شاہی خاندان میں ایک بچے کی پیدائش پر پوری دنیا جس طرح ہر دوسری بات بھول گئ ہے، لگتا تو یہی ہے کہ اس ایک خوشی نے باقی تمام مسائل کو ختم کردیا ہے۔ روز کئی بچے بھوک سے مررہے ہیں مگر ہمارا نیک اور پرہیزگار میڈیا ان بچوں کی طرف ایک نظر دینے کو تیار نہیں یا شائد افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم خود ہی ان مسائل کی طرف توجہ دینانہیں چاہتے۔ ہمیں لگتا ہے کہ آنکھیں بند کرلینے سے وہ مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے۔ انسانیت کا دعویٰ کرنے والی تنظیموں کو عورتوں کے حقوق دلانے سے فرست نہیں ملتی کہ اس طرف بھی دھیان دے سکیں۔ بچہ برطانیہ میں پیدا ہوا ہے جہاں لوگوں کے پاس حقوق بھی ہیں، جہاں بھوک بھی کسی نا کسی طرح ختم ہو ہی جاتی ہے، مگر ایسے ملک میں جہاں ایک بڑی آبادی بھوکے پیٹ ہی سونے پر مجبور ہے، جہاں حقوق کی دھجیاں تو ایسے اڑائی جاتی ہیں جیسے کسی کے باپ کی جاگیرہو، وہاں اس بچے کے لیےٴ خوشیوں میں کبھی فیس بک پر سٹیٹس دینا اور کبھی ٹویٹر پر ٹویٹ کرنا کچھ سمجھ نہیں آتی۔ سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ کچھ شاہی جیالوں نے پاکستان سے برطانیہ کی فلائٹ بھی کروا لیں تھی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ہرچوک پر بھکاری کھڑے ہوتے ہیں، جہاں جلسے کے بعد دیے گئے کھانے پر لوگ لڑ پڑتے ہیں، کیا وہاں یہ شوبازیاں سجتی ہیں؟ جہاں چائلڈ لیبر کے خلاف تحریکیں چلانے والے اپنے گھر میں بچوں کو ملازم رکھتے ہیں، وہاں تو پھر منافقت کی مثالیں قائم کی جا سکتی ہیں۔ وہاں پھر شاہی بچے کی خوشی میں یہ بھی یقیناً کم ہے۔
تھراور مٹھی کے بچے روز بھوک سے بلک بلک کر اپنی ننھی جانیں کھو رہے ہیں۔ بھوک کو تو چھوڑو، ایک بڑی آبادی کو پینے کا پانی تک تو میسر نہیں۔ پھر یہ بڑی بڑی باتیں کرنے والے کہاں چھپ جاتے ہیں؟ تب ملکہٴ برطانیہ کی سخاوت کہاں جاتی ہے؟ اپنے ملک کے میڈیا پرآفرین ہے کہ جو باقی ہر مسئلے کو بھول کر صرف یہ خبر سنانے میں مصروف رہا۔ جو تھرکو بھی بھول گیا اورجو بلوچستان کے بچوں کو بھی یاد نا کرے۔ آفرین ہے۔۔۔ جس کو یہ بھی نا احساس رہا کہ جس ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی بھوکی ہو، اس کو کسی ایسے بچے کی پیدائش سے فرق نہیں پڑتا جس سے اس کا رشتہ بھی نا ہو۔ اسے فرق پڑتا ہے تو اس چیز سے کہ اس کے بچے کا پیٹ کیسے بھرے گا۔ اس کو کسی عید پراپنے گھروالوں کے ساتھ چند پر سکون لمحات ملیں گے کہ نہیں۔ کیا اپنے بچے کو پڑھانے کے بعد اپنی قابلیت پراچھی نوکری کرسکے گا یا اس کا یہ حق کسی کی سفارش کی بھینٹ چڑے گا۔ کسی غریب کو شاہی بچے کے پیدا ہونے سے کوئی غرض نہیں پڑتا۔ فرق تب پڑتا تھا جب بادشاہ اپنی خوشی پوری سلطنت میں برابر بانٹتا تھا۔ جب شاہی خوشی میں شریک ہونے سے کسی غریب کا پیٹ بھرجاتا تھا۔ فرق تب پڑتا تھا۔۔۔ اب نا بھوک ختم ہوتی ہے، نا افلاس، مگر ہم نے آنکھیں پھیر لی ہیں، سچائی سے۔