تحریر :حمیرا اطہر
چند روز قبل میں اور معروف شاعرہ و نقاد ڈاکٹر رخسانہ صبا اردو کے معروف افسانہ و ناول نگار اور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر حسن منظر سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گئیں۔ انہوں نے ہماری گفتگو کے آغاز سے پہلے ہی کہا، آپ اپنی بات بلکہ سوالات بعد میں کیجئے گا، پہلے میری بات سنیں۔ مجھے لگتا ہے، صحافی ہونے کی وجہ سے آپ اس بات کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔
ہم ہمہ تن گوش ہو گئے تو بولے، میں نے کچھ دن پہلے ایک بڑے انگریزی اخبار کو اس بارے میں خط بھی لکھا تھا اور تاکید کی تھی کہ وہ نہ صرف اسے شائع کریں بلکہ اس موضوع پر مزید لوگوں سے بھی لکھوائیں۔ لیکن وہ کسی اور سے کیا لکھواتے، خود بھی شائع نہیں کیا۔
بات یہ ہے کہ بحیثیت انسان ڈاکٹر حسن منظر ان واقعات سے بہت دل گرفتہ ہیں جو آج کل موبائل فون کے بے مُحابا استعمال کے نتیجے میں رونما ہو رہے ہیں۔ کہنے لگے، یہ دنیا بھر میں ہو رہا ہے اور اس کی جانب وہ توجہ نہیں دی جا رہی جو دینی چاہیے۔ کوئی دریا میں چھلانگ لگا رہا ہے، کوئی بچوں سمیت خود کشی کر رہا ہے۔ کہیں بیٹا باپ کو قتل کر رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں دیکھئے کیا ہوا ہے، پاکستان سے ایک مسلمان عورت اپنے چار بچوں کو لے کر اپنے عاشق یا محبوب سے ملنے بھارت چلی گئی۔ اسے پاکستان سے بھارت کا ویزا نہیں ملا تو پہلے نیپال گئی، پھر وہاں سے ویزا لے کر بھارت گئی جہاں ہندو مذہب اختیار کیا اور ہندو مرد سے شادی کر لی۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد بھارت سے ایک ہندو عورت اپنے چار بچوں کو چھوڑ کر پاکستان آگئی۔ یہاں مسلمان ہو کر ایک پاکستانی مرد سے شادی کر لی۔ میڈیا اس بات پر بغلیں بجا رہا ہے کہ حساب برابر ہو گیا۔ یہ محض دو سادہ واقعات نہیں۔ بحیثیت سائیکاٹرسٹ میں اس بات پر حیران ہوں کہ کسی بھی ملک میں ایسے واقعات کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا جا رہا؟ ہمارے اخبارات انہیں اور قتل و خودکشی کے دیگر واقعات کو نچلے یا اندورنی صفحات میں ضمنی اور غیر اہم خبروں کی طرح شائع کرتے ہیں۔ یہی حال الیکٹرونک میڈیا کا ہے۔ نمایاں کیا جاتا ہے تو حکم رانوں اور سیاست دانوں کی خبروں کو۔ اور خبریں بھی کیا، یہ ایک دوسرے کو لعن طعن کرتے یا اپنے ذرا سے کام کو بڑھا چڑھا کر ان کا پرچار کرتے ہیں۔ کوئی اس بات کا کھوج نہیں لگاتا، یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا کہ آخر ایسے واقعات ہوتے کیوں ہیں؟ حکومتوں اور سیاست دانوں کو اپنی حکومتیں بچانے اور سیاست بازی ہی سے فرصت نہیں ملتی۔ میں کہتا ہوں، یہ بعد میں کرلیں پہلے اس طرف توجہ دیں کہ ملک کا مستقبل اور معاشرہ تباہ ہو رہا ہے۔ یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ بچوں اور بڑوں کو بھی آہستہ آہستہ ہپناٹائز کیا جاتا ہے۔ ان کے ذہن بدلے جا رہے ہیں۔ موبائل پر ایسے کھیلوں کی ایپ متعارف کرائی جارہی ہیں جو بظاہر بے ضرر ہیں۔ شروع شروع میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ اگر تم یہ کرو گے، وہ کرو گے تو اتنے پوائنٹس جیتو گے۔ اور آخر میں انہیں ایسے موڑ پر پہنچا دیا جاتا ہے کہ پھر وہ جو کہتے ہیں اسے وہی کرنا ہوتا ہے حتیٰ کہ خودکشی یا قتل تک۔
بچہ پوری پوری رات موبائل پر ”پب جی“ گیم اور ایسے ہی دوسرےکھیل کھیلتا ہے مگر والدین یا دیگر گھر والے یہ نہیں دیکھتے کہ بچہ کس قسم کے کھیل کھیل رہا ہے۔ایسا بھی ہوا ہے کہ پب جی گیم میں ہارنے کے بعد جب ایک نوجوان کا مذاق اڑایا گیا تو اس نے دلبرداشتہ ہوکر اپنی زندگی ختم کرلی۔ایک پب جی ہی نہیں اس کے علاوہ بھی اس قسم کے بہت سے کھیل ایجاد کر لیے گئے ہیں۔ ان واقعات سے میرے دل کو شدید تکلیف ہوتی ہے۔ کوئی یہ نہیں دیکھ رہا کہ پب جی اور اسی طرح کے دوسرے گیم کا یہ سلسلہ کہاں سے چل رہا ہے اور اسے کس طرح روکا جا سکتا ہے؟ یہ کھیل بچوں کے ذہن میں یہ بات بھی راسخ کر رہے ہیں کہ تمہارا دادا، جو کوئی کام نہیں کر رہا، گھر بیٹھا فالتو روٹی کھا رہا ہے، اسے ختم کر دو تو اس کا سارا پیسہ تمہیں مل جائے گا۔
چین اور بھارت میں فیس بک، یو ٹیوب اور دیگر ایپ پر اتنی آزادی میسر نہیں ہے جتنی ہمارے ہاں ہے۔ انہوں نے کچھ شرائط کے ساتھ ان ایپ کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں میں اتنا شعور پیدا کیا جائے کہ وہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے آواز اٹھائیں اور حکومت کو مجبور کریں کہ وہ اس سے متعلق مؤثر اور قابلِ ذکر اقدامات کرے۔
میں چوں کہ برسوں نائجیریا میں بھی رہا ہوں تو وہاں کی معاشرت کا مطالعہ بھی گہرا ہے۔ وہاں تین قبائل ہیں: ایبو (IBO)، یوروبا (YOROBA) اور ہاﺅسا (HAUSA)۔ ایبو تیز طرار اور چالاک قبیلہ ہے، یوروبا عیاش جب کہ ہاﺅسا نسبتاً کم زور اور مسلمان طبقہ ہے۔ IBO مخفف ہے I Before Others کا۔ مجھے لگتا ہے، یہی سوچ ہمارے نوجوانوں اور بچوں میں بھی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ اس کا سدِباب فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اس پیغام کو عام کیا جائے اور تمام سنجیدہ لکھنے والے اس بارے میں تواتر سے لکھیں۔
ڈاکٹر حسن منظر کا یہ پیغام میں نے تو آپ تک پہنچا دیا ہے، اب آپ کی باری ہے۔