اردو غزل کے مروجہ لوازمات سے بھر پور شاعری کرنے والے ثروت حسین کی غزلیں اور نظمیں وجدانی کیفیت سے لبریز ہیں۔ ثروت حسین نے اپنے مشاہدے کی قوت اور اپنے خیالات کو جس طرح اشعار میں ڈھالا ہے، وہ اپنے اندر ایک عجیب سی دلکشی رکھتا ہےاور یہی دلکشی ثروت کی شاعری کی انفرادیت ٹھہری۔ شاعر ثروت حسین کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انھوںنے پٹڑی پر ٹرین کے آگے آکر خود کشی کی تھی، لیکن یہ ایک رازہے. مشہور یہ ہوا کہ وہ ایک شاعرہ کی محبّت میں گرفتار ہوگئےتھے لیکن یہ محبت یک طرفہ رہی اورمحبوب کی بے نیازی نے انھیں زندگی ختم کرنے پر مجبور کردیا۔ مگر ان کی موت کو آج بھی حادثہ تصور کیاجاتا ہے.
ثروت حسین کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے.
موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خود کُشی کے بارے میں
ثروت حسین کی شاعری پر معروف نقاد قمر جمیل لکھتے ہیں۔ ”ہمارا آج کا شاعر ثروت حسین بھی اپنے فطری احساسات اور تجربوں سے اپنی روح کے دکھ لکھ لکھ کر اپنی روح پر فتح پاتا ہے. وہ اپنے خوب صورت لفظ وجدانی طور پر منتخب کرتا ہے. اس کے نغمے آنسوؤں سے نہیں اس کی روح سے جنم لیتے ہیں۔ اس کے ہاں وجود کے ہزاروں دروازے ہیں اور ہر دروازے میں آنکھیں۔”
شاعر ثروت حسین 9 ستمبر 1996ء کو کراچی میں ٹرین کی ٹکر سے ہلاک ہوگئے تھے. اس روز ریل کے انجن میں بیٹھے ڈرائیور کو کیا معلوم تھا کہ ثروت حسین نامی کوئی شخص بالارادہ موت کو گلے لگانے چاہتا ہے یا پھر ایک حادثہ اردو ادب کو خوب صورت شاعر سے محروم کر دےگا۔
ثروت حسین کے والد بدایوں سے ہجرت کرکے کراچی آئے تھے۔ ثروت نے نومبر 1949ء کو کراچی میں آنکھ کھولی۔ وہ کراچی کے علاقہ ملیر میں رہتے تھے اوران کی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول ملیر کینٹ میں ہوئی.بعد میں علاّمہ اقبال کالج، اولڈ ائیر پورٹ سے ایف ۔ اے کیا۔ اسکول کے زمانے ہی سے شاعری کا شوق ہو گیا تھا، لیکن باقاعدہ شاعری کالج کے دور میں شروع کی اور بیت بازی کے ساتھ شعروسخن کی محافل میں شرکت کرنے لگے۔اسی زمانے میں ان کی شاعری مختلف روزناموں اور جرائد میں شایع ہونے لگی۔جامعہ کراچی سے ایم۔ اے اردو کی سند حاصل کرنے تک ثروت حسین کراچی کے ادبی حلقوں میں بطور شاعر پہچان بنا چکے تھے۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ ملّیہ کالج، ملیر میں بطور لیکچرر ملازمت کرنے لگے اور لاڑکانہ و حیدرآباد کے تعلیمی اداروں میں بھی تدریس کے فرائض انجام دیے۔
ثروت حسین کا اسلوب جداگانہ اور ان کا کلام خوب صورت لفظیات سے آراستہ ہے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں اپنے موضوعات کے لحاظ سے بھی منفرد ہیں اور ندرتِ خیال کے ساتھ یہ کلام دل کش اور معنٰی آفریں بھی ہے۔ ثروت حسین کا شمار اپنے وقت کے ان شعرا میںہوتا ہے جنھوں نے نثری نظم کو بھی اعتبار بخشا۔ ان کا پہلا مجموعہ آدھے سیّارے پر 1989 میں شائع ہوا تھا اور دوسری کتاب بعنوان خاک داں ان کی موت کے بعد 1998ء میں شایع ہوئی۔
ان کےشعری مجموعہ سے دو منتخب غزلیں پیشِ خدمت ہیں
غزل
اور دیوارِ چمن سے میں کہاں تک جاؤں گا
پھول تھامے ہاتھ میں اُس کے مکاں تک جاؤں گا
جل اٹھے گی تیرگی میں ایک ست رنگی دھنک
شاعری کا ہاتھ تھامے میں جہاں تک جاؤں گا
منتظر ہو گی مری، وہ آنکھ فواّرے کے پاس
دشت سے لوٹوں گا صحنِ گلستاں تک جاؤں گا
آئینے میں عکس اپنا دیکھنے کے واسطے
ایک دن اس چشمۂ آبِ رواں تک جاؤں گا
ظلمتوں کے دشت میںاک مشعلِ خود سوز ہوں
روشنی پھیلاؤں گا ثروت جہاں تک جاؤں گا
غزل
راہ کے پیڑ بھی فریاد کیا کرتے ہیں
جانے والوں کو بہت یاد کیا کرتے ہیں
گرد جمتی چلی جاتی ہے سبھی چیزوں پر
گھر کی تزئین تو افراد کیا کرتے ہیں
کام ہی کیا ہے تیرے زمزمہ پردازوں کو
باغ میں مدحتِ شمشاد کیا کرتے ہیں
پھول جھڑتے ہیں شفق فام ترے ہونٹوں سے
ایسی باتیں تو پری زاد کیاکرتے ہیں
ہم نے ثروت یہی جانا ہے گئے لوگوں سے
آدمی بستیاں آباد کیا کرتے ہیں