کا وعدہ تو اللہ نے اپنے بندوں سے خود کیا ہے نا۔

ایوب: سچ کہیے خالہ! محض ارشد بھائی کے گھر میں کسی کے بھی روزہ نہ رکھنے پرہی کیا آپ کا د ل جل رہا ہے یا اور کوئی بات ہے؟

رشو خالہ: مانتی ہوں شازیہ!بے شک روزہ رکھنا نہ رکھنا رانیہ اور اللہ کا معاملہ ہے لیکن روزہ نہ رکھنے پر افطاری کا اہتمام دیکھ کر میرا دل خراب ہورہا تھا۔

شازیہ : رانیہ باجی بتا رہی تھیں کہ ہمارے یہاں روز کا معمول ہے کہ سحری و افطارمیں سارے گھر والوں کی پسند کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یوں سمجھو سحری و افطار فرمائشی دسترخوان سے سجا اور بھرا ہوتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ سب کھاتے بھی رج کے ہیں اور کیوں نہ کھائیں سال بھر میں ایک یہی موقع تو ہوتا ہے جی بھر کر دسترخوان کی رونق بڑھانے کا“

رشو خالہ: یہ بیان آج میں نے بھی سُنا ہے۔

ایوب: لیکن بھئی مجھے شازیہ بھابھی سے سخت اختلاف ہے کہ ”سارے گھر والوں کا؟“ ارے بھئی یہ کہو نا ”سارے بے روزے داروں“ کا۔

رشو خالہ: (بے ساختہ ہنسی کی آوازیں) بات تو بھلی کہی تم نے ایوب میاں۔

ایوب: جب روزہ کوئی نہیں رکھتا تو سب کی پسند کے مطابق سحری و افطاری کا اہتمام کیوں؟

رشو خالہ: اب آئی سمجھ کیوں برہم ہو رہی ہوں میں۔ غضب خدا کا میرے دیکھتے ہی دیکھتے رانیہ نے بھرا پیالہ کسٹرڈ کا کھالیا اور روزہ نہیں رکھا شوگر کی زیادتی کی وجہ سے۔ ارشد میاں کو گردے کا درد چین نہیں لینے دے رہاتھا اس لیے روزہ نہ رکھ سکے تھے اور حال یہ تھا کہ افطار میں پالک کے پکوڑے۔ٹماٹر کی چٹنی اور رات کے کھانے میں ساگ آلواُن کی فرمائش پر ہی بن رہے تھے۔اور رانیہ فروٹ چاٹ بنا رہی تھیں اپنی پسند کی اور تمام رس دار پھل اس میں موجود تھے۔

شازیہ : اللہ رحم کرے رانیہ باجی کو شوگر اور ارشد بھائی کو گردے کی بیماری کب سے ہوئی؟

رشو خالہ: رمضان کا چاند دیکھتے ہی بیماریاں وبا کی طرح پھوٹ پڑی ہیں اور اُن کا واحد علاج روزہ نہ رکھنا ہے۔اور عید کے چاند کی خوشی میں جانے کیسے خود بخود اِن بیماریوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

شازیہ: رانیہ باجی کا میسیج آیا ہے کہہ رہی ہیں،آج موسم اچھا ہے۔ عید کے کپڑوں کی خریداری کے لیے بازار چل رہی ہو؟

رشو خالہ : ہاں ہاں ضرور جاؤ۔بازار جانے کے خیال ہی سے طبیعت ہشاش بشاش ہو گئی ہو گی۔

ایوب: عید کی تیاری؟ لیکن کیوں بھلا؟ عید تو روزے داروں کا انعام ہے تو یہ تیاری حق بھی روزے داروں کا ہے۔

رشو خالہ : میرے بھولے ایوب میاں۔ تم نہیں جانتے کہ روزہ نہ رکھنے کے بہانے بنانے والے فرائض کے معاملے میں جتنے غافل ہوتے ہیں حقوق کے معاملے میں اُتنے ہی بیدار۔اور یہاں تو معاملہ دل کی خوشی کا ہے کہ عید خوشی کا دوسرا نام ہے اور عید کی خوشی پر رانیہ کا جتنا حق بنتا ہے اور کسی کا کہاں؟کہ رمضان بھر وہ حقوق العباد کا خاص خیال رکھتے ہوئے اپنی اور اپنے گھر والوں کی پسند کی سحری و افطاری بناتے بناتے ہلکان ہو جاتی ہیں۔اب کیا اس نیکی کاصلہ بھی رانیہ کو نہ ملے جاؤ بی شازیہ لگے ہاتھوں تم بھی اپنی خریداری کر آؤلیکن خیال رکھنا کہ تم روزے سے ہو اور گھر آکر تم کو افطاری کا اہتمام بھی کرنا ہے۔ہاں اگر رانیہ نے ”روزہ رکھوں تو کیسے رکھوں؟“ کا راگ الاپا تو اسے بھی روزہ رکھنے کے چند تیر بہدف نسخے بتا دینا۔شاید تمہاری بات دل کو لگ جائے اور رانیہ بھی جان جائے کہ ”روزہ رکھے تو کیسے رکھے!“

(ایک شگفتہ تحریر جس کا ایک مقصد اصلاح بھی ہے)

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں