2014اپنے پیچھےان گنت واقعات، سانحات، دکھ اورغموں کو چھوڑکرگزر گیا جو قومیں اپنے ماضی سے سیکھتی نہیں وہ حال کو سدھار نہیں سکتیں اوران کا مستقبل بھی ان کے ماضی کی طرح اندھیروں میں کھویارہتا ہے۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ کسی بھی ناگہانی آفت، قومی سانحے اورواقعے کے بعد پوری قوم اس پر سراپا احتجاج ہوتی ہے میڈیاپربریکنگ نیوز چلتی ہیں اورشوروغل بپا ہوجاتاہے۔ سیاسی جماعت پوائنٹ اسکورنگ کرنے میں پیش پیش نظر آتی ہیں لیکن رفتہ رفتہ وہ واقعہ محض ایک خبر بن کرختم ہوجاتا ہے۔ اس پر بننے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ بریکنگ نیوزکی دوڑ میں گم ہوجاتی ہے اوراس کے اسباب و محرکات کو قوم آہستہ آہستہ فراموش کردیتی ہے۔ اہم ترین واقعات، سانحات، سیاسی تغیرات اور مسائل کو بیان کرنے کا مقصدپاکستان کے حکمران، عوام اورمیڈیا کے سامنے آئینہ پیش کرنا ہوتا ہے تاکہ شعور کی شمعیں جلیں اورعوام اپنے حقوق کی آوازاٹھائیں اورحکمران محض بند کمروں کے اجلاس، تحقیقاتی کمیٹیاں بنانے کے بجائے عملی اقدامات کریں۔
پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ فروری 2014میںSave The Childrenورلڈ آرگنائزیشن کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق نومولود بچوں کی اموات میں پاکستان سرفہرست ہے۔ پاکستان میں ہرسال2لاکھ سے زائد بچے جاں بحق ہوتے ہیں جبکہ رپورٹ میں کہا گیا کہ زچہ و بچہ کے حوالے سے پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ہے۔2014ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں خسرہ کے131بچے جاں بحق ہوئے ۔ جبکہ اس سال پولیو کے291کیسز رپورٹ ہوئے۔ پولیو کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا کے بدنام ممالک میں سے ہے کہ یہاں پولیو کاوائرس ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ کروڑوں اوراربوں روپے اورملک بھرمیں لاکھوں سٹاف کے ساتھ چلنے والی یہ مہم کبھی دہشت گرد ناکام بنادیتے ہیں تو کبھی صحت کے شعبے سے وابستہ عملے کی غفلت۔ اس سال فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال میں بچوں کی اموات کا نہ تھمنے والا سلسلہ چل نکلا جو ابھی تک جاری ہے۔
جنوری2014میں 104,فروری میں192، مارچ میں 237، اپریل میں 238، مئی میں243، جون میں 278، جولائی میں299، اگست میں216اور ستمبر میں282بچوں کی اموات ہوئیں ۔اخبارات میں چھپنے والی (5نومبر2014ء) کی رپورٹ میں ایک سال میں2098بچے جاں بحق ہوئے ۔ بنوں کے ایک ہسپتال میں 21فروری2014کو طبی سہولیات نہ ملنے پر4نومولود بچے جاں بحق ہوئے، وہاڑی میں اسی سال ستمبر کے مہینے میں آکسیجن کی عدم فراہمی پر7نومولود بچے جاں بحق ہوئے۔سرگودھا میں آکسیجن کی عدم فراہمی اور میڈیکل آلات و مشینری کی کمی کی وجہ سے نومبر تا دسمبر125 بچوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ ایک ہی رات میں 50 بچوں کی ہلاکتوں کی خبر نے بھی پاکستان بھر کی فضا کو سوگوار بنادیاتھا۔ اگست تا ستمبر50دنوں میں بہاولنگر کے ہسپتال میں جعلی اور غیر معیاری ادویات کی وجہ سے122بچے جاں بحق ہوئے جن میں 56کی تصدیق کی گئی اورباقی ہلاکتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ 13دسمبر کو لاڑکانہ میں آکسیجن نہ ملنے پر5بچے جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سال تھرمیں بچوں کی موت رقص کرتی رہی اورروزانہ کی بنیادوں پر ہلاکتیں ہوتی رہیں۔
دسمبر2013ء سے نومبر2014ء تک سرکاری ریکارڈ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے293بچے جاں بحق ہوئے۔جبکہ مقامی میڈیا کے مطابق506بچے جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے(بی بی سی ،17نومبر)۔ سیکرٹری صحت سندھ کے مطابق ہلاک ہونیوالے بچوں میں زیادہ نومولود ہیں۔ ڈینگی، ملیریا، عطائی ڈاکٹروں، غیرتربیت یافتہ دائیوں کے ہاتھوں ملک کے طول و عرض میں مرنے والے بچوں کی تعداد ان کے علاوہ ہے جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ میڈیا کی پہنچ سے دور علاقوں خصوصاً بلوچستان میں کہاں کہاں موت رقص کرتی رہی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس کیلئے میرا ہی ایک شعر تمام واقعات کی منظر کشی کرتا ہے۔
مت پوچھو کہ کیا الم گزر رہے ہیں
شہرشہر، میرے بچے مررہے ہیں
اب درج بالا واقعات کی تحقیقات کی جانب آتے ہیں۔
* بہاولنگر میں 122بچوں کی ہلاکت پرکمشنر بہاولپور کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی کہ چلڈرن وارڈ میں ہونے والی بچوں کی ہلاکتوں پر مفصل رپورٹ تیار کی جائے۔ طویل تحقیقات مکمل کی گئیں اورمفصل رپورٹ پنجاب حکومت کو ارسال کردی گئی۔ ذرائع کے مطابق رپورٹ میں گزشتہ پانچ سالوں میں اربوں روپے کے گھپلے سامنے آئے اور محکمہ صحت کرپشن کا مرکزبنارہامگربچوں کی اموات اورکرپشن کیس پرمیڈیا کو بریف کرنے سے گریزکیا گیا جوحقائق کو منظرعام پرنہ لانے کے مترادف تھا جس سے تحقیقاتی کمیٹی کی نیت بھی سامنے آگئی۔ بہاولنگر میں122بچوں کی موت نہ ہی کسی بڑی تبدیلی کا باعث بنی اورنہ ہی ہم نے اس واقعے سے کچھ سیکھا بلکہ کرپشن کی جڑیں مزید مضبوط ہوگئیں
* وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وہاڑی اور سرگودھا کے اسپتالوں میں بچوں کی ہلاکت کا نوٹس لیااور مجرمانہ غفلت برتنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا تھا۔یہ خبریں بھی تمام اخبارات میں چھپیں۔ سرگودھا میں پہلا واقعہ نومبر میں درج ہوا جبکہ دسمبر کے آخر تک بچوں کی ہلاکتوں کا تسلسل رہا جس سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں تھا کہ بچوں کی ہلاکتوں پر بنائی گئی کمیٹی محض کاغذی کاروائی تھی۔ وہاڑی میں معائنہ کمیٹی کے سربراہ فرمان الہی اس ماہ میں تو کوئی رپورٹ جاری نہ کرسکے تاہم صرف ایک کلینر کو حراست میں لیا گیا۔ دونوں واقعات خبربن کرختم ہوگئے ۔
* الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں ہونے والی ہلاکتوں پررانا ثناء اللہ نے تردید کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ کوئی ہلاکتیں ہوئی ہی نہیں فیصل آباد جو کہ مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے اور مسلم لیگ ن پنجاب میں تو چھٹی مرتبہ اقتدار میں ہے یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ2005 میں شروع ہونے والا چلڈرن ہسپتال کا منصوبہ ابھی تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا۔
* چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے مارچ میں ریگستانی علاقے تھر میں چالیس سے زائد بچوں کی اموات کا نوٹس لیتے ہوئے سماعت شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سماعتیں ریمارکس اورریمارکس بیانات کی نذر ہوگئے اورتھر کے لوگوں کو کچھ نہ مل سکا نوٹس لینے والے جسٹس چلے گئے اور یہ کیس بھی لاکھوں کیسوں کی فائلوں میں دب گیا۔ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ تھر میں جاکر کھانے کھاتے رہے۔ دعوتیں مناتے رہے اور کبھی ہزار ہزار روپے تقسیم کرتے رہے۔ اناج خراب ہوتا رہا ۔ الغرض پورا سال ہی ہلاکتوں کا سلسلہ نہ تھم سکا اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔
2014میں صحت کے بجٹ کے حوالے سے یہاں ذکر نہ کیا جائے تو یہ مضمون ادھورا رہتا ہے ۔ وفاق میں صحت کا بجٹ 35ارب 60کروڑ رکھا گیا۔ پنجاب میں82ارب، سندھ میں17ارب 33کروڑ ، بلوچستان میں14ارب 15کروڑ اور KPKمیں 22ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا ۔ جو کل ملا کر 171ارب83کروڑ روپے بنتا ہے ۔ پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے یہ بجٹ سالانہ 95روپے فی کس بنتا ہے ۔ ہم اگر یہ تمام کا تمام بجٹ اپنے 9کروڑ بچوں کے نام کردیں توبھی ان کے حصے میں کم و بیش200روپے سالانہ اور16روپے ماہانہ آتا تھا۔ 16روپے میں تو بچوں کیلئے ایک دن کے بسکٹ لانا بھی مشکل ہے ان کی صحت کے اقدامات کرنا تو ناممکن ہے ۔ 2015میں عوام کو حکومت صحت میں کیا دے گی یہ تو اگلے سال کا بجٹ ہی بتائے گا۔ مگر اس سال جاں بحق ہونے والے بچوں کی کثیر تعداد نے ہمارے لیے سوالیہ نشان چھوڑ دیا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ اگر اسی طرح نوزائیدہ بچے مرتے رہے تو کسی ماں کو حق نہیں ہے کہ وہ بچے پیدا کرے اور کسی باپ کو بھی بچوں کی خواہش نہیں ہونی چاہئے۔