بچے تو بچے ہوتے ہیں چاہے ان کا تعلق دنیا کے کسی حصے، قوم یا مذہب سے کیوں نہ ہو۔ انسانی فطرت ہے جہاں کہیں کوئی بچہ تکلیف میں ہو اس کی تکلیف کو برداشت کرنا انسان کے لئے ناممکن نہی تو مشکل ضرور ہوتا ہےمگر اس تکلیف کو محسوس کرنے کے لئے انسان ہونا شرط لازم ہے۔
دنیا بھر میں بچوں کی بیشتر اموات پیدائش کے وقت یا کسی بیماری کی شدت سے ہوتی ہیں مگر ہمارے ہاں عہد جاہلیت کی طرح بیشتربچوں کی اموات کے ذمہ دار ہم خود ہیں نہ جانے ہمارے بچوں کو کس کی نظر لگ گئی کل تک جن ماؤں کہ دلوں کا قرار تھے یہ بچے، آج وہی مائیں ان کی جدائی سے بیقرار ہیں۔
ہمارے جمہوری حکمرانوں نے وطنِ عزیز کی یہ حالت کردی ہے کہ جب بدقسمتی سے بچے کو پیدائش کے بعد سرکاری ہسپتال میں داخل کرانا پڑے تو علاج تو دور کی بات بچے کی انگلیاں ہی چوہے کھا جاتے ہیں اورغریب کے ہاں جب بچے کی پیدائش ہو تو اس کے لئے سرکاری ہسپتالوں میں آکسیجن ہی موجود نہی ہوتی۔ تھرمیں اموات کا سلسلہ تو پہلے ہی جاری تھا بس ضرورت تھی حکومتی اقدامات کی جس کو بابا جی (قائم علی شاہ)نے یہ کہہ کرپورا کردیا کہ تھر میں اموات بھوک سے نہیں غربت سے ہو رہی ہیں لہٰذا میں اور میری حکومت بری الذمہ ہیں۔ اس بیان کے بعد میں یہی سوچتا رہا غربت اوربھوک میں کیا فرق ہے مگرجہاں بھی دیکھا یہی پتا چلا بھوک اورغربت تو ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔
اگر تھر اورسرگودھا میں بچوں کی اموات کے ذمہ داروں کا احتساب ہو جاتا تو کسی کی جرات نہ ہوتی آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہمارے بچوں کو اس بےدردی سے شہید کرنے کی کہ انھیں ڈر رہتا اگر ہم ایک بچے کو بھی قتل کریں گے تو ہمیں نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔
مگر افسوس تھر میں اموات کے ذمہ داروں کا احتساب کرنے کے بجائے اس فوڈ انسپکٹر کو ہی جیل میں ڈال دیا گیا جس نے اس سارے واقعے کی رپورٹ دی۔
پشاور میں اموات پر جنرل راحیل شریف نوٹس نہ لیتے تو شاید اس کا الزام بھی سیکورٹی گارڈ یا ملازم پرلگا کربات ختم ہو جاتی مگرآج پاکستانی قوم ظلم کے خلاف کھڑی ہو چکی ہے پوری قوم جنرل راحیل شریف اور افواج پاکستان کے ساتھ ہے اور اپیل کرتی ہے کہ ہرقاتل کا سر قلم کریں چاہے تھر ہو یا سرگودھا یا پھرماڈل ٹاؤن ہو۔ ناصرف یہ بلکہ کراچی سے بلوچستانہو یا کوئی اور قتل عبرت ناک سزائیں دلوائیں ہر بچہ آپ کا بچہ ہے یہ ملک آپ کا ہے اس قوم کو
آپ سے بہت امید ہے۔ کراچی سے خیبر تک ہر مظلوم آپ کی طرف دیکھ رہا ہے لہٰذا ضربِ عزب کا وارہر قاتل کی گردن پرکیجئے کہ یہی وقت ہے فیصلے کا۔