The news is by your side.

اخترالایمان: اردو نظم کے نئے معیار متعین کرنے والا شاعر جنھیں نقادوں نے نظر انداز کیا

ممتاز فکشن نگار، ادبی نقّاد اور شاعر شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں، اختر الایمان کی زندگی کا بڑا حصہ اگر ناقدری میں نہیں تو نقادوں کی توجہ کے فقدان میں گزرا۔

اخترُ الایمان کا شمار جدید اردو نظم کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے جو صفِ اوّل کے فلمی مکالمہ نویس بھی تھے بھارتی فلم انڈسٹری میں ’وقت‘ اور ’قانون‘ وہ فلمیں تھیں جن کے مکالمے انہی کے قلم سے نکلے اور زباں زدِ عام ہوئے۔ اختر الایمان 9 مارچ 1996ء کو وفات پاگئے تھے۔

شمسُ الرّحمٰن فاروقی لکھتے ہیں کہ سنہ 1940 اور اس کے آس پاس کے تمام نوجوانوں کی طرح اخترُ الایمان بھی شروع میں ترقی پسند، یا یوں کہیں کہ ترقی پسندوں کے ساتھ تھے۔ اس زمانے کی نظموں میں بھی اختر الایمان کے یہاں ’سماجی شعور‘، ’طبقاتی کشمکش‘ یا ’انقلاب‘ وغیرہ کا بہت ذکر نہیں ملتا لیکن جلد ہی انھوں نے محسوس کر لیا کہ ان کا مزاج، یا شاعری ہی کا مزاج، اس طرح کے پروگرام زدہ اندازِ سخن کو نہیں قبول کرتا۔ فیض کو وہ بہت پسند کرتے تھے، لیکن راشد کا اثر ان کے یہاں زیادہ تھا (اگرچہ انھیں راشد کے یہاں ایک طرح کی ’بلند آہنگی‘ انھیں پسند نہ تھی، کیوں کہ خود ان کے کلام میں تقریباً شروع سے گفتگو اور خود کلامی کا رنگ نمایاں تھا۔) پھر، فیض کے مقابلے میں راشد اور میرا جی کے وہ زیادہ قائل تھے۔

اردو شاعری کی مقبول صنف سخن غزل سے کنارہ کرتے ہوئے بھارت کے اس مشہور شاعر نے اردو نظم کے نئے معیار متعین کیے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی زبان اردو شاعری سے دلچسپی رکھنے والے تغزل اور ترنم آشنا قارئین و سامعین کے لئے کھردری اور غیر شاعرانہ تھی لیکن وقت کے ساتھ یہی زبان ان کے بعد آنے والوں کے لئے نئے موضوعات اور اظہارِ بیان کی نئی جہات تلاش کرنے کا حوالہ بنی۔ ان کی شاعری قاری کو نہ تو چونکاتی ہے اور نہ فوری طور پر اپنی گرفت میں لیتی ہے لیکن دیرپا اثر چھوڑتی ہے۔ ان کے ہاں موضوعات، احساسات اور تجربات کا تنوع ملتا ہے۔ ان کی ہر نظم زبان، لفظیات، لب و لہجہ اور آہنگ کا ایک نیا نظام پیش کرتی ہے۔

اختر الایمان 12 نومبر 1915 کو مغربی اتر پردیش کے ضلع بجنور کی بستی قلعہ پتھر گڑھ میں ایک مفلوک الحال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حافظ فتح محمد تھا جو امامت کرتے تھے اور مسجد میں بچوں کو پڑھایا بھی کرتے تھے۔ اس گھرانے میں دو وقت کی روٹی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ تھی۔ والد نے ان کو قرآن حفظ کرنے ڈال دیا لیکن جلد ہی ان کی چچی جو خالہ بھی تھیں ان کو دہلی لے گئیں اور یتیم خانہ موئید الاسلام میں داخل کرا دیا۔ یہاں اختر الایمان نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ یہیں ایک استاد نے اختر الایمان کی صلاحیتوں کو بھانپ کر انھیں لکھنے لکھانے کی طرف مائل کیا اور ان کی حوصلہ افزائی سے اختر نے سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی۔ جب انھوں نے فتحپوری اسکول میں داخلہ لیا تو ان کے حالات اور تعلیم کا شوق دیکھتے ہوئے ان کی فیس معاف کر دی گئی اور وہ چچا کا مکان چھوڑ کر الگ رہنے لگے اورٹیوشن پڑھا کر اپنا خرچ اٹھانے لگے۔ 1937 میں انھوں نے اسی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ میٹرک کے بعد اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا جہاں ایک شعلہ بیاں مقرر اور اپنی رومانوی نظموں کی بدولت لڑکیوں میں بہت مقبول ہوگئے۔ اسی زمانہ میں والدہ نے ان کی مرضی کے برخلاف ان کی شادی ایک ان پڑھ لڑکی سے کر دی جو طلاق پر ختم ہوئی۔ اختر الایمان نے کئی عشق کیے لیکن یک طرفہ اور مالی طور پر آسودہ نہ ہونے کے باعث ناکام عشق۔اینگلو عربک کالج سے بی اے کرنے کے بعد ان کو وہاں ایم اے میں داخلہ نہیں ملا کیونکہ ان کو کالج کے ڈسپلن کے لئے خطرہ سمجھا جانے لگا تھا۔ وہ تنظیمی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور ہڑتال وغیرہ میں بھی ان کا ہاتھ رہا تھا۔ انتظامیہ ان سے کیسے خوش ہوتی؟ بعد میں اخترالایمان ساغر نظامی کی خواہش پر 1941 میں “ایشیا” کی ادارت کے لئے میرٹھ چلے گئے جہاں ان کی تنخواہ 40 روپے ماہوار تھی۔ میرٹھ میں اختر کا دل نہیں لگا اور وہ چار پانچ ماہ بعد دہلی واپس آ کر سپلائی کے محکمہ میں کلرک بن گئے۔ لیکن ایک ہی ماہ بعد 1942 میں ان کا تقرر دہلی ریڈیو اسٹیشن میں ہو گیا۔ یہ ملازمت ریڈیو اسٹیشن کی داخلی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی اور ان کو برطرف کر دیا گیا۔ اس کے بعد اختر الایمان نے کسی طرح علی گڑھ جا کر ایم اے اردو میں داخلہ لیا لیکن ناداری کی وجہ سے صرف پہلا سال مکمل کرسکے اور کمانے کی غرض سے پونا جاکر شالیمار اسٹوڈیو میں بطور کہانی نویس اور مکالمہ نگار ملازمت کر لی۔ تقریبا دو سال وہاں گزارنے کے بعد بمبئی چلے گئے اور فلمی صنعت کے لیے مکالمے لکھنے لگے۔ یہاں مالی حالت کچھ بہتر ہوئی۔ وہ واقعی محنتی تھے۔ 1947 میں اخترالایمان نے شادی کر لی جو کامیاب بھی رہی۔

اختر الایمان ایک صلح جو انسان تھے لیکن لفظ کے تقدس پر کوئی آنچ ان کو گوارا نہیں تھی۔ ہمعصر شاعروں کے بارے میں ان کی رائے کچھ اچھی نہ تھی اور اکثر کے لیے بہت ہی سخت زبان استعمال کرتے رہے لیکن یہ ان کی خود پسندی کا نہیں بلکہ لفظ کی حرمت کی پاسداری کا معاملہ تھا۔ ممبئی میں فلم کے لیے پانچ دہائیوں کے دوران اخترالایمان نے سو (100)سے زیادہ فلموں کے مکالمے لکھے جن میں کئی کام یاب ثابت ہوئیں اور وقت اور دھرم پتر وہ فلمیں تھیں جن کے لئے اخترالایمان کو بہترین مکالمہ نویس کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ اخترالایمان کی نظموں کے دس مجموعے شائع ہوئے جن پر وہ ادبی انعامات کے حق دار بھی قرار پائے۔ (ماخوذ)

یہاں ہم اخترالایمان کے انٹرویو میں شامل چند سوال اور ان کے جواب نقل کررہے ہیں جو اطہر فاروقی نے کیا تھا اور یہ مصنف کی کتاب ‘گفتگو ان کی’ (2005)میں شامل ہے۔

س: ہندوستان اور پاکستان کی موجودہ شاعری کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے ؟
ج : اچھی شاعری کے لیے پہلی لازمی شرط یہ ہے کہ وہ روایتوں کی حدود سے انحراف تو کرتی ہو مگر شاعر روایتوں سے کما حقہ، واقف بھی ہو۔ اچھی شاعری کی دوسری شرط شاعری کا نیا پن ہے۔ کوئی شاعر اس وقت تک نئی شاعری نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کے ذہن میں نئی شاعری کا مفہوم واضح نہ ہو اور اس نے دنیا کے عظیم شعری سرمایے کا مطالعہ نہ کیا ہو۔

آج ہندستان اور پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر اس خطے میں جہاں جہاں اردو داں عوام آباد ہیں وہاں وہاں غزل کے اثرات اور باز گوئی کی اجارہ داری ہے۔ ان دونوں ممالک میں تو خصوصاً رسمی شاعری کا غلبہ ہے۔ پاکستان کی نئی نسل پر فیض کی گہری چھاپ ہے اور فیض غزل کے اسیرِ محض ہیں۔ غزل کی روایت کو فیض سے منہا کرنے کے بعد فیض معدوم ہو جاتے ہیں۔ فیض کی تقلید نے پاکستان کی نئی شاعری کے بڑے حصّے کی باڑھ مار دی ہے۔ اس کے برعکس ہندستان کے بعض شاعر innovation کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ عظمت اللہ اور عبدالرحمن بجنوری کے بعد اردو شاعری میں جو نیا رجحان پیدا ہوا تھا، ن۔ م۔ راشد، میر اجی اور خود میں اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں اور ہندستانی شعرا کی نئی نسل ہم سب سے اکتساب کر رہی ہے۔

س : اردو شاعری کے سیاق و سباق میں آپ کی بوطیقا پہلی نظر میں بہت نرالی معلوم ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہندستان میں اردو شاعروں کی نئی نسل آپ کا احترام تو کرتی ہے مگر آپ کے دفاع کی کوئی عملی کوشش ہمیں جدید اردو شاعروں کے درمیان نظر نہیں آتی۔ اگر یہ صورتِ حال برقرار رہی تو کیا آپ کی شاعری کا حلقۂ قارئین روز بہ روز محدود نہیں ہوتا جائے گا؟
ج : مستقبل میں کیا ہو گا، یہ سوچنا میرا کام نہیں۔ میں جو صحیح سمجھتا ہوں وہی کرتا ہوں۔ میرے شعری نظریے میں کوئی نرالا پن نہیں ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ اردو شاعری کا قاری اور تخلیق کار دونوں ہی سہل پسند واقع ہوئے ہیں۔ انھیں زندگی کی پیچیدگیوں کا عرفان ہے ہی نہیں، جب کہ میرا نظریہ یہ ہے کہ زندگی کی پیچیدگیوں سے ان کی تمام تر وسعتوں کے ساتھ لطف اندوز نہ ہونا، انھیں ممیز نہ کر پانا اور مواد کو پرانے ڈھنگ سے پیش کرنا کلامِ موزوں تو ہو سکتا ہے، اسے شاعری کسی طرح نہیں کہا جا سکتا۔

میں شاعری کو مذہب کی طرح مقدّس اور مکمل انہماک سے کرنے کی شے سمجھتا ہوں۔ ہماری نسل کے لوگوں سے پہلے شاعری خارجی اور داخلی خانوں میں تقسیم تھی۔ داخلی شاعری میں تو غزل آ جاتی ہے اور خارجی شاعری میں نیچر وغیرہ کا بیان شامل ہوتا تھا لیکن جہاں تک میری شاعری کا تعلق ہے وہ خارجی اور داخلی دونوں دائروں سے باہر ہے۔

I do want and try to discover the man inside

And outside with all the complexities.

اور یہیں سے میرا شعری رویہ تمام پیش رو اور ہم عصر شعرا سے مختلف ہو جاتا ہے۔ میرے ہم عصر شعرا میں راشد اور میرا جی شاعری کے قدیم ڈھرے سے بالکل ہٹے ہوئے لوگ ہیں۔ ہمارے بعد جو لوگ آئیں گے انھیں ہم سے آگے جانا ہو گا۔ جب لوگ سامنے آئیں گے تو وہ چلیں گے بھی کیوں کہ آخری آدمی تو کوئی نہیں ہوتا۔

س : پاکستان اور ہندستان کے درمیان نفرت کی جو سیاسی کھیتی پھل پھول رہی ہے، اس کا اثر ادب پر بھی پڑا ہے۔ ہمارے کئی بلند پایہ شعرا کے تئیں پاکستانی ناقدین جانب دارانہ رویہ رکھتے ہیں۔ فیض کو واحد عہد ساز شاعر ثابت کرنے کی بیماری تو اب مضحکہ خیز حدود میں داخل ہو چکی ہے۔ کیا آپ کے خیال میں اس کے سدِّ باب کی کوئی راہ ہے؟
ج : پاکستانی معاشرے کے مزاج میں عدم تحمّل اور عدم رواداری کا دخل بہت گہرا ہے، جب کہ ہندستان میں معاشرتی صورتِ حال بہت مختلف ہے۔ ویسے بھی پنجاب کے لوگوں کا خاصّا ہے کہ وہ اپنے آدمی کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ خوش حال صوبہ ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں اور پاکستانی سیاست پر پنجاب کی اجارہ داری رہی ہے اور فیض کے حوالے سے وہی اجارہ داری پنجابی پاکستان کے تمام اردو داں عوام پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ پنجابیوں کی یہ پرانی عادت ہے۔ سر عبد القادر ایسے تعلیم یافتہ شخص کے یہاں اقربا پروری یعنی سخن فہمی سے زیادہ طرف داری کا رجحان نظر آتا ہے۔ تاثیرؔ، فیضؔ، حفیظ ؔ جالندھری وغیرہ تمام لوگ ان کے فدویِ محض تھے۔ ہندستان کا موجودہ معاشرہ بہ حیثیتِ مجموعی اپنے ماضی سے بالکل مختلف ہے۔ معاشرے میں ہر سطح پر شکست و ریخت کا عمل جاری ہے جو بالکل فطری ہے، اسی لیے، ہندستانی ادب میں آپ کو کہیں بھی باسی پن نظر نہیں آئے گا۔

س : آپ کا مجموعہ ’’زمین زمین‘‘ آپ کے شعری سفر کا اہم سنگِ میل ہے۔ اس کے پیش لفظ میں آپ نے لکھا ہے کہ پہلے ہم یہ طے کریں کہ کلاسیکی ادب کی تعریف کیا ہے۔ ایک عہد گزرنے کے بعد آپ اپنے عہد کے کن لوگوں کو روایت Legend میں شمار کرتے ہیں ؟
ج : یہ بڑا مشکل سوال ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو لوگ ہمارے ذہن میں بھی نہیں آتے، آخر میں ان ہی کے نام محفوظ رہ جاتے ہیں۔ کئی لوگوں کی مکمل تخلیقات یا ان کے نام کا کوئی ایک حصّہ باقی رہ جاتا ہے۔ فیض ہمارے عہد کے ایک قابلِ ذکر شاعر ہیں لیکن ان کی پریشانی یہ ہے کہ وہ کسی بھی عنوان سے اور کسی بھی موضوع پر شاعری کریں، غزل کے حصاروں سے نکل ہی نہیں پاتے۔ ان کے یہاں Superficiality ہے اور Deep penetration نہیں کے برابر ہے۔

س : آپ کا نظریۂ شعر کیا ہے ؟ بڑی شاعری کیسے وجود میں آتی ہے یا آ سکتی ہے ؟
ج : شاعری میں شاعر کی نفسیات کار فرما ہوتی ہے اور اس شخصیت کی تشکیل و ترتیب میں شاعر کے اپنے ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے جو محرک کے طور پر جاری وساری رہتا ہے۔ شاعر اپنے ماحول سے جو اثرات قبول کرتا ہے ان کے مرکّب میں اس کے تعصبات و توہمّات بھی شامل ہوتے ہیں اور مثبت اقدار بھی مگر اچھی شاعری کا ایسا کوئی پیمانہ مقرر کرنا ممکن نہیں جس کی تشہیر اردو ناقدین کرتے رہتے ہیں۔ اگر شاعر کا مزاج سطحی ہے تو شاعری بھی سطحی ہو گی اور اس میں زندگی کے مسائل کا بیان بھی سطحی ہی ہو گا۔ اردو غزل کی زلف کے اسیر تمام اساتذہ کے یہاں زندگی کے مسائل کے بیان میں تہ داری نام کی شے سرے سے مفقود ہے اور اردو تنقید کا لہجہ بھی جاگیر داری دور کی غزل کا لہجہ ہے۔

س : آپ کے بعض ہم عصر جو ابتدا میں نئی شاعری کے نقیب تصوّر کیے جاتے تھے اور ایک زمانے میں ان کا بڑا نام تھا مگر آہستہ آہستہ ان کا اثر معدوم ہو رہا ہے۔ مثلاً علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی وغیرہ، اس کی کیا وجہ ہے ؟
ج : نئی شاعری اور نعرے بازی میں بڑا فرق ہے۔ خطابت بھی نئی شاعری میں شمار نہیں ہو سکتی۔ موٹی موٹی ادق کتابوں اور تنقیدی اصطلاحات کو حفظ کرنے اور انھیں شاعری میں کھپا دینے کا نام بھی شاعری نہیں ہے۔ شاعری نام ہے پورے فہم و ادراک کے ساتھ زندگی کے مسائل کے بیان کا اور اس کے لیے بڑی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دراصل یہ لوگ انقلابی کبھی تھے بھی نہیں۔ یہ مارکسسٹ بھی نہیں تھے، بلکہ صرف سوویت یونین کے مدح خواں تھے۔ اشتراکیت کو مذہب سے متصادم کرانے میں ایسے نام نہاد انقلابیوں اور سوویت یونین کے مدح خوانوں کا بڑا اہم رول رہا ہے۔

س : کیا آپ اپنے علاوہ بھی کسی ہم عصر شاعر کو اس پائے کا تخلیق کار تصوّر کرتے ہیں جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اس نے اردو ادب میں کوئی اضافہ کیا ہے ؟
ج : میرے خیال میں ادب میں اضافے کا معاملہ کافی پیچیدہ ہے۔ اضافہ ہوتا ہے، خیالات کا، رجحانات کا، زبان کے دروبست کا، اس میں وسعت اور اس کے استعمال کا۔ میں بار بار زبان کو وسعت دینے کی بات اس لیے کرتا ہوں تاکہ جتنے موضوعات و مضامین زندگی کا حصہ ہے، ان سب کو نظم کیا جا سکے۔ ہمارے سماج میں ریل گاڑی بھی ہے، موٹر بھی ہے، جہاز بھی ہے اور یہ سب کسی نہ کسی طرح ہمارے معاشرے کا حصّہ ہیں۔ میں نے اپنی شاعری میں ایسے تمام لفظوں کو علامت کے طور پر وسیع تر مفہوم کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ زندگی کی پیچیدگیوں کا اظہار غزل کے ذریعے بہت سطحی انداز میں کیا جا سکتا ہے۔ میں غالبؔ کو غزل کا نقطۂ عروج مانتا ہوں اور غالب کے بعد کی منزل کو صرف اور صرف باز گوئی سے تعبیر کرتا ہوں۔

س : اقبال کی غزلیہ شاعری کو آپ کس زاویے سے دیکھتے ہیں؟
ج : غزل اقبال کے مضامین کی متحمّل ہو ہی نہیں سکتی۔ اقبال نے صرف غزل کی ہیئت کو استعمال کیا ہے، ان کے مضامین تو نظم کے مضامین ہیں۔ خودی کا سرِ نہاں، لا الہ الا اللہ ان کی غزل ہے۔ غزل ایسی کہاں ہوتی ہے؟ اقبال سے پہلے یا ان کے بعد کسی نے ایسی غزل کہی ہے، ذرا اس نوعیت کے اشعار تو دیکھیے :

میں کہاں ہوں تو کہاں ہے یہ مکاں کہ لا مکاں ہے
یہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی

اسلوب و لفظیات سے لے کر موضوعات تک اقبال کی شاعری کا ڈھرا روایتی اردو شاعری سے بالکل مختلف ہے۔ انھوں نے کہیں کہیں نظم کو غزل کے سانچے میں ڈھال کر بات کرنے کی کوشش کی ضرور ہے مگر صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے کیوں کہ ان کی شاعری کا مزاج اردو غزل کے مزاج سے بالکل مختلف ہے۔

س : فلم جیسے طاقت ور میڈیا سے ایک کامیاب مکالمہ نگار کی حیثیت سے آپ کی طویل وابستگی رہی ہے۔ اپنے تجربات کی روشنی میں آپ کا ہندوستان میں اردو کے مستقبل کے بارے میں کیا تجزیہ ہے؟
ج : میرا اپنا ماحول کم و بیش اردو کا ہے۔ میں مہاراشٹر میں رہتا ہوں جہاں کچھ برس تک یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ اردو کمزور ہو رہی ہے یا ختم ہونے کے قریب ہے۔ گزشتہ چھے سات برسوں میں میں نے اپنی فلمی مصروفیات کو کافی کم کیا ہے اور اس زمانے میں ہندستان کے اردو عوام سے میرا کافی رابطہ رہا۔ اپنے گذشتہ چھے سات برسوں کے تجربات کی روشنی میں مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلّف نہیں کہ ہندستان میں اب اردو صرف مسلمانوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے اور تیزی سے رو بہ زوال ہے۔ آج نہ تعلیم یافتہ مسلمان اپنے بچوں کو اردو پڑھا رہا ہے اور نہ مسلم لیڈر شپ کو اردو کے مسائل سے کوئی دل چسپی ہے۔ تقسیمِ ہندوستان کے نتیجے میں ہندوستانی تہذیب کی پوری عمارت ہی زمین بوس ہو گئی تھی۔ اگر اردو کے خلاف حکومت کی منظم سازشوں کا تسلسل برقرار رہا تو ہندستان کا سیکولر کردار بھی ختم ہو جائے گا اور اگر سیکولر کردار ختم ہو گیا تو پھر ہندوستان کی سالمیت بھی کہاں باقی رہے گی؟

شاید آپ یہ بھی پسند کریں