الله رب العزت نے مجھ جیسے گناہ گار کو آقا کریم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت سے لے کر کربلا تک لکھنے کا شرف بخشا- یقین جانیے کبھی لکھنے کے لئے قلم کے ساتھ آنسوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے- ان آنسوں کے بغیر ہم اپنے جذبات کا اظہار نہی کر سکتے- میں آج بھی سمجھ نہیں پا رہا اپنے غم کا اظہار کہاں سے کروں اپنے دکھ کا اظہار کن الفاظ میں کروں روح ہل گئی دل ٹوٹ گئے- ایک وار16 دسمبر 1971 کو ہمارے دل پر وار ہوا اور 16 دسمبر 2014 کو ایک بار پھر ہمارے دلوں پر وار کیا گیا- 43 سال پہلے جہاں اپنے وطن عزیز کے ٹکڑے کی جدائی کا دکھ تھا وہیں آج اسی جیسے ایک اور دکھ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا- پہلے ہماری دھرتی ماں اور اب میری ماؤں کے جگر کے ٹکڑے ان سے جدا کیے گئے، شاید کسی زبان میں ایسے الفاظ نہیں جو دہشت گردوں کی سفاکیت یا ان ماؤں کا دکھ بیان کرسکیں۔
فاطمہ والدین کی اکلوتی اولاد تھیں کافی سالوں کے بعد اسکے والدین کے گھر فاطمہ کی آمد ہوئی تھی یہی وجہ تھی فاطمہ گھر کی رونق اور ماں کے وجود کا حصہ تھیں- فاطمہ نے جب سے چلنا سیکھا اس کی ماں اس کے پیچھے چلتی ہراس جگہ جاتی جہاں یہ ننھی پری جاتی اور اگرفاطمہ کبھی گرتی تو اس کی ماں اسے بےقراری سے سینے سے لگاتی’ اسکے ننھے ہاتھ پاؤں کے بوسے لیتی اور آخرکیوں نہ لیتی فاطمہ اپنی ماں صبا کی کل کائنات تھی۔
کچھ روز سے فاطمہ کی طبیت ناساز تھی وہ پارک میں جانے کی زد کر رہی تھی- آج صبح جب ماں نے فاطمہ کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا، تیار کیا تو فاطمہ بولی،’’امی جان آج اسکول سے واپسی پرہم ضرور پارک میں جائیں گےکھلونے لیں گے اور خوب کھیلیں گے‘‘۔ اس کی ماں کے چہرے پرمسکراہٹ تھی اورفاطمہ کی باتیں سنتی جارہی تھیں ابھی باتیں جاری تھیں کے اسکول کی وین کا ہارن بجا! ماں نے فاطمہ کو وین میں بٹھایا اور جب تک وین وہاں سے چلی نہی گئی وہ دیکھتی رہیں اور فاطمہ ننھا سا ہاتھ وین سے ہلاتی رہیں-
فاطمہ کو اسکول بھیج کر کافی دیر وہ فاطمہ کے مستقبل کو تصورکرکے مسکراتی رہیں چند لمحے بعد اپنے اور فاطمہ کے کپڑے نکالے جو آج پارک جانے کے لئے پہنانا تھے اس سے فارغ ہو کر فاطمہ کی ماں گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئیں- اسی دوران ان کے کانوں میں اسکول پرحملے کی خبر پڑی- یہ سنتے ہی فاطمہ کی ماں دیوانہ وار اسکول کی طرف بھاگی- جہاں ہر طرف فائرنگ کی آوازیں تھیں- ماں نے بیقراری میں اسکول کے اندر جانا چاہا مگر انتظامیہ نے روک دیا- کچھ بچے اسکول سے باہرآرہے تھے مگر فاطمہ کا کچھ پتا نہ تھا- اسی دوران صبا کی نظر خون میں لت پت فاطمہ کے ننھے شوز پر پڑی- چند لمحوں بعد فاطمہ کا ننھا بدن خون سے رنگے یونیفارم میں صبا کے سامنے تھا یہ قیامت خیزمنظردیکھ کر صبا شدتِ غم سے گریں اور بیہوش ہوگئیں۔ صبا نے کبھی سوچا بھی نہی تھا اسکی خوشیاں اتنی مختصر ہوں گی- آج فاطمہ کی ماں ننھی سی بیٹی کا پہاڑجیسا غم دیکھ کر بےبسی کی تصویر بن چکی ہے- اس کی دنیا ویران ہوگئی اور وہ یہی پکاررہی ہے کہ ’’ فاطمہ تم کہاں ہو؟ تم تو میرے وجود کا حصہ ہو کہاں چلی گئی اپنی ماں کو اکیلا چھوڑ کر‘‘۔
آج ساری پاکستانی قوم آرمی چیف راحیل شریف صاحب سے التجا کرتی ہے وہ سزائے موت کو روکے جانے والے آرڈیننس کو معطل کروا کر تمام مجرموں کو اسی ہفتے سرِعام سزائیں دلوائیں- آرمی چیف اپنی سربراہی میں تحقیقات کروائیں اگر بیرونی ہاتھ ملوث ہے تو عالمی دباؤ ڈلوا کر دشمنوں کو سزائیں دلوائیں اور اگر ملکی عناصر ملوث ہیں تو انھیں فوری عبرت کا نشان بنائیں تاکے آیندہ کسی کی جرات نہ ہو وہ ایسا کر سکے۔ جب تک ان درندوں کو عبرت ناک سزائیں نہی دی جائیں گی یہ وار کرتے رہیں گے۔ اس قوم نے بہت قربانیاں دی ہیں آج کوئی اورنہیں صبا جیسی ہماری مائیں انصاف کی طالب ہیں اگر آج بھی انصاف نہ ہوا تو قاتل جیت جائیں گے اوراس قوم کی مائیں ہارجائیں گی۔
سنا ہے خون سستا ہے وہاں پر
وہ بستی جس کو پاکستان کہتے ہیں