جس طرح ہمارے یہاں تعلیم کی شرح غیرتسلی بخش ہے بالکل اسی طرح بیشتر والدین اپنے بچوں کے امتحانی نتائج سے بھی غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔ بعض والدین تو اس ضمن میں غیرمعمولی حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں جس سے اُن کی بے حد ذہین اولاد بھی ذہنی دباؤ اور نفسیاتی عوارض مبتلا ہو جاتی ہے۔ ایسے والدین اپنی اولاد پر زور دیتے ہیں کہ ہرحال میں اے ون گریڈ لانا ہے۔ ان میں سے اکثر والدین کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ بچوں کا علم، ان کی عام معلومات اور تعلیمی قابلیت اطمینان بخش ہے یا نہیں؟
اکثر والدین کے لیے فخر اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کا بچہ ان کی مرضی کے مطابق امتحان میں شان دار نمبروں سے کامیاب ہوا ہے۔ والدین کے اس طرزِ عمل سے بچے بھی ظاہر ہے گریڈ کو قابلیت کا پیمانہ سمجھنے لگتے ہیں اور اس کے سبب اے ون گریڈ لانے والے بچے احساسِ برتری اور اس سے کم گریڈ میں پاس ہونے والے احساسِ کمتری میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا ہے یہ کمرۂ جماعت میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرنے والے اور نکمے سمجھنے جانے بچے عملی زندگی میں بہت کامیاب رہے اور وہ طالبعلم جن کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی عملی زندگی میں کچھ خاص نہیں کرسکے۔
ہم نے اس حوالے سے چند اساتذہ، والدین اور طلباء و طالبات کے سامنے دو سوال رکھے جو یہ ہیں:
سوال 1: والدین رزلٹ اورینٹیڈ کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟
سوال 2: کیا بچے کی ذہانت اور قابلیت کا اندازہ اُس کے گریڈ سے لگایا جا سکتا ہے اور کیا اے ون گریڈ حاصل کرنے والے بچے ہی زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں؟
ان سوالوں کے جواب میں شخصیات کی آراء بالتّرتیب پیشِ خدمت ہے۔
پروفیسر رخشندہ طلعت (اعزازی پروفیسر)
1- والدین نے زندگی کے دیگر معاملات کی طرح بچوں کی کامیابی کے لیے پڑھائی اور رزلٹ کے معیار قائم کر رکھے ہیں۔ والدین فوکس اس بات پر نہیں رکھتے کہ بچوں کے شوق کے مطابق اُنھیں پڑھایا جائے، بس یہی کہا جاتا ہے کہ اچھا گریڈ لانا ہے، یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کس لیول کا ہے، اس میں اتنی اہلیت ہے بھی کہ نہیں، لیکن بچے سے غیرمعمولی کارکردگی کی توقع رکھتے ہیں۔ کل کے مقابلے میں آج کے بچوں پر پڑھائی کا بہت بوجھ ہے۔ بچے کے دل میں پڑھنے کا شوق اور اچھے رزلٹ کی اُمنگ ضرور بیدار کریں لیکن اسے بچے کے لیے وبال نہ بنائیں، ہاں بچے کی اہلیت کے مطابق اس سے توقع ضرور رکھیں۔
2- ذہانت بہت واحد قسم کی اصطلاح ہے۔ صرف پڑھائی میں لائق بچہ ذہین قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کم نمبر لانے والا بچہ بھی ذہین ہو سکتا ہے۔ مختلف طرح کی ذہانتیں بچوں میں ہوتی ہیں۔ منحصر ہے کہ ہمارا فوکس کس طرف ہے۔ اس لیے مختلف انداز سے ذہانت دیکھی اور ناپی جاتی ہے اور ہوتی بھی ہے۔ صرف گریڈ پر اس کا انحصار نہیں۔ پڑھائی لکھائی کی حد تک چیزوں کو اچھی طرح یاد کرنا اور محدود وقت میں امتحانی پرچوں میں جو کچھ لکھا اس میں کتنے نمبر ملے، اس سے گریڈ کا تو علم ہوجاتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں بہت سے اے ون گریڈ والے بچے جب یونیورسٹی لیول پر آتے ہیں تو اُن میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کئی مرتبہ اتنی اچھی نہیں ہوتی جتنی اے گریڈ والوں کی ہوتی ہے۔ تھیوری میں اے ون گریڈ مل جانا اور بات ہے۔ اس سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ہر جگہ اور ہمیشہ کامیاب ہوگا، کیونکہ ایسا بچہ کلاس میں اچھا پرفارم کر سکتا ہے اگر وہ حسب موقع اس کا اطلاق بھی کر سکتا ہے تو آگے زندگی میں کامیابی کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ ایسا نظام ہونا چاہیے کہ نمبرخریدے ہوئے نہ ہوں، سفارش نہ ہو جو کہ ہمارے معاشرے میں شرمناک چیزیں ہیں۔ زندگی میں وہ بچے کامیاب ہوتے ہیں جو سوشل ہوں، کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جس میں یہ صلاحیتیں زیادہ ہیں اُس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ خواہ اُس کا گریڈ کوئی بھی ہو۔
محمد کاشف ترک(لیکچرار کیڈٹ کالج کراچی)
1- یہ مسابقت کا دور ہے۔ اکثر والدین کی ترجیح ہوتی ہے کہ ہمارے بچے کا امتحانی نتیجہ سب سے اچھا آنا چاہیے۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارا نظامِ تعلیم ہے۔ جس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہمارا فوکس رزلٹ کے بجائے تعلیمی معیار پر ہونا چاہیے اور تربیت کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ والدین بھی خیال کرتے ہیں کہ ہمارا بچہ اچھے ادارے میں اعلیٰ تعلیم کو جاری رکھے، چنانچہ وہ اچھے رزلٹ کے لیے دیگر اہم پہلوؤں پر توجہ نہیں دے پاتے۔
2- دنیا اس وقت IQ سے نکل کر EQ پر کام کر رہی ہے لیکن ہمارا نظامِ تعلیم ابھی تک ریس میں دوڑنے والے گھوڑے تیار کر رہا ہے۔ بچے کی ذہانت کا اندازہ صرف گریڈ سے نہیں لگایا جا سکتا۔ گریڈ صرف اس کی شخصیت کے ایک پہلو کا اظہار ہے۔ ذہانت کو مکمل جانچنے کے لیے بچے کے جذبات، عادات، خیالات و تصورات کو بھی جانچا جائے۔ کامیابی کا راستہ ایک مجموعہ ہوتا ہے جس میں تعلیم، مہارتیں، مصروفیات، اخلاقی اقدار اور مواقع سے استفادہ شامل ہوتا ہے۔
خدیجہ رزاق(معلمہ)
1- ماں باپ مقابلے کے شوق میں اپنی اولاد کو بطور مسابقتی آلہ استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ فخریہ بتا سکیں کہ ہماری اولاد پوزیشن لیتی ہے اور ہمسائے کے بچے اے ون گریڈ لاتے ہیں۔ ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہاتھی کا بچہ سوئمنگ نہیں کر سکتا اور مچھلی کا بچہ پرندے کی طرح اڑ نہیں سکتا۔
2- ہرگز نہیں۔ اے ون گریڈ اور ٹاپ پوزیشن میں آنے کے چکر میں بچہ کتابی کیڑا بن جاتا ہے۔ ممکن ہے کبھی اس کو روڈ کراس کرنے میں مشکل آتی ہو، لوگوں کے ساتھ سماجی رابطے میں مشکل آتی ہو تو ایسے بچے جو زندگی کو نہ پرکھیں، زندگی کا ذائقہ نہ چکھیں وہ ذہین کیسے ہو سکتے ہیں؟ ذہانت الگ چیز ہے اور گریڈز الگ بات۔ بہت ساری ایسی مثالیں ہیں جو بچے کچھ بھی نہیں تھے، امتحان میں بھی رہ گئے مگر زندگی میں بہت کامیاب رہے۔ آئن اسٹائن نے اسکول میں نہیں پڑھا کیونکہ اس کی ٹیچر نے اس کو پڑھانے سے معذرت کر لی تھی۔ جن بچوں کی اسکولنگ اچھی نہیں ہوئی، بعض اوقات وہ Learner بہت اچھے ہوتے ہیں۔
ثمرین شیراز
1- آج کل والدین سمجھتے ہیں ہر چمکتی چیز کی زیادہ قدر ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر بچوں کا رزلٹ بہت اچھا ہو گا تو ان کی قدر بھی زیادہ ہو گی، اچھے کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ مل سکتا ہے۔ آگے ان کی پروفیشنل لائف بہت اچھی گزرے گی چاہے اس میں بچے کی اپنی ذہانت کچھ نہ ہو وہ کسی طرح سے بھی اپنے گریڈز حاصل کریں۔
2- نہیں۔ کیونکہ گریڈ کسی بھی جائز یا ناجائز طریقے سے حاصل کر سکتے ہیں۔ میرے ایک جاننے والے اپنے بچے کو کم نمبر لانے کی وجہ سے لعن طعن کرتے تھے کہ تم زندگی میں کچھ نہیں کر سکتے۔ جب وہ امریکہ گیا وہاں اس نے بغیر نقل اور سفارش کے فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کی کیونکہ اس پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ اس نے وہاں اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کیا۔ اچھے گریڈز نہ لانے والے بچے بھی اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کے پاس ہنر بھی ہونا چاہیے جسے استعمال کر کے وہ اچھی فیلڈ میں آگے جا سکتے ہیں۔ اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔
شاہ رخ نجیب (ماں)
1- رزلٹ اورینٹیڈ تو والدین ہمیشہ سے رہے ہیں۔ اچھے انسٹیٹیوٹ میں داخلے کے لیے اچھا رزلٹ ہونا ضروری ہے۔ باقی ارد گرد کے ماحول سے بچنا مشکل ہے تو صرف رزلٹ اچھا مانگ کے ہی ہم بچوں کو پڑھائی میں سنجیدہ کر سکتے ہیں۔ ہر تفریح ان کو انٹرنیٹ سے مل رہی ہے۔
2- ضروری نہیں، لیکن ذہین بچے کو درست سمت میں لے کر جانے کے لیے اچھے گریڈ کی ڈیمانڈ ضرور کی جا سکتی ہے تاکہ وہ اپنے اچھے مستقبل کی طرف گامزن ہو۔ اے ون گریڈ کامیابی کا معیار نہیں لیکن اچھے گریڈ والے بچوں کے پاس مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ کامیاب زندگی میں مستقل مزاجی، بڑوں کی رہنمائی، ایمانداری اور کسی حد تک اچھی قسمت کا دخل بھی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نیلوفر فہد (ماں)
1- کیونکہ آج کل مقابلہ بہت زیادہ ہے، اچھے کالج اور یونیورسٹی میں داخلے کے لیے معیار ہی گریڈ بنا دیا گیا ہے۔ بچے کی ذہانت یا اس کی اپنی صلاحیت کو پروان چڑھانے کے لیے کوئی ادارہ نہیں بنایا گیا جس میں وہ اپنی نالج اور صلاحیتوں کے کی بنیاد پر داخلہ لے سکے۔
2- بالکل نہیں۔ اے اور بی گریڈ والے بچے بھی زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہمارا نعرہ یہ بن گیا ہے کہ اے ون گریڈ والے بچے ہی اچھی درسگاہ میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اکثر سائنسدان بہت زیادہ ذہین نہیں تھے کچھ تو اسکول بھی نہیں گئے۔لیکن اب اچھی جگہ داخلے کے لیے بچے کی ذہانت ایک طرف، اس کے گریڈز زیادہ ضروری ہیں کہ اب ذہانت کا معیار ہی گریڈ ہے۔ کم گریڈ والے بچے بھی زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں لیکن اس کے لیے ان کے والدین کو جدوجہد بہت کرنی پڑتی ہے۔ گریڈز کے ساتھ ذہانت، قابلیت، حاضر جوابی، اور مواقع کو پہچاننے کی صلاحیت ہو تو بچہ کسی بھی ماحول میں ترقی کرسکتا ہے۔
عامر نثار (باپ)
1- والدین کو بچوں سے ہمیشہ اچھے نتائج کی توقع وابستہ رہی ہے۔ آج بس فرق اتنا ہے کہ والدین اس نتیجے کے لیے خود کو ہلکان نہیں کرتے بلکہ ٹیوشن سینٹرز پر انحصار کرتے ہیں۔
2- لگایا بھی جا سکتا ہے بشرطے کہ بچہ جو پڑھ رہا ہے اس میں اس کی دلچسپی بھی ہو۔ بات ساری بچے کی دلچسپی کی ہے۔ اگرمعاملہ اس حد سے باہر ہو تو ذہین سے ذہین بچے کے گریڈز خراب ہو سکتے ہیں۔ اگر کامیابی سے آپ کی مراد معاشی استحکام ہے تو ہمارے سسٹم میں تو اے ون گریڈ حاصل کرنے والے بھی کامیاب زندگی نہیں گزار پا رہے تو دیگر کی کیا بات کریں۔ حصولِ تعلیم کا مقصد زندگی کی کامیابی و ناکامی سے مشروط نہیں ہونا چاہیے۔
شکیل الدّین (باپ)
1- والدین سمجھتے ہیں کہ بچے کا رزلٹ ہی سب کچھ ہے۔ بھلے وہ نقل کر کے امتحان پاس کر رہا ہو، بچہ پرفیکٹ ہے۔ سب کو بتانے میں کاندھے اونچے ہوتے ہیں ہمارا بچہ اے ون گریڈ لایا ہے۔ اس نے ٹا پ کیا ہے۔ رزلٹ کو پیمانہ بنا لیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔
2- بچے کی ذہانت کا اندازہ اس کے گریڈ کے بجائے اس کی بات چیت، طور طریقے اور اس کے طرزِ زندگی سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ تمام چیزیں اچھے طریقے سے انجام پا رہی ہیں تو گریڈ خود بن جاتا ہے۔ بچے کی خود اعتمادی، محنت کامیاب زندگی میں معاون ہوتی ہے۔ اے ون گریڈ بھی اس کا ذریعہ ہے مگر تمام حقائق کو مدِ نظر رکھیں تو والدین، اساتذہ، مدرسے کی تربیت کامیاب زندگی کا ذریعہ بنتی ہے جس پر تمام افراد کو توجہ دینی چاہیے۔
جویریہ شہریار(طالبہ)
1- ہمارے بچپن میں والدین بچوں سے پوزیشن لانے کو کہتے تھے لیکن اب لوگوں میں شعور آرہا ہے تو آج کی نسل کے والدین اتنے رزلٹ اورینٹیڈ نہیں ہیں۔ وہ اس چیز پر زیادہ غور کرتے ہیں کہ ہمارے بچے میں کس چیز کی قابلیت ہے کیونکہ پہلے والدین میں پڑھائی کا اتنا رجحان نہیں ہوتا تھا۔ جتنا آج کے والدین میں ہے تو وہ بچوں کو اسی مضمون میں اور باقاعدہ اسکول منتخب کر کے داخلہ دلواتے ہیں جہاں ان کے بچے کو اس کی دلچسپی کے مطابق چیز ملے۔
2- ہاں بھی اور نہیں بھی۔ ظاہر ہے جو بچے اچھے گریڈ لے کر آتے ہیں اور جو بچے کلاس میں ناکام ہوتے ہیں ان میں کچھ نہ کچھ تو ذہانت کا فرق ہوتا ہے کہ ایک ہی عمر اور ایک ہی کلاس میں پڑھنے والے بچوں کا دماغ بھی ایک ہی طرح سے بڑھ رہا ہوتا ہے لیکن پوزیشن لانے والے بچے دماغ کا استعمال تھوڑا زیادہ کرتے ہیں اور پڑھائی پر زیادہ فوکس کرتے ہیں تو ان کا گریڈ اچھا آتا ہے۔ ضروری نہیں جو بچے کلاس میں فیل ہوتے ہیں اُن میں کوئی ذہانت ہے ہی نہیں یا وہ کچھ کر ہی نہیں سکتے لیکن ان کے گریڈز سے ان کی ذہانت کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ کچھ بچے جو اوسط ہوتے ہیں ذہانت تو ان میں بھی ہوتی ہے۔ کئی مشہور موجد کبھی اسکول نہیں گئے لیکن انھوں نے وہ چیزیں ایجاد کیں جو کوئی اور نہیں کرسکتا تھا۔ کبھی اسکول نہ جانے والے بچے بھی اتنے ہی کامیاب ہوتے ہیں اور وہ کچھ کر دکھاتے ہیں جو شاید ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کرنے والے نہیں کر پاتے۔ بات صرف اتنی سی ہے جس طرح ہر پڑھا لکھا انسان ٹیچر نہیں بن سکتا اسی طرح ہر اے ون گریڈ لانے والا بچہ زندگی میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
فرویٰ اطہر (طالبہ)
1- آج تعلیمی نظام کی مانگ ہی اچھا رزلٹ ہے۔ ورنہ اچھے اسکول اور کالجز میں داخلہ ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے نامی گرامی اداروں سے وابستہ ہوں اسی لیے وہ رزلٹ اورینٹیڈ ہوتے ہیں۔
2- گریڈ سے کسی کی ذہانت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ کچھ بچے پڑھائی میں اچھے ہوتے ہیں اور کچھ اسپورٹس یا آرٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں، ذہین ہوتے ہیں۔ کیا پتہ جو آرٹ اور اسپورٹس میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ اُن اے ون گریڈ لانے والے بچوں سے زیادہ ذہین ہوں۔ ضروری نہیں جو اپنا کام پوری لگن اور محنت سے انجام دے، ہار سے ڈرے بغیر مشکلات کا سامنا کرے اور جس کا دھیان صرف اپنی منزل پہ ہو جیت اور کامیابی صرف اسی کی ہو۔ چاہے وہ کتنی ہی مرتبہ اے ون گریڈ میں پاس ہوا ہو۔
سنیعہ شہریار (طالبہ)
1- دورِ جدید میں جہاں سوچ تبدیل ہو رہی ہے اور ہر شعبے میں جدید طرز اپنایا جا رہا ہے وہاں ہمارے معاشرے میں آج بھی والدین رزلٹ اورینٹیڈ ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ بچوں کو کس چیز میں دلچسپی ہے، بس اچھا رزلٹ لانے پر زور دیتے ہیں اور ان کے سامنے ان کے ہم عمر بچوں کی ذہانت کی مثالیں پیش کرتے ہیں کیونکہ ان والدین میں مقابلے کا رجحان بہت زیادہ ہوتا ہے۔
2- بچے کی ذہانت کا اندازہ اس کے گریڈ کے بجائے قابلیت سے لگانا چاہیے۔ بچے کی دلچسپی جس چیز میں ہے اس چیز کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس کے باعث لوگ بچے کی ذہانت کا اندازہ نہیں لگا پاتے ایسے کئی بچے دنیا میں موجود ہیں جو اے ون گریڈ نہیں لاتے لیکن ان کا ذہن اے ون گریڈ لانے والوں سے زیادہ تیز ہوتا ہے اور وہ زیادہ قابل ہوتے ہیں اور اس کی مثال دنیا کے عظیم سائنسداں نیوٹن ہیں۔
وردہ اطہر باری (طالبہ)
1- ہر بچے کے والدین یہی چاہتے ہیں کہ وہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہو، تاکہ اس کو اچھے سے اچھے کالج اور یونیورسٹی میں با آسانی داخلہ مل جائے۔ کل کے مقابلے میں آج پڑھائی کا رجحان بہت بڑھتا جا رہا ہے۔ سو میں سے نوے فیصد بچے پڑھ رہے ہیں۔
2- بالکل غلط، کیونکہ محنت جستجو اور لگن سے ہر بچہ پڑھائی کرتا ہے۔ دو طرح کے بچے ہوتے ہیں، ایک وہ جو ذہین اور ہر چیز میں مہارت رکھتے ہیں اور بچپن ہی سے اے ون گریڈ حاصل کرتے ہیں اور دوسرے وہ بچے جو بہت محنت کے باوجود بدقسمتی سے اے ون گریڈ حاصل نہیں کرتے۔ بچوں کے گریڈز دیکھ کر نہیں ان کی صلاحیتوں اور جن چیزوں میں وہ مہارت رکھتے ہیں انھیں دیکھ کر سراہنا چاہیے۔ حال ہی میں ایک ذہین طالبعلم گولڈ میڈلسٹ بن کے نکلا جسے ایک اعلیٰ منصب پر ہونا چاہیے مگر افسوس کہ ایک گولڈ میڈلسٹ نوکری کے لیے سفارش کا محتاج ہے۔ اے ون گریڈ لانے والا ہی نہیں ناکارہ بچہ بھی اپنے ہنر یا سفارش کے بل پر کامیاب زندگی گزارتا ہے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ اے ون گریڈ والا بھی اپنے کسی اور ہنر کی بنیاد پر کامیاب زندگی گزار رہا ہے۔
محمد زین (طالبعلم)
1- کیونکہ مہارت کے بجائے والدین چاہتے ہیں کہ رزلٹ کے ذریعے ان کے بچوں کا نام خاندان بھر اور ہر جگہ پھیلے۔ آج دنیا میں پیسے کمانے کے طریقے بہت سارے ہیں اور مقابلہ بہت زیادہ ہے۔
2- ہرگز نہیں، کیونکہ بعض دفعہ استاد بھی نا انصافی کرتے ہیں جیسے اس بار اے لیولز میں ہوا لیکن کچھ اور عوامل بھی ہوتے ہیں جس میں بچے کی تعلیم اور اس کا گھر اور صحت کے مسائل اس کے علاوہ بچہ اپنی پسندیدہ چیز اور دل چسپی کی جگہ ذہانت استعمال کرتا ہے اور اسکول کے کام زیادہ تر پسندیدہ نہیں ہوتے اس لیے ذہانت کا استعمال یہاں نہیں کرتا تو گریڈ بھی کم لاتا ہے۔ بالکل نہیں ایک تو نصیب دوسرا محنت و مشقت سے کام کرے تو چاہے بی یا سی گریڈ کو بہتر کر سکتے ہیں۔ خود کو ایسے منوا سکتے ہیں جیسے آپ اے گریڈ والے ہیں۔
محمد بلال جمال (طالبعلم)
1- کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اچھا گریڈ لا کر بچہ تعلیمی میدان میں بہت کامیاب رہے اس کو اچھی یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے۔
2- تعلیم میں ذہانت کا اندازہ بچے کے گریڈ سے نہیں اس کے علم سے کیا جاتا ہے اور علم وہی بہترین ہوتا ہے جو دوسرے کے کام آسکے۔ بے شک وہ بچے کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن جو بار بار کوشش کرتے ہیں اور ہر کوشش سے کچھ نیا سیکھتے ہیں وہ زندگی کے ہر امتحان میں ان ہی کوششوں سے کامیاب ہوتے ہیں۔
قارئین، والدین کی یہ خواہش بری نہیں کہ اُن کے بچے کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں، لیکن اس کے لیے بچوں پر غیر ضروری دباؤ ڈالنا اُن کی شخصیت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ اے ون گریڈ کو مسئلہ بنانے کے بجائے اپنے بچے میں علمی شعور بیدار کرنے کی کوشش کریں، اُسے وہ مواقع فراہم کریں کہ بچے کی عام معلومات بڑھے، ان کی شخصی خوبیوں کو بنا سنوار کر اُجاگر کریں جو اُنھیں معاشرے کا ذمہ دار فرد اور کامیاب انسان بنائے۔ نہ اے ون گریڈ ذہانت کا پیمانہ ہے اور نہ ہی صرف اے ون گریڈ لانے والے طالبعلم ہی زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ کامیابی ہمیشہ محنت، لگن اپنے کام میں دلچسپی اور جذبے کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔