روشنیوں کے شہر کراچی کے حلقہ این اے دو سو چھیالیس میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات کا شور اٹھا کہ پورے ملک سمیت تمام تر میڈیا اور سماجی نمائندے اس کے جانب متوجہ ہوگئے ۔
پرانی کہاوت ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر عوام کھنچے چلے آتے ہیں اسی طرح حلقے میں حصہ لینے والی پارٹیوں نے جیت کے بڑے بڑے دعوے کئے ، اور ان کے بقول کراچی کی عوام پر خوف کی فضاء طاری ہے جسے ختم کرنا ضروری ہے ، کہا گیا کہ نوجوان نسل تبدیلی کی خوا ہاں ہے اور حلقے میں نوجوانوں کو سپورٹ کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیاگیا۔
پاکستان جیسے ملک میں یہ بات ٹھیک بھی ہے کہ یہاں کل آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، مگر محض نوجوانوں سے کچھ نہیں ہوتا، وہ تو نوجوان ہیں، غلطی کا سرزد ہونا عین ممکن ہے لیکن جب ان نوجوانوں کو بزرگوں کی رہنمائی نصیب ہوجائے تو پھر ایک مکمل تصویر بن جاتی ہے۔
بعض اوقات ایسا ہی ہوتا ہے کہ جیسے سڑکوں پر لوگ گاڑیوں کے شور سے تنگ بھی ہوتے لیکن برداشت کرنے پر مجبور بھی ہوتے ہیں اسی طرح حلقے کی عوام تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے دعویٰ کو سنتی رہی چونکہ دونوں جماعتوں نے سوائے سابقہ کامیاب ہونے والی جماعت پر تنقید کرنے کے سوا کوئی عوامی فائدے کی بات نہیں کی بلکہ کبھی نہاری کھانے پر مسلہ کھڑا ہوا تو کبھی نعرہ بازی پر تنقید کی گئی۔
اس پورے کھیل میں میڈیا نے بھی بھرپور کردار ادا کیا میڈیا نے بھی یمن کشیدگی سمیت دوسرے تمام بڑے واقعات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کراچی میں جاری ضمنی انتخاب کو اہمیت دی، چھوٹی چھوٹی چیزوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر دکھایا گیا کہ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ شاید 1988 سے اس حلقے میں کامیاب ہونے والی جماعت ایم کیوایم کو شکست کا سامنا ہوگا۔
یہ حلقہ متحدہ قومی موومنٹ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، چونکہ 1988 سے 2013 تک ایم کیو ایم یہاں فاتح رہی ہے اور اس کا ہیڈ کوارٹر 90 بھی اسی حلقے کے وسطی علاقے میں واقع ہے۔ اسی وجہ سے ایم کیوایم کے لئے یہ حلقہ انتہائی اہمییت کا حامل ہے اور اگر یہ کہیں کہ ایم کیوایم کی عزت داؤ پر لگی تھی تو غلط نہ ہوگا ۔جس کی وجہ سے ایم کیو ایم نے بھی اس حلقے کی الیکشن مہم میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ ماضی کے تمام تر انتخابات سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اور نہ صرف ایم کیوایم اوران کے رہنما بلکہ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے خود ماضی کے انتخابات کے مقابلے میں قدرے زیادہ عوام سے رابطہ کرتے نظر آئے۔
چند لوگوں کے مطابق ایم کیو ایم جو نائن زیرو پر چھاپے، الطاف حسین پر مقدمہ اور صولت مرزا کے بیان کے بعد تقریباً دفن ہوچکی تھی محض ایک ماہ میں بھرپور قوت بن کرسامنے آئی کہ ایم کیوایم ایک بار پھر مہاجروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی، بہت سے مہاجروں نے محض اس غصے میں ایم کیو ایم کو ووٹ دیا کہ صرف ہم ہی کیوں! باقی قومیتیں آسمان سے اتری ہیں۔
\این اے 246 کے ضمنی انتخابات کے موقع پر تبدیلی کا راگ الااپنے والے نوجواں سے زیادہ خواتین اور بزرگ افراد سخت گرمی اور دھوپ کے باوجود ووٹ ڈالنے کے لئے قطاروں میں نظر آئے ۔اس کے برعکس تبدیلی کا ڈھول پیٹنے والے نوجوان صرف فیس بک اور ٹوئٹر پر الیکشن مہم چلاتے نظر آئے ۔
کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 246 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کے نامزد امیدوار کنور نوید جمیل کامیاب ہوئے، متحدہ کے امیدوار کو 93 ہزار سے زائد ووٹ پڑے جبکہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عمران اسماعیل اور جماعت اسلامی کے راشد نسیم رہے ۔
شام ڈھلتے ہی ووٹنگ کے اوقات ختم ہونے کے بعد ایم کیو ایم کے کارکنوں کی بڑی تعداد موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر سوار ہوکر ریلیوں کی صورت میں عزیزآباد میں واقع جناح گراوٴنڈ پہنچی جس میں نوجوان، بچے، ادھیڑ عمر افراد اور خواتین بڑی تعداد میں شامل تھیں۔
فتح کے بعد جیت کا جشن مناتے ہوئے ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے کارکنوں اور ہمدروں سے خطاب میں تین روزہ جشن منانے کا اعلان کیا جس بعد تین روز تک ایم کیو ایم کے مرکز سے متصل جناح گراوٴنڈ میں متحدہ کے کارکنان اور ہمدردوں نے بڑی تعداد میں شرکت کرکے بھرپور انداز میں جیت کا جشن منایا۔
bostancı escort
ataşehir escort
anadolu yakası escort
pendik escort
kurtköy escort
maltepe escort
kartal escort
anadolu yakası escort
antalya escort
antalya escort
ankara escort
ataşehir escort
kadıköy escort
bostancı escort
escort bostancı
kartal escort
escort kartal
escort maltepe
maltepe escort
escort pendik
ataşehir escort
kadıköy escort
pendik escort
maltepe escort
kartal escort