The news is by your side.

حریف سے پہلے اپنے خوف کو شکست دیجیے

پاکستان کرکٹ ٹیم کو نیوزی لینڈ میں پانچ ایک روزہ میچز میں پانچ-صفر وائٹ واش شکست کے بعد کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ جو کل تک ہیرو کہلائے جارہے تھے آج وہ شائقینِ کرکٹ کے لیے زیرو ہیں۔ ہمارے کرکٹرز ہوں‘ شائقینِ ہوں یا پھر ماہرینِ کرکٹ سب ہی ان پریڈیکٹبل (ان کے لیے کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے) ہیں۔ کون کب کہاں قلابازی کھاجائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ شائقین کسی کھلاڑی کو ایک وقت میں سر آنکھوں پر بٹھالیں تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگلے ہی لمحے اسے زمین پر گرادیں۔ کھلاڑیوں کا تو کیا ہی کہنا کبھی بھی آپ کو حیران کرسکتے ہیں۔ ماہرین تو تنقید میں ہی ماہر ہوتے ہیں اور وہ تو اچھا کھیل پیش کرنے والے میں بھی نقص نکال ہی دیتے ہیں

ہمارے کرکٹرز نے جس طرح سے نیوزی لینڈ میں کھیل پیش کیا اسے دیکھنے کے بعد یہ بات تو طے ہے کہ ایسی کارکردگی دکھانے والے جیت کے مستحق ہوہی نہیں سکتے۔ خواہ وہ کوئی بھی ٹیم ہو۔ پانچ میچز میں کوئی بھی کھلاڑی وکٹ پر جمنے کی ہمت نہ جٹا پایا۔

نیوزی لینڈ کی سرزمین پر کھیلی جانے والی ایک روزہ میچز کی سیریز میں پاکستان کو ہمیشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین نیوزی لینڈ کی سرزمین پر پچھلے 45 سالوں میں بارہ ایک روزہ میچز کی سیریز کھیلی جاچکی ہیں جس میں پاکستان صرف 2 مرتبہ کامیاب رہا ہے۔ 1 سیریز بے نتیجہ اور9 ایک روزہ میچز کی سیریز میں نیوزی لینڈ کامیاب رہا۔ گزشتہ 8 سالوں کے دوران پاکستان ٹیم نے مجموعی طور پر نیوزی لینڈ کی سرزمین پر 17 میچز کھیلے ہیں۔ جس میں سے 3 جیتے اور 11ہارے 3 بے نتیجہ رہے۔ حال ہی میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں وائٹ واش شکست ایک بڑی شکست تھی۔ جس میں قومی ٹیم کے نہ تو بالرز نے اچھی کارکردگی دکھائی نہ ہ بیٹسمین اور نہ ہی فیلڈنگ میں کوئی کھلاڑی متاثرکن کارکردگی دکھا کر ابھر کر سامنے آیا۔ دوسری طرف نیوزی لینڈ تینوں شعبوں میں چھایا رہا۔

کھلاڑیوں نے نیوزی لینڈ میں جس بزدلی کے ساتھ بیٹنگ بالنگ کی وہ حیران کن تھا کہ کسی کھلاڑی نے اپنی سو فیصد کارکردگی دکھانے کی ہمت بھی نہیں کی۔

پاکستان سمیت ایشیا کی تمام ہی ٹیمیں اس عزم کا اظہار کرتی ہیں کہ وہ اپنے ملک یا ایشیا سے باہر انگلینڈ ، اسڑیلیا اور نیوزی لینڈ کی تیز پچز پر یادگار کھیل پیش کریں اور بہترین سمجھی جانے والی ٹیموں کو زیر کرکے آئیں۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا آپ ڈر و خوف کے ساتھ سامنے والی ٹیم کو اپنے اوپر حاوی کرکے میدان میں اتریں گے تو کیا کسی شعبے میں بہتر کھیل پیش کرسکتے ہیں ؟ حریف کو شکست دینے سے پہلے کھلاڑی اور ٹیم کو اپنے اندر موجود شکست کے خوف کو شکست دے کر میدان میں اترنا چاہیے۔ خوف کے سایے میں کھیلیں گے تو جیت نہیں سکیں گے۔

ایشیائی ٹیمیں اگر نیوزی لینڈ ، انگلینڈ ، آسڑیلیا جیسی ٹیموں کے سامنے مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ان کے میدانوں میں انھیں شکست دینے کا خواب دیکھنا بند کردیں۔ ہر گز نہیں۔ کوشش جاری رکھیے۔ لیکن ان سے بہتر کھیل پیش کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی تو بنائیے۔

کپتان سرفراز احمد کو نیوزی لینڈ کےخلاف سیریز میں شکست پر مایوس ہونے کے بجائے مزید سخت محنت کرنا چاہیے۔ ہمیشہ اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ قسمت بھی اسی کا ساتھ دیتی ہے جو بہادری سے مشکلات کا سامنا کرتا ہے اور اپنی سوچ، ارادوں کو عملاً حقیقت میں تبدیل کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔ سب ہی اپنے کل کو آج سے بہتر کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ صرف سوچتے ہیں کہ جو ہم چاہتے ہیں وہ کسی طریقے سے ہوجائے ۔ لیکن کچھ بہادری سے اپنے خواب اور اپنی سوچ کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی مستقل جستجو اور جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں۔ نتیجتاً وہ اکثر کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں