کرپشن کسی بھی ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے،کسی زمانے میں اگر کوئی کرپشن کرتا تھا تو اس کی کوشش ہوتی تھی کہ اس جرائم کا کسی کو علم نہ ہو، شرفاءکرپٹ لوگوں کی صحبت سے بچتے تھے اور بے ایمان یا اختیارات سے تجاوز ،رشوت ،بے ایمانی ، اور چور راستوں کے متلاشی کو پسند نہیں کیا جاتا تھا، مگر اب تمام چیزیں اور تمام باتیں اسکے یکسر الٹ ہیں صورتحال اس قدر بگڑ گئی ہے کہ آج کرپشن کو اسٹیٹس سمبل سمجھا جانے لگا ہے، بے ایمانی اور اختیارات کے غلط استعمال کے ذریعے دولت کمانے والے کومعزز اور معتبر سمجھا جانے لگا ہے جو پاکستان کی نوجوان نسل کے مستقبل کے لیے باعث تشویش ہے ہمارا نوجوان طبقہ ایک ایسے معاشرے میں پرورش پارہا ہے جہاں کرپٹ لوگوں کو عزت اور ایمان دار لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اب رشوت لینے والے ڈنکے کی جوٹ پر رشوت طلب کرتے ہیں اور اہم عہدوں پر نااہل افسران بیٹھ کر بنا کسی خوف کے رشوت لیکر میرٹ کا قتل عام کرتے ہیں جس کی وجہ سے نقصان پاکستان اور اسکی عوام کو اٹھانا پڑتا ہے اور اگر اہم عہدے پر کوئی شخص ایمانداری کو اپنا شعار بنا لے تو اسے بےوقوف ،احمق،اور نہ جانے کیا کیا کہا اور سمجھا جاتا ہے۔
اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کا مجموعی رویہ بن چکا ہے.ہمارا المیہ یہ ہے کہ پورے معاشرے میں اوپر سے نیچے تک کرپشن سرایت کرچکی ہے۔اگر بڑے سیاستدان اور بیوروکریٹس بادشاہ اربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں تو سبزی فروش تول میں ڈنڈی مار کر اور دودھ بیچنے والا پانی ملا کر دو تین روپے کی کرپشن کرلیتا ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ جس کا جتنا بس چلتا ہے وہ اتنی کرپشن کرتا ہے اور اپنی ہی حد تک ہاتھ مارلیتا ہے۔اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ گلیمر کے اس دور میں معیار زندگی اوپر جارہاہے لیکن جائز آمدن کے ذرائع اس کا مقابلہ نہیں کرپارہے.ہمارے یہاں دو طبقات کرپشن کو جائز سمجھنے لگے ہیں ایک امرا جبکہ دوسرے غریب.بظاہر دونوں طبقات میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن کرپشن کے معاملےمیں دونوں کی سوچ یکساں ہے ۔
دولت مند طبقے نے اپنا رہن سہن اس قدر مشکل بنا لیا ہے کہ اس کے لوازمات پورے کرنا بعض اوقات ممکن نہیں رہتا،گلیمر اور ڈراموں کی چکا جوند سے متاثر ہوکر ایک بار اس طرح کا رہن سہن اپنا لیا جاے تواس سے کم گزارا کرنا زندگی موت کا مسلہ بن جاتا ہے اور ایسے لوگ اپنے ارد گرد ایسے ہی لوگ اکھٹے کرلیتے ہیں جسے وہ اپنی ہائی سوسائٹی سمجھتے ہیں۔
اور اپنی عیاشیوں اور اپنی لگڑری زندگی کو جاری رکھنے کے لیے کرپشن کا سہارا لیتے ہیں اور اسے اپنے نزدیک جائز سمجھتے ہیں۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جو غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔
ایک حدیث کامفہوم ہے کہ “غربت انسان کو کفر تک لے جاتی ہے” یہاں کچھ ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے غربت سے تنگ آکر عام شہری جب اپنے ارد گرد کی صورتحال دیکھتے ہیں تو انکے قدم لڑ کھڑا جاتے ہیں۔غریب عام آدمی کی آج یہ سوچ بن گی ہے کہ جب بڑے مگر مچھ کھارہے ہیں تو پھر انکا بھی حق ہے مگریہ الگ بات ہے کہ جتنی کرپشن عام آدمی کرتا ہے اتنے میں تو بڑے مگر مچھوں کی داڑھ بھی گیلی نہیں ہوتی اور اسی طرح یہ بھی تاثر عام ہے کہ حالات اور مہنگائی کے باعث عام آدمی پر کرپشن جائز ہوچکی ہے نہ کرپشن پر سیاستدانوں کا کنٹرول ہے اور نہ کوئی اور طبقہ اس پر قابو پانا چاھتا ہے اور یہ ہمارے پاکستان کے لیے کینسر کی مانند ہے جو پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے۔
سچائی تلخ ہی سہی لیکن بہتری کا راستہ دکھاتا ہے اور سچ یہ ہی ہے کہ ہمارے ہاں اگر کوئی اعلی شخصیات اربوں کی کرپشن کرتی ہیں تو ایک عام آدمی بھی دو چار روپے کی کرپشن کرنے میں مصروف رہتا ہے، ہم اپنے کمپیوٹر میں غیر رجسٹرڈ سوفٹ وئر انسٹال کرتے ہیں اور اپنے اس عمل کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بھی کرپشن میں شمار ہوتا ہے۔
مگر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کرپشن کی روک تھام کیلئے الزام تراشی کے بجائے کردار سازی پر توجہ دی جاے.جب تک عوام مجموعی طور پر کرپشن سے پاک نہیں ہوگی تب تک جتنے مرضی مظاہرے احتجاج اور دھرنے دیے جائیں کرپشن کا طوفان نہیں تھم سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد بھی عوام میں سے ہی ہوتے ہیں جو ہمارا مجموعی آئینہ ہوتے ہیں۔